جیسے کرنٹ افیئرز ہمارے ہوتے ہیں مجھے ان سے کوئی دیر وقتی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ ویسے ہی ہوتے ہیں، مگر پچھلے ہفتے وہ عام حالات کچھ خاص قسم کے حالات بن گئے۔
کل کوٹری پر دو مال گاڑیوں میں خطرناک تصادم ہوا، جس میں 21 بوگیاں الٹ گئیں اور ہزاروں لیٹر تیل ضائع ہوا۔ خدانخواستہ اگر یہ مسافر گاڑی ہوتی تو نہ جانے کتنے سو انسانوں کو کتنا نقصان پہنچتا اور نہ جانے کتنی جانیں ضائع ہوتیں۔انکوائری ضرور آڈر ہوئی ہے، لیکن حسب رواج مجھے ڈر ہے کہ وہ پوری غیر جانبداری اور سنجیدگی سے کی جا سکے گی اور اس کے تفصیلی نتائج سے عوام کو بڑے پیمانے پر مطلع کیا جا سکے گا کیوں کہ … کیوں کہ اب تک ایسی مثالیں بڑے پیمانے پر کم سامنے آئی ہیں۔ معلوم نہیں کتنے اخبارات ان تفتیشات کے ارتقاء اور نتائج پر مسلسل اور گہری نظر رکھتے ہیں، بہرحال
ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی
شاید اس مرتبہ انکوائری کی انکوائری بھی ہوتی رہے اور عوامی ذرائع ابلاغ عوام کو انکوائری کے دوران اس کے اہم درجات سے مطلع رکھتے رہیں۔
اوبامہ اور زرداری
برسوں میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک پاکستانی صدر ریاست نے ایک امریکی صدر ریاست کی کوئی ہم سے متعلق پالیسی تسلیم کرنے سے کھلا گریز کیا ہو۔ میں تو اسے گریز لکھ رہا ہوں، اصل میں تو صدر زرداری نے صدر اوبامہ کی پاکستان سے متعلق پالیسی ماننے سے اخبارات کے مطابق کھلا انکار کیا ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز لندن مغربی رجحانات کے مطابق عمومی طور سے پاکستان کے ساتھ غیر ہمدردانہ رویہ ہی رکھتا رہا ہے، مگر اس مرتبہ اس نے اپنے جاریہ تعصب کے باوجود صدر زرداری کی پاک افغان پالیسی پر صدر زرداری کے جرأت مندانہ اور کھلے ردعمل کو تفصیلاً مشتہر کر کے کچھ جان دکھا گئے۔ اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان اور افغانستان کو ایک ہی خانے میں رکھ کر حالات پر تبصرہ کیا، جس سے صدر زرداری نے انکار کیا اور بجا طور پر اصرار کیا کہ کیوں کہ افغانستان میں کئی دہائیوں سے جنگ و جدل کے حالات ہیں ( جو پاکستان میں نہیں ہیں ) اس لئے اوبامہ انتظامیہ پر لازم تھا اور ہے کہ وہ پاکستان کو افغانستان سے الگ رکھے اور دونوں کے لئے الگ الگ پالیسی بنائے، پھر کسی مشترکہ سوچ کو جنم دے۔ صدر اوبامہ کے نمائندے رچرڈ ہالبروک نے اس بات کے بھی واضح اشارے کئے ہیں کہ صدر اوبامہ کیلئے پاکستان کو خصوصی اقتصادی اور توانائی کی ضروریات کیلئے امریکی معاونت کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ امریکہ پاکستانی معیشت کو فوری طور پر مضبوط بنائے تاکہ یہاں زیادہ سے زیادہ روزگار کے مواقع پھیلتے رہیں … یہ سب ہمیشہ کی طرح ” اچھی اچھی “ باتیں ہیں اور ان پر ” فوراً سے پہلے “ عمل ہونا چاہیے، مگر شاید میری بد قسمتی ہے کہ مجھے ایسی باتوں پر یقین نہیں آتا، بہرحال ایک موقع اور سہی۔ وقت بہت جلد بہت کچھ بتا دے گا۔ اوبامہ صاحب کے مشیران برائے پاکستان، افغانستان کو اپنے مشورے مرتب کرنے کیلئے تازہ ترین معلومات کی ضرورت ہے۔ پرانی فائلوں سے کام نہیں چلے گا۔ پاکستان اور افغانستان دونوں کے حالات کافی بدل چکے ہیں اور خاصی تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں۔ فی الحال اس موضوع پر اتنا ہی سہی۔ ہمیں دہشت گردی کے خلاف ہر قیمت پر جنگ کرنی ہے۔
کے ای ایس سی رحم ہی کر لے
نہ صرف اخبارات میں نمایاں طور سے ( عموماً صفحہ اول پر ) چھپنے والی خبریں بتاتی ہیں کہ آج کل دن میں تین سے چار اور رات کو دو بار ایک سے ڈیڑھ گھنٹے بجلی بند ہونے لگی ہے۔ لوڈشیڈنگ الگ چل رہی ہے۔ اس صورتحال سے عام آدمی کو جو شدید زحمت پہنچ رہی ہے، وہ اپنی جگہ، لیکن خصوصی طور پر روزہ دار اور عید کیلئے چھوٹی موٹی خرید و فروخت کرنے والے خریداروں اور دکانداروں کی پریشانی ناقابل بیان ہوتی جاتی ہے … اور وہ کچھ بیان کریں بھی تو کس سے، خاص اس مقصد کے لئے چھوٹی عدالتیں یا اطلاعی مرکز تو کھولے نہیں گئے ہیں ( اگر کھولے بھی جاتے تو وہ کسی کا کیا بگاڑ لیتے ) لیکن بقول کسے کچھ دل تو ہلکے ہو جایا کرتے۔ وہ بھی نہیں ہو رہے۔ پورا ماحول ایک اشتلم میں کیسے تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں کوئی تہوار جیسے دن ہفتہ، مہینہ آتا ہے، اشیائے صرف کی قیمتیں کم ہو جاتی ہیں اور مقدار بڑھ جاتی ہے۔ یہاں ماشاء اللہ الٹا ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔ اشیائے صرف ضرور زیادہ ہوئی ہیں، کیونکہ طبعی طور پر ڈیمانڈ بڑھی ہے، لیکن قیمتیں کم ہونے کے بجائے زیادہ ہو گئیں۔ بدیہی طور پر اس لئے کہ فروخت کرنے والا نفع زیادہ سے زیادہ چاہتا ہے، جو کسی بھی تہذیب اور خصوصاً ہمارے مذہب اسلام اور مزید خصوصاً ماہ رمضان میں جائز نہیں … بہرحال یہ پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی ہوا اورناجائز منافع خوروں کے خلاف کوئی طاقت ور، اجتماعی آوازیں بھی نہیں اٹھیں۔ ایک نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ منافع خور پہلے ہی سے ناجائز منافع میں روز بہ روز اضافہ کئے جانا جائز سمجھ رہے ہیں اور چونکہ با اثر، نا انصاف سیاستدانوں اور حکومت کے ساتھ حسب سابق کھلی ساز باز ہے، اس لئے نہ تو ان کے خلاف کوئی کارروائی سامنے آتی ہے، نہ کسی سزا کی پبلسٹی ہوتی ہے۔ بس بقول کسے یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا، جیسے چلتا رہا ہے کیونکہ اب سیاسی پارٹیاں مہنگائی جیسے معاملات پر نہ صرف مشترکہ بلکہ انفرادی طور پر سخت احتجاجی آوازیں بھی نہیں اٹھائیں۔ ہر عام آدمی کی اپنی کوئی سیاسی انجمن تو ہے نہیں اس کی نمائندگی تو اجتماعی ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ وہ انہی وجوہ سے یا خاکم بدہن کسی کی وجہ سے اس مسئلے میں الجھ جانا نہیں چاہتی اور یہ بھی سچ ہے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے بہت سے اہم عناصر بڑی صنعت اور بڑے کاروبار والے لوگ ہیں، وہ اپنی نفع پسندی کے خلاف کوئی اونچی آواز کیسے برداشت کریں گے۔ آگے حد ادب ہے۔
ملاوٹ شدہ اشیاء
آج ایک نمایاں خبر کے مطابق سپریم کورٹ ( شعبہ لاہور) کے مسٹر جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی سربراہی میں قائم بنچ نے قرار دیا کہ ” کھانے پینے کی غیر معیاری، ناقص، مضر صحت اور ملاوٹ شدہ اشیاء فروخت کرنا قتل سے بڑا جرم ہے “۔ خبر کے مطابق کسی کا بچہ مر جاتا ہے تو اس کی دنیا اندھیر ہو جاتی ہے، لیکن یہاں افسر مٹی کے مادھو بنے رہتے ہیں۔ یہ لوگ صرف موج میلہ کرنے آتے ہیں، جس سے پوچھو کہتا ہے قانون بدل دیں۔ ان سے بھلا کوئی یہ پوچھے کہ جو قانون پہلے سے موجود ہے، اسمیں انہوں نے کیا تیر مار لیا ہے۔ مبینہ طور پر عدالت نے یہ ریمارکس کھانے پینے کی ناقص، غیر معیاری اور مضر صحت اشیاء کی خرید و فروخت کے خلاف ازخود Suomoto کیس کی سماعت کے دوران دیئے۔ عدالت نے کنٹرولر ہوٹلز محکمہ خوراک سمیت دیگر حکام کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ وہ اس مدت کے اندر اندر اپنی کارکردگی بہتر بنائیں، ورنہ سنگین نتائج بھگنتے کو تیار رہیں۔ عدالت نے کنٹرولر ہوٹلز اور ڈپٹی کنٹرولر ہوٹلز کی ناقص کارکردگی پر ان کی سخت سرزنش بھی کی۔ سماعت کے دوران سیکرٹری سیاحت و ثقافت بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ عدالت نے کئی ہدایات بھی جاری کی ہیں اور ان کی پابندی کی میعاد بھی مقرر کی ہے، جو خبروں کے مطابق ایک مہینہ ہے ورنہ عدم تعمیل قابل سزا … ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کہ عدالت کے احکامات پر وقت کے اندر اندر عمل ہو جانا چاہیے۔
ایسی چند کوششیں، گو نیم دلی کے ساتھ کبھی پہلے بھی ہوئی تھی، نتیجہ الٹا ہی نکلا۔ خدا کرے اس مرتبہ متعلقہ سرکاری ادارے سخت ترین نگرانی سے کام لیں اور عدم تعمیل کی سزائیں جلد سے جلد عدالتی کارروائی کے بعد پوری سختی اور سچائی سے دی جائیں جن کی کافی پبلسٹی کی جائے۔
سپریم کورٹ میں سابق صدر ریاست کے خلاف درخواست
آج خبروں کے مطابق دوسرے اسباب کے ساتھ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو کام سے روکنے پر سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 204 کے تحت توہین عدالت کی کارروائی کیلئے درخواست سپریم کورٹ میں (لاہور شہر ) دائر کر دی گئی ہے۔ یہ چوہدری محمد اسلم گھمن ایڈووکیٹ نے آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت دائری کی جس میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کا موقف ہے کہ 3 نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری سمیت دیگر اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو کام کرنے سے روک دیا گیا اگرچہ اس اس روز 7 رکنی بنچ نے اس حکم کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ چیف جسٹس اور 59 دیگر ججوں کو اپنے عدالتی امور کی انجام دہی سے زبردستی روکا گیا وغیرہ وغیرہ۔
یہ بات آج بروز جمعہ بتاریخ 11 ستمبر 2009ء کی صبح روزنامہ ”جنگ“ کراچی میں چھپی ہے۔ مجھے اس کے بہت سے پہلو دلچسپ اور معنی دار نظر آتے ہیں۔ اب اس کا خبری ارتقاء کس طرح ہو گا۔ یہ بڑے غور سے دیکھنا ضروری لگتا ہے۔ انشاء اللہ اگلی بار میں کسی قدر گفتگو کی کوشش کروں گا۔