پاکستان اور افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی مسٹر رچرڈ ہالبروک اتفاق سے 22 جولائی کو اسلام آباد میں موجود تھے کہ جب سپریم کورٹ کی طرف سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو یہ نوٹس جاری کیا گیا کہ وہ عدالت میں اپنے دفاع کے لئے خود پیش ہو جائیں یا اپنا وکیل بھیجیں۔ اس نوٹس پر رچرڈ ہالبروک نے اپنے فوری ردعمل کا اظہار کیا جس کے الفاظ کچھ اس طرح سے تھے ”سابق صدر تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں امریکہ ان کا دفاع نہیں کرے گا پرویز مشرف کا کیس پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے امریکہ پاکستان کے آزاد میڈیا اور عدالتوں کا احترام کرتا ہے“۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے 3 نومبر 2007ء کو نافذ کی گئی ایمرجنسی اور ملکی دستور کی جگہ آئینی حکم (پی سی او) لانے کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے جو نوٹس جاری کیا گیا بلاشبہ اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ حکمرانوں کو بھی احتساب اور انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکتا ہے آزاد اور بااختیار عدلیہ کا مطالبہ بھی پورا ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے جبکہ یہ یقین بھی ہو چلا ہے کہ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کی قیادت میں پاکستان کے پورے عدالتی نظام کو جلد اور حقیقی انصاف فراہم کرنے سے متعلق ایسے موٴثر فیصلوں اور ٹھوس اقدامات کو سامنے لایا جائے گا کہ جس سے ایک طرف عدالتوں کے وقار اور احترام میں اضافہ ہو گا تو دوسری طرف عوام میں عدلیہ پر اعتماد میں اضافہ… گو کہ سپریم کورٹ نے سابق صدر کو جو نوٹس جاری کیا ہے اس کا تعلق ایمرجنسی کے نفاذ اور پی سی او سے ہے تاہم سابق صدر کے غیرآئینی اقدامات کو اگر محض 3 نومبر 2007ء کے اقدامات اور پی سی او تک محدود رکھا گیا تو یہ مکمل انصاف نہیں ہوگا۔ نواب اکبر خان بگٹی ، عبدالرشید غازی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سمیت لال مسجد آپریشن، 12 مئی 2007ء کی ٹارگٹ کلنگ، 9/اپریل 2008ء کو زندہ جلائے جانے والے وکلاء اور 18/اکتوبر 2008ء کو رونما ہونے والا سانحہ کارساز کا مقدمہ بھی سابق صدر جنرل پرویز مشرف پر چلنا چاہئے تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ وکلاء تنظیمیں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت مرحومین کے لواحقین بھی اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کریں تاکہ سابق آمر کو قرار واقعی سزا مل سکے۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں رچرڈ ہالبروک کے بیان کا ذکر کیا تو اس حوالے سے ہمارے نزدیک امریکی نمائندے کا اپنے سابق وفادار ساتھی اور حلیف کو محض ایک عدالتی نوٹس جاری کئے جانے پر ہی لاتعلقی کا اظہار کر دینا کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ جو لوگ امریکی نفسیات اور سیاست سے واقف ہیں انہیں یقینا معلوم ہو گا کہ امریکہ ڈوبنے والے کے ساتھ کبھی نہیں ڈوبتا اور نہ یہ اس کو بچانے کی کوشش کرتا ہے بلکہ یہ تو ہمیشہ متبادل کا انتظام اور اہتمام کئے رکھتا ہے، جانے والے کو ایک دھکا اور لگانا جبکہ آنے والے کو گلے لگانا امریکی خود غرضی ، مفاد پرستی اور طوطا چشمی کی بہترین مثال ہے۔ اس کے نزدیک دوستی، تعلقات اور اخلاقی تقاضوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی یہ کام نکالنے کے لئے کام کرتے ہیں اور جب کام نکل جائے تو کام تمام کرنے میں دیر نہیں کرتے، کتنے ہی حلیف، دوست اور اتحادی امریکہ کے اس بے رحم اور سفاک نظریئے کی بھینٹ چڑھ گئے تاہم حیرت ان پر ہے کہ جو امریکہ کی اس خود غرضی اور مفاد پرستی پر مبنی پالیسی کو جانتے ہوئے بھی اس کے اتحادی اور دوست بنے ہوئے ہیں۔ جنرل مشرف کو اپنے پیشروؤں کے انجام سے سبق حاصل کرنا چاہئے تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ مسٹر ہالبروک کا یہ کہنا کہ جنرل مشرف اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور امریکہ ان کا دفاع نہیں کرے گا۔
کوئی ایسی بات نہیں کہ جس پر ہم امریکہ کا شکریہ ادا کریں یا یہ امریکہ نے جنرل مشرف کے ساتھ مل کر خطہ اور بالخصوص پاکستان کو جو نقصان پہنچایا ہے اسے بھلا دیا جائے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور جنرل مشرف کی حکومت نے امت مسلمہ سمیت افغانستان، عراق اور پاکستان کو جس طرح کا نقصان پہنچایا اس کا ازالہ صرف یہ نہیں کہ جنرل مشرف کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے ۔
مسٹر ہالبروک شاید یہ بات بھی بھول رہے ہیں کہ شہنشاہ ایران سے لیکر جنرل مشرف تک مشکل وقت میں امریکہ نے کب اپنے دفاداروں کا ساتھ دیا ہے بلکہ اتحادیوں اور دوستوں کو استعمال کرنے کے بعد دھکا دے دینا امریکہ کی دیرینہ پالیسی ہے وہ دوست ممالک کی دوستی کو بھی اس وقت خاطر میں نہیں لاتا جب وہ اپنا مقصد حاصل کرچکا ہوتا ہے سابق سوویت یونین کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا مگر جہاد افغانستان کی کامیابی اور سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا، زیادہ پرانی بات نہیں۔ مگر اب شاید امریکہ کو انسداد دہشت گردی کی جنگ کا دھوکہ بہت مہنگا پڑے۔
ہم مسٹر ہالبروک کے اس بیان کو کہ جنرل مشرف تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں کافی نہیں سمجھتے بلکہ ہمارے نزدیک یہ ڈپلومیٹک الفاظ ہیں کہ جن میں جنرل مشرف سے لاتعلقی کے ساتھ ساتھ ان کے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کے عوام اور قانون بھی جنرل مشرف کو تاریخ کا حصہ سمجھ کر بھلا دینے کی کوشش کریں مگر اب شاید ایسا نہیں ہوگا ملک کی بقاء اور عوام کی بھلائی کے لئے لازم ہے کہ خائن حکمرانوں کو تاریخ کا حصہ ہی نہیں تاریخ کا سبق بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی حکمران کو پاکستان کے مستقبل سے کھیلنے کی جرأت نہ ہو۔