قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ بھوپال کے حکمران راجہ بھوجپال نے شق القمر یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا معجزہ دیکھ کر اپنے عالموں سے اس بارے میں دریافت کیا تھا جب اس کو بتلا یا گیا تھا کہ عرب میں ایک پیغمبر کا نزول ہوا ہے اور انھوں نے چاند کے دو ٹکڑے کر کے معجزہ دکھایا ہے تو اس نے ایک وفد تحائف کے ساتھ رسولﷺ کو بھیجا تھا ۔ ان تحائف میں پان کے پتے بھی تھے پان اس وقت ایک اہم قیمتی چیز تصور کیا جاتا تھا۔ روایت ہے کہ رسولﷺ نے پان کو چکھ کر فرمایا تھا کہ یہ” سبزی “ برص و جزام کے علاج کے لئے بہت مفید ہے۔ یہ بات سن کے ہی حضر ت امیر خسرو نے یہ قطعہ فرمایا تھا۔
سبزی اُو قاطع بَرص و جُزام
بقول نبئی وقت علیہ السلام
کوشش کے باوجود اس سلسلہ میں مزید معلومات نہ مل سکیں ، یہ علم نہیں ہے کہ جو وفد گیا تھا اس نے اِسلام قبول کیا تھا یا نہیں ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بہت سالوں پیشتر میں نے کہیں پڑھا تھا کہ سیلون کے راجہ نے بھی چاند کو دو ٹکڑوں میں ہوتے دیکھا تھا۔
راجہ بھوجپال ، شق القمر اور راجہ بھوجپال کی جانب سے رسول ﷺ کو تحائف کی روانگی اور پان کے بارے میں رسول ﷺ کے فرمان کو امیر خسرو کا قطعہ میں بیان کرنا میں نے اس کالم میں بیان کیاتھا ۔ میرے بھوپال کے ایک عزیز دوست جناب تمیز الحق نے کراچی سے مجھے ایک خلوص نامہ روانہ کیا ہے اور مجھے کیرالہ میگزین (1948)اور تاریخ اُزبکستان مُصنّفہ سیدکمال الدین احمد میں شائع ہونے والی تفصیلات روانہ کی ہیں وہ جوں کی توں آپ کی خدمت میں پیش کر رہاہوں۔
”شَقّ القمر کا معجزہ ۸ نبوت میں ہوا۔ حضور نبی کریمﷺ حج کے دنوں میں صحابہ کرام کے ساتھ منیٰ میں تھے آسمان پر بدر کامل تھا۔ اس موقع پر کُفّار نے حضورﷺ سے مطالبہ کیا کہ اگر سچے نبی ہیں تو اس چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائیں ۔ اس وقت کفار ان قریش میں ابو جہل ، ولید ، عاص، اسو د اور نضر بن حارث موجود تھے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی اے میرے رب!ان کے مطالبے کو پورا کر دے۔ پھر آپ نے انگلی سے چاند کی طرف اشار ہ فرمایا ۔ چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے ۔ ایک حصہ حرا پہاڑ کے اوپر اوردوسرا حصہ اس کے دامن میں تھا۔ حرا پہاڑ چاند کے دونوں ٹکڑوں کے د رمیان میں تھا۔
حضر ت عبد اللہ اِبن مسعو د رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ قسم اللہ کی میں نے چاند کو دو ٹکڑوں میں پھٹا ہو ا دیکھا۔ کو ہ حرا ان دونوں کے درمیان میں تھا۔
(قرآن مجید میں سورة قمر کی ابتدائی آیات میں اس جانب اشارہ ہے)
جنوبی ہندوستان کے علاقہ (مالابار) کیرالہ اسٹیٹ پر اس وقت ایک ہندو راجہ حکمران تھا۔ مہاراجہ رات کے وقت میں اپنے محل کی چھت پر اپنے خاند ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے چاند کو دو ٹکڑوں میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ اس نے اپنے خاند ان کے افراد سے اس کی تصدیق چاہی ، جو محل کی چھت پر اس وقت موجو د تھے۔ سب نے اس واقعہ کی تصدیق کی۔ تب اس نے دوسرے دن دربار طلب کیا جس میں اہل علم ، دانشور ، پنڈت ، نجومی، جوتشی شریک تھے۔ ان سب سے اس واقعہ کی تحقیق و تصدیق کے لئے کہا سب نے تحقیق کے بعد اس واقعہ کی تصدیق کی اور ان سب نے گواہی دی کہ یہ صرف نبی ﷺ کا کارنامہ ہے ہماری کتابوں کے مطابق سرزمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اس کے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہو جائیں گے ہمارے خیال میں سر زمین عرب میں ایک نبی پیدا ہو گیا ہے۔ شَقّ القمر کا معجزہ ان ہی کے اشارہ پر ہوا ہے۔
مہاراجہ بہت متاثرہوا۔ چنانچہ اس نے اس کی مزید تصدیق کے لئے اپنے بیٹے کو عر ب بھیجنے کا ارادہ کر لیا۔ اس طرح مہاراجہ نے اپنے جواں سال (بیٹے) شہزادے کو زاد راہ کے خور دو نوش کے اہتمام کے ساتھ ڈاکوؤں و لٹیروں کے تحفظ کے لئے یک سو مسلح افراد کے ہمراہ عرب (مکہ و مدینہ )کی طرف روانہ کیا اور ساتھ میں بہت سے قیمتی تحائف دے کر ہدایت کہ کہ اگر شَقّ القمر کی تصدیق ہو جائے تو میری طرف سے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کرنا اور میر اسلام کہہ دینا ۔
ہندو نوجوان شہزادے کو اہل عرب نے شَقّ القمر کی تصدیق کی ۔ اب شہزادے کو نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشتیاق ہوا۔ جب شہزادہ حضور ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا تو حضور ﷺْ اس سے بہت خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اور آنے کا مقصد پوچھا شہزادے نے اپنی آمد کی پوری تفصیل سنا دی ۔ شہزادے نے مہاراجہ کے بھیجے ہوئے تحائف آپ ﷺ کو پیش کئے اور مہاراجہ کا سلام پہنچا دیا۔ حضور ﷺ نے شکریہ ادا کیا اور مہاراجہ کے لئے دعائے خیر کے کلمات ادا کئے روایت یہ ہے کہ اسی دن مہاراجہ دل ہی دل میں حضور ﷺ پر ایمان لے آیا تھا اور بت پرستی ترک کر دی تھی۔
ادھر یہ شہزادہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر اتنا متاثر ہوا کہ مشرف بہ اسلام ہو گیا اور مدینہ منورہ میں ایک صحابی کی لڑکی سے شادی کر لی ۔ اور بہت دنوں تک مدینہ منور ہ میں ہی رہا۔ اس کے ساتھ آئے ہوئے مسلح سپاہیوں نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ شہزادہ جب کیرالہ اسٹیٹ واپس پہنچا تو اس کے ساتھ صرف ۳۵ مسلح سپاہی بچے تھے جو کہ سب کے سب مسلمان تھے۔ جب شہزادہ اپنے اسٹیٹ کے قریب پہنچا تو مہاراجہ کے انتقال کی اطلاع ملی۔ مصلحتاََ شہزادے نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان نہیں کیا۔ نہ ہی اس کے ساتھیوں نے کسی کو بتایا ، مہاراجہ کے انتقال کے بعد شہزادے کا انتظار کیا جا رہا تھا جیسے ہی شہزادہ کیرالہ اسٹیٹ پہنچا اس کو روایتی شاہانہ طریقے سے باضابطہ مہاراجہ بنا دیا گیا۔ عنان اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس نے اپنی حکومت کو مستحکم کیا جب ہر طر ف سے اطمینان حاصل ہوا اور حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کی تو مہاراجہ نے اور اس کے ساتھیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کیااور لوگوں کو بھی اسلام قبول کرنے کی تلقین کی۔ مہاراجہ کی ترغیب و تلقین سے بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔
مہاراجہ کا اسلام قبول کرنا اس کے باپ کا مرہون منت ہے، وہ اگر شَقّ القمر کی واقعہ کی تصدیق کرنے کے لئے اس کو عرب نہ بھیجتا تو وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیاز حاصل کرنے سے قاصر رہتا اور نہ ہی اسلام قبول کر سکتا تھا۔ صحابی رسول ہونے کی حیثیت سے پہلا مسلم حکمران ہونے کا اعزاز اسی کے حصے میں آیا ۔ کیونکہ اس کے باپ کے لئے بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر کے دعائی کلمات ادا کئے تھے۔ غالب گمان یہ ہے کہ وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر غائبانہ ایمان لا چکا تھا۔ اور عظیم مرتبہ پر فائز ہو چکا تھا۔
اب مہاراجہ کو نماز پڑھنے کے لئے مسجد بنانے کا خیال آیا ۔ چنانچہ اس نے ایک مسجد تعمیر کروائی اور اس مسجد کا نام اپنے باپ کے نام سے منسوب کیا ۔ اس مسجد کا نام Cheramanرکھا گیا۔ یہ برصغیر پاک و ہند کی پہلی مسجد ہے۔ اس طرح اس کے باپ کا نام مسجد کے نام کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ Cheraman Mosqueکیرالہ میں Akrakalamکے مقام پر تعمیر کی گئی۔ یہ علاقہ ساحل سمندر سے منسلک ہے اورمالا بار کہلاتا ہے۔ یہاں پر اس وقت بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے جو راسخ العقیدہ ہیں۔
(بحوالہ کیرالہ میگزین 1948۔ تاریخ اُزبکستان مولف سید کمال الدین احمد)
مہاراجہ ، شہزادے، اور عوام کے مسلمان ہونے کے بعد یہاں عرب تاجروں کو تجارت کی سہولیات دی گئیں اور ان کی آمد، قیام اور میل جول نے اسلام کی قبولیت میں اِضافہ کیا اور جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنوبی ہندوستان کے باشندے بہت ذی فہم اور تعلیمیافتہ ہیں۔ ہندوستان کی اربوں ڈالر آئی ٹی انڈسٹری اس علاقہ میں ہے۔ تقسیم کے بعد کیرالہ ، مالا بار کے لاتعداد مہاجرین کراچی آگئے تھے، نہایت سادہ، ایماندار ، اور مذہبی لوگ ہیں ۔ ان کے ہاں جب بچہ کی پیدائش ہوتی ہے تو پہلا نام محمد رکھ دیتے تھے اور دوسرا نام بعد میں دیتے تھے۔ بچی کا نا م عائشہ یا فاطمہ رکھ دیتے تھے۔ کراچی میں جگہ جگہ ان کی چائے اور پان کی دوکانیں تھیں اور ان کی چائے نہایت لذیذ ہوتی تھی۔کرکٹ میچوں کے دوران دوکانوں پر بلیک بورڈ لگا دیتے تھے اور اس پر اسکور کی پورزیشن لکھتے رہتے تھے ، لوگوں کا مجمع لگا رہتا تھا۔ یہ لو گ عموماََ چیک تہمد ، اس پر قمیض اور سر پر سفید کروشیا سے بنی ہوئی ٹوپی پہنتے تھے۔ یہ نہایت ہنس مکھ اور ملنسار لوگ تھے۔ یہ پرانا پیارا پاکستان تھا۔