• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمان ملک شریف خاندان کیخلاف اپنی رپورٹ پر قائم ہیں

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) سابق وزیر داخلہ عبدالرحمان ملک نے کہا ہے کہ وہ 23؍ جون کو جے آئی ٹی میں پیش ہو کر شریف خاندان کیخلاف کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات کے حوالے سے وہی کچھ بتائیں گے جو پہلے ہی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں نے 23؍ جون کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کی تصدیق کر دی ہے اور میرے پاس وہ خط موجود ہے جو میں نے اُس وقت کے صدر فیق تارڑ کو شریف خاندان کے متعلق لکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں جے آئی ٹی میں حقائق پیش کروں گا، میرٹ پر عمل کروں گا، تعصب کا مظاہرہ نہیں کروں گا اور اس میں کوئی سیاسی اسکورنگ نہیں ہوگی۔

جے آئی ٹی میں رحمان ملک کا بیان اہمیت کا حامل ہوگا اور وہی ایسے شخص ہیں جنہوں نے 90ء کی دہائی میں  پہلی مرتبہ شریف خاندان پر منی لانڈرنگ کا الزام عائد کیا تھا اور ساتھ ہی شریف خاندان اور آف شور کمپنیوں کے درمیان تعلق کو منظر عام پر لائے تھے۔

ستمبر 1998ء میں، رحمان ملک نے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی حیثیت سے اُس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو ایک رپورٹ پیش کی تھی جس میں اُن سے اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کیخلاف اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک ماہ بعد رحمان ملک کو اے ایف آئی سے برطرف کر دیا گیا۔ رفیق تارڑ کو لکھے گئے خط کے ساتھ انکوائری رپورٹ منسلک تھی۔

خط میں رحمان ملک نے الزام عائد کیا تھا کہ، ’’میں آپ کو یہ رپورٹ براہِ راست پیش کر رہا ہوں کیونکہ مجھے سرکاری ڈھانچے سے کارروائی کی توقع نہیں ہے کیونکہ فی الوقت یہ سب سیاسی طور پر مقرر کردہ ہیں۔ مجھ پر پہلے ہی دبائو ڈالا گیا ہے کہ میں سرکاری ریکارڈ وزیراعظم سیکریٹریٹ کے حوالے کر دوں اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہاں اس ریکارڈ کے ساتھ کیا ہوگا۔

مجھے اپنا منہ بند رکھنے کیلئے بھی خبردار کیا گیا ہے بصورت دیگر مجھے ملازمت سے برطرف کر دیا جائے گا اور جھوٹے مقدمات میں جیل بھیج دیا جائے گا۔ مختصراً، کرپشن اور منی لانڈرنگ کی حد بہت زیادہ ہے۔ اب میں فیصلہ آپ کی دانشمندی پر چھوڑتا ہوں  کہ آپ نواز شریف جیسے شخص کے اخلاقی اور آئینی جواز کا تعین کریں اورتاکہ اسلامی جمہوریہ کے وزیراعظم کے عہدے کو مقدس رکھا جا سکے۔‘‘

ماضی میں اِس اخبار کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹس کے مطابق، صدر رفیق تارڑ کو 24؍ ستمبر 1998ء کو پیش کی جانے والی اور رحمان ملک کی تیار کردہ تحقیقاتی رپورٹ کا اختصار اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان جسٹس اجمل میاں اور چیف احتساب کمشنر جسٹس (ر) غلام مجدد مرزا کو بھی بھیجا گیا تھا۔

لیکن کسی نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اپنی رپورٹ میں رحمان ملک نے الزام عائد کیا تھا کہ، ’’میاں نواز شریف نے 1984-85ء میں وزیر خزانہ، 1985 تا 1990 میں بطور وزیراعلیٰ اور 1991 تا 1993 اور 1996 تا 1999 میں بطور وزیراعظم کی حیثیت سے مثال صنعتی طاقت حاصل کی۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ بے مثال طاقت اور دولت دراصل ٹیکس اور درآمد ڈیوٹیوں سے بچ کر اور دیگر ذرائع جیسا کہ غیر قانونی گرانٹس سے حاصل ہونے والی کمیشن، سرکاری املاک کی نجکاری اور منی لانڈرنگ کے ذریعے حاصل کی۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ میاں نواز شریف کے پاس سوئٹزرلینڈ اور برطانیہ میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر اور جائیدادیں موجود ہیں۔ رحمان ملک نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ معاملات میں نواز شریف اپنے بیٹے اور اپنی اہلیہ کے نام پر اپنے خاندان کے 30؍ صنعتی یونٹس کے واحد مالک ہیں یا بڑے شیئر ہولڈر ہیں۔

رپورٹ میں شریف خاندان کی جانب سے کی جانے والی منی لانڈرنگ کی تفصیلات بھی پیش کی گئی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں، رحمان ملک نے ایک مرتبہ قومی احتساب بیورو میں شریف برادران کیخلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت ایک ریفرنس دائر کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاہم، نواز لیگ نے رحمان ملک کے دعووں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

نواز لیگ کا کہنا تھا کہ اگر رحمان ملک کی رپورٹ میں ذرہ سی بھی سچائی ہوتی تو منتخب وزیراعظم سے اقتدار چھیننے والے جنرل پرویز مشرف کی نظر اس پر ضرور پڑتی۔

تازہ ترین