asghar.nadeem@janggroup.com.pk
چوہدری شجاعت حسین اور پیر صاحب پگارا میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں کبھی کبھی تلخ حقیقت کھل کُھلا کر بیان کر دیتے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین نے آج پاکستان کی تاریخ کے ایک کڑوے سچ کو بے تکلفی سے بیان کر دیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ فوج کو اقتدار میں آنے کے لیے ایک ٹرک اور ایک جیپ چاہیے، البتہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ جیپ اور ٹرک کس کس عمارت پر قبضہ کریں گے۔ وہ ہم بتا سکتے ہیں کہ صرف دو عمارتوں پر قبضے سے فوج پورے ملک پر قابض ہو سکتی ہے۔ ایک پرائم منسٹر ہاؤس اور دوسرے ٹیلی ویژن کی عمارت، جہاں سے ”میرے عزیز ہم وطنو!“ کا اعلان کیا جاتا ہے۔ چوہدری صاحب نے ادھورا سچ بولا ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ فوج کو اقتدار میں آنے کے لیے ایک ٹرک اور جیپ کے علاوہ ایک چوہدری شجاعت حسین بھی چاہیے… اور اگر اقتدار کو مزید مضبوط کرنا ہو تو ایک شریف الدین پیرزادہ، ایک ملک قیوم بھی چاہیے … اور اگر مزید طاقت ور بنانا ہو تو ایک غلام اسحاق خان بھی چاہیے… اور اگر اقتدار کو طول دینا مقصود ہو، تو پھر کچھ پی سی او جج صاحبان بھی چاہئیں۔ اب ایسا ہے کہ ٹرک اور جیپ کی سواریاں ہم نے ذرا بڑھا دی ہیں۔ یہ ہم نے نہیں بڑھائیں، جب ٹرک اور جیپ نکلتی ہے اور پہلا خطاب مکمل ہو جاتا ہے، تو یہ سواریاں کونوں کھدروں سے نکل کر سامنے آ جاتی ہیں اور پھر ٹرک اور جیپ میں بیٹھ جاتی ہیں… لیکن تاریخ میں ضیاء الحق اور پرویز مشرف جمہوریت کا گلا دبانے کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ باقی کی سواریاں اگلے ٹرک اور اگلی جیپ کے انتظار میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ یہ جو جمہوریت ہمارے ملک میں برسات کے موسم کی طرح آتی ہے اور گزر جاتی ہے، تو ایسے میں کچھ سوالات جمہوری اداروں سے پوچھنے ضروری ہیں۔ کیا ہمارے ہاں جو الیکشن کرائے جاتے ہیں، وہ حقیقی اور عوام کے دل کی آواز پر مبنی ہوتے ہیں؟ کیا اس کے لیے سیاسی کارکنوں کی تربیت کا نظام موجود ہے؟ کیا جمہوریت کے زمانے میں سیاسی پارٹیاں اقتدار کی بندر بانٹ میں یہ سب نہیں بھول جاتیں کہ انہیں اگلے چناؤ میں بھی جانا ہے… اور جمہوری زمانوں میں کیا سیاسی کارکن نوکریوں کے حصول اور پوسٹنگ ٹرانسفر میں نہیں لگ جاتے۔ کیا جمہوریت کی بقاء کے لیے جمہوری زمانوں میں سیاسی کلچر میں تربیت کا بھی کوئی پروگرام رکھا جاتا ہے یا نہیں؟ جواب آپ کو خود مل جائے گا۔ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فیصلوں سے آمریت کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جائے گا یا اس کے لیے سیاسی جماعتوں کو خود بھی کچھ کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ جن وکلاء کی مدد سے عدلیہ آزاد اور بحال ہوئی ہے۔ ان وکلاء کے اپنے اندر نہ تو جمہوری کلچر موجود ہے، نہ ہی قوتِ برداشت، اگرچہ تمام وکلاء برادری پر چند غیر ذمے دار قسم کے وکیلوں کی اس حرکت کا الزام نہیں لگایا جا سکتا، لیکن مشتے ازخروارے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ ہم میں دوسروں کو برداشت کرنے کا کلچر پیدا ہی نہیں ہوا۔ اگرچہ یہ بات بھی بے حد واضح ہے کہ انصاف کے حصول میں غریب آدمی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ وکلاء ہی ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے سب نہیں، مگر کچھ تو ہوتے ہیں، جو عدالتوں میں پیشی پہ پیشی ڈلواتے جاتے ہیں اور انصاف تک پہنچنا ناممکن بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح جھنگ میں پوری ٹرین کو آگ لگا دی گئی، کسی نے نہ روکا، نہ مزاحمت کی، نہ ہی پنجاب کی پولیس کا سراغ ملا کہ وہ اس وقت کہاں تھی۔ جھنگ کے اس واقعہ کے بعد جب گوجرہ میں اسی واقعہ کا ایکشن ری پلے ہوتا ہے، تو پھر پنجاب پولیس کسی اور اہم قسم کے چھاپوں میں مصروف ہو جاتی ہے۔ اگرچہ چند دن پہلے سے صورت حال کے کشیدہ ہونے کا عندیہ اخباروں میں آ چکا تھا۔ اس کے باوجود ایک پرامن آبادی کو جنونی لوگوں کے حوالے کرنے پر پنجاب کے خادم اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف پولیس سے جواب طلبی کیوں نہیں کرتے۔ ان کی تنخواہیں بڑھانے اور مراعات میں اضافہ کرنے پر عوام نے پولیس سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس لیے یہ سانحے پولیس کی غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ٹیلی ویژن پر دونوں واقعات کی کوریج سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو پولیس سرے سے موجود ہی نہیں ہے یا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جمہوری سوچ اور کلچر کو باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت نہ تو پنپنے دیا گیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کی فضا پیدا کی گئی۔ وہ رول ماڈل یا طبقے جو رائے عامہ بناتے تھے یا غیر جمہوری طاقتوں کو چیلنج کیا کرتے تھے، انہیں معاشرے میں دیوار کے ساتھ لگانے کا کام بڑی تیزی سے کیا گیا۔ ان کی جگہ ان طبقوں اور اداروں کو مضبوط کیا گیا، جو اختلافِ رائے کو گناہ سمجھتے ہیں اور ہر طرح کے متشدد خیالات کو پورے معاشرے پر ٹھونسنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی روا رکھتے ہیں، ان کی مثالیں اوپر کے واقعات سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ اسی معاشرے میں کبھی سیاسی کارکن، سیاسی دانش ور، ادیب، افسانہ نگار، شاعر اور استاد اپنی رائے سے غیر جمہوری طاقتوں کو چیلنج کیا کرتے تھے۔ آج نائن الیون کے بعد وہ کس حال میں ہیں، مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے اور ان کی جگہ کون رائے عامہ پر سوار ہو چکے ہیں، یہ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر کہا یہ جاتا ہے کہ طالبان پر قابو پا لیا گیا ہے۔ جن ذہنوں میں طالبان کی سوچ پروان چڑھ چکی ہے، اسے کیسے ختم کیا جائے گا۔ کیسے ٹرینوں کو آگ لگانے اور گوجرہ کے واقعات پر قابو پایا جا سکے گا۔ اس لیے کہ سیاسی کارکنوں کو مفلوک الحال کرکے تباہ کر دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، چوں کہ بڑی پارٹیاں ہیں، یہ سوال ان کے سوچنے کا ہے کہ کیا آمریت کا راستہ سپریم کورٹ نے روک دیا ہے یا ابھی ان کی پارٹیوں کو بہت سا کام کرنا باقی ہے؟ اور یہ کام وہ کب کریں گے، کیوں کہ ٹرک بھی موجود ہے، جیپ بھی موجود ہے، چوہدری شجاعت حسین بھی موجود ہیں اور شریف الدین پیرزادہ توہمیشہ ہی سے موجود ہیں۔