لاہور(صابرشاہ)متحدہ عرب امارات میں پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو ، انکے بھانجے حسن علی جعفر ی اور قریبی ساتھی رحمان ملک کی ملکیتی آف شورکمپنی پٹرولائن ایف زیڈ سی پراکتوبر 2005ء میں امریکی فیڈرل ریزرو کے سابق سربراہ پال والکر کی جانب سےاقوام متحدہ کے1995ء کے60ارب ڈالر کے ’’تیل برائے خوراک پروگرام‘‘ کےتحت 144ملین ڈالر کےعراقی تیل کی غیر قانونی تجارت اور صدام حسین کی حکومت کو 2ملین ڈالر کی ادائیگی کا الزام عائد کیا گیا۔یہ پروگرام کرپشن کی بڑھتی شکایات کے باعث 2003ء میں بند کر دیا گیاتھا۔ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ میسرز پٹرولائن ایف زیڈ سی ان 2000 سے زائد کمپنیوں میں سے ایک تھی جس نے 2003ء سے قبل عراق میں صدام حسین کی حکومت کو غیر قانونی طور پر ادائیگیاں کر کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی تھی۔29اکتوبر 2007ء کے’’بی بی سی نیوز‘‘ کے ایڈیشن میں بتایا گیا’ ’بےنظیر بھٹو کو بھی اقوام متحدہ کے تیل برائے خوراک سکینڈل کےحوالے سے الزامات کا سامنا ہے۔ 2005ء میں یو ایس فیڈرل ریزرو کے سابق سربراہ پال والکر کی سربراہی میں آزاد انکوائری کمیشن نےنےپتاچلایاکہ دو ہزارسےزائد کمپنیوں نے2003ء سے قبل عراق میں صدام حکومت کو غیر قانونی طور پر ادائیگیاں کر کے اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کی۔‘‘معتبر برطانوی میڈیا ہائوس کےمطابق’’ ان کمپنیوں میں پٹرولائن ایف زیڈ سی نامی یو اے ای کی کمپنی شامل بھی تھی۔مسٹر والکر کی انکوائری کےمطابق اس کمپنی نے 144ملین ڈالر کے عراقی تیل کی تجارت اور صدام حکومت کو 2ملین ڈالر کی غیر قانونی ادائیگیاں کیں۔پاکستان کے قومی احتساب بیورو کےدستاویزات بے نظیر بھٹو کو پٹرولائن ایف زیڈ سی کی چیئرویمن ظاہر کرتے ہیں۔اگر یہ دستاویزات اصل ہیں اور تیل برائے خوراک کے الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو یہ بات خاص طور پر سابق وزیراعظم کے خلاف جائیگی۔ہسپانوی حکام ان رقوم کی منتقلیوں کےحوالے سے تحقیقات کر رہے ہیں جن کے بارے میں خیال کیاجاتاہےکہ انکا تعلق پٹرولائن ایف زیڈ سی سے ہے۔مزید برآں سابق صدرمشرف کیطرف سےعوامی شخصیات کوکرپشن کےالزامات سے عام معافی کااطلاق 1986ء سے 1999ء کے عرصے پر ہوتاہے۔ پٹرولائن ایف زیڈ سی کی ٹرانزکشنر اس کے بعد ہوئیں جس کا مطلب یہ ہے کہ قانونی طور پر کارروائی کا امکان موجود ہے۔ بےنظیر بھٹو نے ہمیشہ کرپشن کے تمام الزامات کو ردکیا اور انکے حامیوں کا کہنا ہے کہ انکے خلاف الزامات سیاسی ہیں لیکن شاید انکی قانونی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئیں۔‘‘اقوام متحدہ کی نگرانی میں پال والکر انکوائری کمیٹی:اقوام متحدہ کی مقرر کی گئی 34ملین ڈالرمصارف کی آزادانکوائری کمیٹی نے اپنی پانچویں اور آخری رپورٹ 27اکتوبر 2005ء کو جمع کرائی۔پال والکر کی سربراہی میں 18ماہ کی تحقیقات کے دوران کمیٹی نے صدام حکومت کی جانب سے 60ارب ڈالر کے تیل برائے خوراک پروگرام میں 66ممالک کی 22سو سے زائد کمپنیوں اور کئی نمایاں عالمی سیاستدانوں کی مدد سےگھپلوں کےحوالےسےبڑےپیمانےپرشواہدجمع کئے۔پال والکرکمیٹی کی مزیدتحقیقات:139 کمپنیوں کےٹھیکوں کے حوالے سے آئل سرچارجزاور2253کمپنیوں کے ٹھیکوں کےسلسلے میں ہیومینیٹیرین کک بیکس دیئےگئے۔عراقی حکومت کو کک بیکس دینے کے الزامات میں ملوث کمپنیوں میں بڑی عالمی کارپوریشنزمثلاًڈیملرکریسلر اے جی، سیمنز اے جی اور والووبھی شامل ہیں۔صدام حکومت کوتیل برائے خوراک پروگرام کے تحت 1.8ارب ڈالر کی غیر قانونی آمدن ملی۔228.8ملین ڈالرتیل کے ٹھیکوں کیلئےسرچارجز کی ادائیگی اور 1.55ارب ڈالرانسانی ہمدردی کی بنیادپراشیاء پرکک بیکس کے ذریعےملے۔تیل برائے خوراک پروگرام:تیل برائے خوراک پروگرام 1995ء میں اقوام متحدہ کی جانب سے (سکیورٹی کونسل قرار داد 986 کےتحت )تشکیل دیا گیا تاکہ عراق اپنی عسکری صلاحیت بڑھائے بغیرعام شہریوں کی خوارک،ادویات اور دیگر انسانی ضروریات کےبدلے میں اپناتیل عالمی مارکیٹ میں تیل بیچ سکے۔یہ پروگرام 1995ء میں امریکی صدربل کلنٹن کی انتظامیہ کی جانب سے ان دلائل کے جواب میں متعارف کرایا گیاتھاکہ پہلی خلیج جنگ کےبعد صدام حسین کی عراقی حکومت کی عسکری صلاحیتیں کم کرنےکیلئےعائد عالمی اقتصادی پابندیوں سےعام عراقی شہری بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ۔امریکی اور برطانوی افواج کی جانب سے عراق پر حملے سےفوری پہلےاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے پروگرام معطل کر کے300کارکنوں کو وہاں سے نکال لیاتھا جو اشیاء کی تقسیم کی نگرانی پر مامور تھے۔ 28مارچ 2003ء کو سیکرٹری جنرل کوفی عنان، امریکا اور برطانیہ نے سلامتی کونسل سےدرخواست کی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ 10ارب ڈالر مالیتی ا شیاء جن کا عراق نےآرڈر دیااوراسکی منظوری ہوچکی جن میں 2.4ارب ڈالر مالیت کی امریکی خوراک بھی شامل ہےحالات موافق ہوتے ہی ملک میں داخل ہو سکیں۔اہم اعدادو شمار:53ارب ڈالر سے زائد مالیت کاعراقی تیل عالمی منڈی میں فروخت ہوا،اس میں سے 46ارب ڈالر زسےعالمی اقتصادی پابندیوں سےمتاثر عراقی شہریوں کو خوراک اورادویات جیسی انسانی ضرورت کی اشیافراہم کی جانی تھیں تاہم یہ اقدام بھی بڑے پیمانے پر کرپشن اور غلط استعمال کی نذرہوا،اپنے پورے دورانئے میں اس پروگرام پر یہ الزامات لگتے رہے کہ اس کا کچھ منافع غیر قانونی طور پر عراقی حکومت اور اقوام متحدہ کے حکام کی جیبوں میں گیا۔ایسے الزامات پاکستان، امریکا ، ناروے وغیرہ سمیت کئی ممالک میں عائد کئے گئے۔ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ وزیراعظم نواز شریف وہ واحد پاکستانی نہیں جن پر آف شو کمپنیاں چلانے کا الزام ہےکیونکہ 1998ء میں ایک معتبر امریکی اخبار’’دی نیویارک ٹائمز‘‘ نے سابق وزیراعظم بے نظیر اور انکے شوہر آصف علی زرداری کی ملکیتی شیل کمپنیوں کےحوالے سے ایک مفصل تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تاہم بے نظیر اور آصف زرداری کو نہ صرف پاکستان بلکہ سوئٹرلینڈ میں عدالتوں نے کرپشن کے تمام الزامات سے بری کیا۔ احتساب عدالت نے 2015ء میں سابق صدر آصف زرداری کوایس جی ایس کو ٹیکنااور اے آر وائی گولڈ کیسز سے بری کیا۔ اسکےعلاوہ سوئس عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا بھی بعد ازاں معطل کر دی گئی۔زیر نظر’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی سٹوری کی جڑیں دراصل 1997ء میں ہیں جب 1997ء کے عام انتخابات کے چندہی روز بعد اس وقت کےصدر فاروق لغاری کی سربراہی اور وزیراعظم ملک معراج خالد کےتحت نگراں حکومت نےنیویارک کی ایک تحقیقاتی ایجنسی جولز کرول ایسوسی ایٹس کی خدمات بھٹوز کی یورپ وغیرہ میں کرپشن کے حوالے سے شواہد جمع کرنے کیلئے حاصل کی تھیں۔اسکے نتیجے میں کرول ایسوسی ایٹس کی برطانوی برانچ کے ایجنٹس نے بھٹو خاندان کیخلاف ٹھوس شواہد کی تلاش شروع کی۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے جنوری 1998ء میں House Of Graft: Tracing The Bhutto Millions -- a special report; Bhutto Clan leaves teail Of corruptionکے عنوان سے مضمون میں اس کرپشن انکوائری پر کافی روشنی ڈالی جس میں پاکستانی تحقیقات کاروں کے مطابق 100ملین ڈالر ز سے زائد کے غیر ملکی بینک اکائونٹس اورجائیدادوں کا سراغ ملتا ہے جنہیں بے نظیر بھٹو کے خاندان کی جانب سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔