اس سال امن کا عالمی دن مسلمانوں کے سب سے بڑے مذہبی تہوار عید الفطر کے دن یعنی 21 ستمبر کو منایا گیا۔ اس عالمی دن کے منانے کا فیصلہ 2001ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 52 کے تحت کیا گیا تھا جبکہ پہلی بار یہ دن 2002ء میں منایا گیا تھا۔ امن کے عالمی دن کے اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ ” امن کے عالمی دن کا یہ تقاضا ہے کہ دنیا میں عدم تشدد اور سیز فائر ہو، ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم دنیا میں تمام تنازعات کا پر امن حل تلاش کریں، انہوں نے کہا کہ دنیا میں تمام بڑے تنازعات کا شکار افراد کا تعلق کمزور طبقے سے ہے امن کے بغیر وہ غربت کے خاتمے اور اپنے معیار زندگی کی بہتری کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ دنیا میں اسلحہ کے سپلائرز انسانیت کے لئے خطرہ ہیں“۔
”امن“ کے عالمی دن پر یو این سیکرٹری جنرل کا مذکورہ مختصر بیان درحقیقت قیام امن کے لئے بہترین روڈ میپ ہے تاہم ہم انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ سیکرٹری جنرل کے بیان میں جو کچھ کہا گیا ہے عملاً اقوام متحدہ کا کردار اس کی نفی کرتا ہے بلکہ الزام تو یہ ہے کہ یو این او ہی وہ ادارہ ہے جو سامراجی قوتوں کے جارحانہ عزائم اور مظلوم و محکوم عوام پر جارحیت سمیت ان تمام غیر قانونی قبضوں کو تحفظ فراہم کئے ہوئے ہے جن کی وجہ سے عالمی امن مسلسل خطرے سے دو چار چلا آرہا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کو اقوام متحدہ فلسطین اور کشمیر کے حوالے سے ان قرار دادوں پر بھی عملدرآمد کرنے کے لئے تیار نہیں کہ جنہیں خود اس ادارے کے اندر منظور کیا گیا، 60 برس سے اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ اور منظور شدہ قرار دادوں کی موجودگی میں فلسطین اور کشمیر کے اندر وہاں کے مظلوم عوام پر بھارت اور اسرائیل کے ظلم و تشدد اور ناجائز قبضہ میں ایک دن کا بھی وقفہ نہیں آیا مگر اس کے باوجود بھارت اور اسرائیل پر اقوام متحدہ اس طرح کی کوئی پابندیاں لگانے کے لئے تیار نہیں کہ جیسے ایران، شمالی کوریا، شام اور سوڈان سمیت دیگر کئی ایسے ممالک پر لگائی جاتی رہی ہے کہ جو امریکہ کے مخالف کیمپ میں تصور کئے جاتے ہیں۔ خلیج کی پہلی جنگ میں عراق پر تیل کی فروخت کی پابندی کی وجہ سے لاکھوں معصوم عراقی بچے موت کے منہ میں چلے گئے مگر اقوام متحدہ نے اپنی آنکھیں اور منہ بند کئے رکھا۔ مزید ظلم اور ناانصافی یہ ہے کہ افغانستان پر 2001ء میں اور عراق پر 2003ء میں امریکہ اور ان کے اتحادیوں نے جو حملہ کیا اس میں اقوام متحدہ کی آشیر واد اور اجازت شامل تھی اب تک افغانستان اور عراق میں جو تباہی پھیلی ہے، بے گناہ انسانوں کا قتل عام ہو رہا ہے اس کی پہلی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اقوام متحدہ ہی وہ ادارہ ہے جو مظلومین کی گردنیں پکڑ پکڑ کر عالمی قصاب کے حوالے کرتا ہے۔ جب گردنیں کاٹ دی جاتی ہیں اوران کے لواحقین ماتم کرنے لگتے ہیں تو پھر چند ایسے بول بول دیئے جاتے ہیں کہ جن سے اقوام متحدہ کی غیر جانبداری اور انصاف پسندی نظر آنے لگے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں سربراہان مملکت کو دعوت دینے اور کھل کر بات کرنے کی اجازت دینے کا مطلب بھی سوائے اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ ایک طرف ان عالمی لیڈروں کے بارے میں معلوم کیا جائے کہ جو امریکہ اور دیگر سامراجی قوتوں کے جارحانہ عزائم، توسیع پسندانہ پالیسی اور لوٹ مار کے ارادوں کیلئے خطرہ اور چیلنج ہو سکتے ہیں اور دوم یہ کہ انہیں دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع دیا جائے تاکہ اقوام متحدہ کا وجود برقرار اور غیر جانبداری نظر آئے۔
حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ جسے صحیح معنوں میں عالمی برادری کا ترجمان اور انصاف و مساوات کا علمبردار ہونا چاہئے تھا یہ ادارہ اب بری طرح اپنی ساکھ کو خراب کر چکا ہے گو کہ یہ ادارہ قائم ہے اور قائم رہے گا کیونکہ اس کو قائم رکھنے کی ضرورت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ہے لہٰذا وہ اس ادارے کو ٹوٹنے سے بچاتے رہیں گے تاہم یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ اگراس ادارے نے اپنی موجودہ پالیسی اور کردار کو تبدیل نہیں کیا تو یہ موجود رہنے کے باوجود بھروسے اور عزت کے قابل نہیں رہے گا ۔
ہم یہاں سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ان کا اپنا اور صدر اوباما کا وہ بیان یاد دلانا چاہیں گے جس میں ان دونوں رہنماؤں نے جنرل اسمبلی کے 64 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک جملہ ایک جیسا ہی استعمال کیا اوباما اور مون نے کہا ”کوئی ملک تنہا دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا“۔ بالکل درست ہم سو فیصد متفق ہیں کہ کوئی ملک تنہا دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا تو ذرا سوچئے، دیکھئے کہ کیا یو ایس پریذیڈنٹ اور یو این سیکرٹری جنرل کا عالمی کردار مذکورہ جملے کے مطابق ہے؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ کی شرارت پر مبنی خارجہ پالیسی اور اقوام متحدہ کی ”نابینا پالیسی“ ہی کی وجہ سے کشمیر اور فلسطین جیسے تنازعات کہ جنہیں آدھی صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اب تک حل نہیں ہو پا رہے کیا یہ سچ نہیں کہ افغانستان اور عراق پر حملے کیلئے جو جواز بتائے اور الزام لگائے گئے تھے وہ آج8 برس گزر جانے کے بعد بھی کسی فورم پر ثابت نہیں کئے جا سکے سوال یہ بھی ہے کہ اگر کوئی ملک تنہا دنیا کے مسائل حل نہیں کر سکتا یعنی مسائل کے حل کیلئے اجتماعی کوشش ہونی چاہئے تو اس حوالے سے اقوام متحدہ کا کردار زیادہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہی وہ واحد عالمی ادارہ ہے کہ جس میں دنیا کے تمام آزاد ممالک کی نمائندگی شامل ہے تو کیا اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل اپنے ادارے کی اس غیر متنازع حیثیت اور مثبت و فعال کردار کو متحرک کرنے کیلئے کوئی ضروری اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کے لئے تیار ہیں؟ اور کیا امریکہ اقوام متحدہ کے ساتھ ایسا کوئی تعاون کرے گا کہ جس کے بعد آزاد ممالک اور آزادی کا انتظار کرنے والے محکوم عوام کے بارے میں فیصلے پینٹا گون میں ہونے کے بجائے یو این او میں ہونے لگیں، کیا امریکہ عالمی امن کی خاطر دنیا کے 40 سے زائد ممالک میں موجود اپنی فوج واپس بلا لے گا، کیا اتحادی افواج افغانستان اور عراق سے انخلاء کیلئے تیار ہوجائیں گی۔ کیا روس، بھارت اور اسرائیل چیچنیا ،فلسطین، اور کشمیر خالی کر جائیں گے ،کیا بیت المقدس کے دروازے سے اسرائیلی پولیس کے گھوڑے اوربابری مسجد کے ملبہ پر سے مورتیوں کو ہٹایا جائے گا؟ ایسا ہونا لازمی ہے کیونکہ بم گرانے اور ٹینک چڑھانے سے امن کے پھول نہیں کھلتے بلکہ اس طرح سے تو آگ بھڑکتی ہے امن تو انصاف، مساوات اور دیانتدارانہ فیصلوں ہی کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ امن کو قائم کرنے کیلئے تمام آزاد اقوام کی حاکمیت اور خود مختاری کو تسلیم کرنا ہوگا۔ امن کی حفاظت کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ تمام مذاہب اور ان کی عبادت گاہوں کے احترام کو یقینی بنایا جائے ۔ جس کا آغاز بیت المقدس کی واپسی سے ہونا چاہئے، امن کی خاطر ان تمام لوگوں کے لئے بھی سزا تجویز کرنا ہوگی قرآن ، خاتم النبیینﷺ اور د یگر انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں۔
سرد جنگ، انسداد دہشت گردی کی جنگ یا کسی بھی نئے نام سے جنگ شروع کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے بلکہ جنگ سے پہلے تمام الزامات کو اقوام متحدہ کے ایک غیر جانبدار کمیشن کے سامنے زیر بحث لایا جائے، کمیشن کے ارکان دونوں فریقین کے اتفاق سے نامزد کئے جائیں، اسلحہ کے سپلائرز سودا گروں کے تمام بڑے سودے بھی اقوام متحدہ میں زیر بحث آنے چاہئیں۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں پر چند ممالک کی اجارہ داری کو بھی ختم کرنا ہوگا، امن کے لئے صرف ایک دن مقرر کرنا اقوام متحدہ کی سب سے بڑی ناکامی ہے امن کے لئے ایک ہی دن کیوں سارا سال ہونا چاہئے جبکہ ”امن“ ہی سے مشروط ہے مگر اس کے لئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ سردست امریکہ اور اقوام متحدہ کے امن دشمنی پرمبنی فیصلوں کی وجہ سے آج پوری دنیا میں فتنہ و فساد برپا ہے اقوام متحدہ اور امریکہ جب تک اپنی موجودہ پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتے اور ایک نئے تعارف کے ساتھ اقوام عالم کے سامنے نہیں آجاتے اس وقت تک ”عالمی امن“ ایک خواب رہے گا۔