• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
I Will Not Go To Punjab

نامعلوم افراد کے دوسرے چانس کوخطرے میں ڈالنے کیلئے”میں پنجاب نہیں جاوٴنگی “ کا ٹریلر بھی زور شور سے آگیا ہے۔

سپر ڈوپر ہِٹ فلم” جوانی پھر نہیں آنی“ اورکامیاب ڈرامے ”دل لگی“ کی ہٹ جوڑی ہمایوں سعید اور مہوش حیات اس فلم میں بھی نظر آئیں گی۔

ٹریلر نے” ٹیزر“ کی طرح سب کو اپنا دیوانہ بنالیا ہے اور صرف 24گھنٹوں میں اسے صرف ”یو ٹیوب“ پرہی 6لاکھ سے زائد بار دیکھا گیا صرف دو دن میں ہی یہ ٹریلر پاکستان کی تاریخ کا پہلا فلمی ٹریلر بن گیا جسے صرف ”یوٹیوب “ پر10لاکھ سے زائد بار دیکھا جاچکا ہے۔

اگر اس دیوانگی کو پیمانہ بنایا جائے تو بلاشبہ اب تک پاکستان کا سب سے”مقبول“ فلمی ٹریلر ہے۔فلم کی کہانی جذبات، رشتوں، محبت، نفرت، دوستی ،دشمنی ،احسان ،دھوکے اور عشق سے گوندھی ہوئی لگ رہی ہے ۔یقینا فلم کے ٹریلر نے دیکھنے والوں کو فلم کا شدت سے انتظار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

فلم کے ٹریلر نے سب کو جتادیا کہ فلم کا بجٹ بھی ٹھیک ٹھاک ہے بلکہ یہ پاکستان کی مہنگی ترین فلموں میں سے ایک ہے اور اس بجٹ کو استعمال بھی خوب کیا گیا ہے پیسہ جو خرچ ہوا وہ دِکھ بھی رہا ہے۔

دن میں سورج کی کرنوں اور رات میں برقی قمقموں سے روشن اورپنجاب کے رنگوں سے سجی ہوئی بڑی حویلی کی لوکیشن کوزبردست شوٹ کیا گیا ہے۔

کراچی کی بھی وہ لوکیشن فلم میں دکھائی گئی ہیں جو عام طور پر فلموں میں استعمال نہیں ہوتی جیسے سمندر میں کشتی ہویا سمندر پر بنے لمبے پل کا منظر گولف کورس میں جاگنگ ہو یا چوڑی خوبصورت سڑک یاپھر دو دریا پرریسٹورنٹ کا منظر کراچی کی ایسی لوکیشن تو خود کراچی والے بھی کم کم ہی دیکھتے ہیں۔

پنجاب کے لہلاتے کھیت،ہریالی،بولی،ڈھول تاشے،پگڑی،جھنڈیاں،پھول سب کچھ تو ہے اس فلم میں۔

فلم کا ہیرو مجنوں بھی ہے مہینوال بھی لیکن” رانجھا “کا رنگ سب سے نمایا ں ہے، ہمایوں سعید کو ”انتہا “کے بعد اب اتنا پاور پیک کردار ملا ہے جس میں مارجن بھی بہت ہے لیکن چیلنج بھی بڑا ہے کیونکہ وہ ہی اتنی بڑی فلم کے ایک اکلوتے ہیرو ہیں ان کو پنجاب کا ”بمشکل میٹرک پاس “گھبرو جوان نظر بھی آنا ہے ساتھ میں انگلش اردو دونوں ہی بولنی ہے۔

ہمایوں فلم کے پروڈیوسرز میں بھی شامل ہیں جنھوں نے بجٹ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔انھوں نے اپنا اسٹائل اور لہجہ سب کچھ فلم کے حساب سے بدلنے کی کوشش کی ہے ۔

ہمایوں کو یہاں ڈائریکٹر ندیم بیگ اور خلیل الرحمن کی بھی بھر پور رہنمائی حاصل ہے۔لہذا ہمایوں کیلئے غلطی کی گنجائش نہیں فلم کے سپر ہٹ ہونے کے بعد بھی اگر فلم بین اُن کے اِس کریکٹر سے ”جُڑتے“ نہیں اور ان کے فلمی فین نہیں بنتے تو انھیں فلم کی پروڈکشن اور ڈراموں میں ایکٹنگ تک محدود ہوجانا چاہیے۔

ان کی گھوڑے پر اینٹری بھی شاندار ہے لیکن وہ ”ٹیزر“ میں زیادہ بہتر انداز میں دکھائی گئی ہے۔فلم کے ٹریلر میں مہوش حیات نے سب کو حیران کردیا ہے۔

انھوں نے کراچی کی ماڈرن لڑکی کا کردار کیاہے جس کیلئے ہمایوں کی” محبت“ نہیں شہری بابو اظفر کی ”انڈر اسٹینڈنگ“ ہی شادی کیلئے کافی ہے۔ مہوش حیات ” من جلی“ اور ”دل لگی“ سے بھی خوبصورت اس فلم میں نظر آئی ہیں۔

”جوانی پھر نہیں آنی“ تو الگ قسم کی ملٹی اسٹار ر فلم تھی لیکن اِس فلم کا ٹریلر ہی ان کے اگلے سال تمام ایوارڈ جیتنے کیلئے کافی ہے ۔

جی ہاں ابھی تو جولائی ہے اور آدھا سال پڑا ہے اور اپنے الفاظ سنبھال کر بھی رکھنے چاہیے لیکن بہترین اداکارہ کا ایوارڈ ”مہوش حیات“ کا ہی ہوگا۔ کھیت،حویلی،بارش،سوئمنگ پول اورجاگنگ ٹریک سمیت مہوش جہاں جہاں نظر آئی انھوں نے اس لوکیشن کی رونق بڑھائی۔

ہر منظر اور گانے میں وہ بہت حسین اور کردار میں ڈوبی ہوئی نظر آئیں ہیں، ہر لباس ان پر دلفریب دکھائی دیا۔پہلے اس کردار میں ”ایمان علی“ کو سائن کیا گیا تھا لیکن شاید کہانی آہستہ آہستہ بدلی اور ہیروئن بھی بدل گئی۔

فلم میں منڈا پنجاب کا اور ہیروئن کراچی کی ہے ،یعنی دو مختلف ثقافت رہن سہن اور مزاج کا ٹکراوٴ۔ میں پنجاب نہیں جاوٴنگی تو ایک ہی ملک کے دو حصوں کی کہانی ہے لیکن اس میں” دیسی بابو اور ولایتی میم“ ایسے ہی دکھائے گئے ہیں جیسے اکشے کمار اور کترینہ کیف کی ”نمستے لندن“ جو خودمنوج کمار کی ” پورب اور پچھم“ سے متاثر تھی۔

”خلیل الرحمن قمر“ کے کلاسک ڈرامے ”بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ“کا رنگ اور جذبات بھی فلم کے ٹریلر میں نظر آرہے ہیں اور ہمایوں اور مہوش کا ”دل لگی“ والا رومانس کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔

فلم کی عکاسی سینئر ڈی او پی سلمان رزاق کی ہے جنھوں نے لگتا ہے کیمرے کے ساتھ دیکھنے والوں کی آنکھیں جمادی۔ہر فریم دیکھنے والا اور رنگوں سے بھرا ہے جس کیلئے آرٹ ڈائریکشن اور پروڈکشن ڈیزائن والوں نے دل سے کام کیا ہے۔

ایڈیٹنگ اور بیک گراوٴنڈ اسکور کا تو کیا کہنا ،شانی ارشد کا کمپوز کیا ہوا بیک گراوٴنڈ میوزک ٹیزر میں بھی بہت ہی عمدہ تھا اور ٹریلر میں بھی اس نے کمال بلکہ دھمال کردیا۔۔

اب فلم کے دو بڑے سرپرائز کی بات ہوجائے ایک سینئر ٹی وی آرٹسٹ اور میزبان نوید شہزاد صاحبہ جنھوں نے مہوش کی ”بیبو جی “ کا کردار نبھایا ہے ۔

نوید شہزاد صاحبہ کی یہ پہلی فلم ہے انھوں نے کافی عرصہ ٹی وی پر بہت چُن کر کام کیا اور اِس فلم میں ایسی دبنگ اینٹری دی کہ دیکھنے والے دیکھتے رہ گئے۔

”گریس فل“ دادی کے اس کردار کے کچھ شیڈز ”گرے“ بھی لگ رہے ہیں ان کو فلم میں اس کردار کیلئے کاسٹ کرنے والے نے زبردست کام کیا ہے ۔

فلم دیکھنے کے بعد سب کی خواہش ہوگی کہ وہ اور کام کریں۔دوسری سرپرائز اینٹری ہے سب کے ”عزیزی“ سہیل احمد صاحب جو ہمایوں کے دادا بنے ہیں۔ٹریلر کا آخری مکالمہ بتاتا ہے کہ فلم کی” کہانی“ سہیل احمد اور نوید شہزاد جیسے ایکٹنگ پاور ہاوٴس کے گرد بھی خوب چکر لگائے گی ۔

سہیل احمد نے ٹی وی پر کئی یادگار کردار ادا کیے انھوں نے جوانی میں ہی بڑھاپے کے کئی کردار نبھائے،فشار کے اینگری ینگ مین اسٹوڈنٹ لیڈرسمیت متعدد کرداروں کو بھلا کون بھول سکتا ہے اور لگتا ہے یہی ہے کہ اس بار ان کا فلمی کردار بھی یادگار ہوجائے گا۔

فلم میں احمد علی بٹ بھی ہیں اور عروہ حسین بھی ،فلم میں کامیڈی کا مارجن اتنا تونہیں لیکن احمد نے فلم کیلئے گیٹ اپ بھی تبدیل کیا ہے ان کی بے ساختہ اداکاری کسی بھی کردار کو ہِٹ کراسکتی ہے۔

عروہ کے گانے بھی ہیں اور چناب سے سمندر والا مکالمہ بھی اور جذباتی مناظر بھی۔فلم میں ہمایوں کے والدین کا کردار وسیم عباس صاحب اور صبا حمید نے کیے ہیں دوسری طرف بہروز صاحب اور سفینہ بہروز صاحبہ نے اسپیشل اپیئرنس میں مہوش حیات کے بڑوں غالبََا والدین کے کردار ہی ادا کیے ہیں۔

وسیم صاحب نے سالوں بعد فلم کیلئے کام کیا ہے اور سفینہ صاحبہ کی تو یہ پہلی اینٹری ہے ۔کیا اتفاق ہے کہ ان کے بیٹے اور بہو کا بطور ہیرو اور ہیروئن اسی سال ڈیبیو ہوا اور خود انھوں نے بھی پہلی باراسی سال ”میں پنجاب نہیں جاوٴنگی“ کیلئے کام کیا،سفینہ صاحبہ شہروز کی امی،سائرہ کی ساس،مومل اور شہزاد کی پھپھواور جاوید شیخ صاحب اور سلیم شیخ کی بہن بھی ہیں۔

فلم میں موسیقی کیلئے تین میوزک ڈائریکٹرز نے کام کیا ہے ایک شیراز اُپل،دوسرے شانی ارشد اور تیسرے ساحر علی بگا۔گانے ایسے ہیں جو فلم کی سچویشن کے لحاظ سے بنائے گئے ہیں اور ٹریلر میں زبردست تڑکہ لگاتے ہیں۔۔

فلم کے ڈائریکٹر ندیم بیگ نے اپنی سپر ڈوپر ہٹ فلم ”جوانی پھر نہیں آنی“سے بالکل مختلف کام کیا ہے ،اچھی اور کامیابی کے باوجود انھوں نے جلدی نہیں کی اور پہلے سے زیادہ پسینہ اور پیسہ بہا کر اور بہتر کام کیا ہے۔ہر کردار،مکالمے،گانے، رقص سے لیکر ٹیزر،ٹریلر اورریلیز تک سب اصل امتحان تو فلم کے کپتان ”ڈائریکٹر “ کا ہی ہوتا ہے۔

وہی کامیاب ہوتا ہے وہی ناکام۔فلم کا ہٹ ہونا کتنا ہونا ان سب کا فیصلہ تو عوام کرتے ہیں اس فلم کا نتیجہ بھی آئے گا۔لیکن ابھی عوام نے ٹریلر دیکھ کر اپنا فیصلہ سنادیا ہے اور اس فلم کے ٹریلرکو پاکستان کا سب سے کامیاب فلمی ٹریلر بنادیا ہے۔

باقی فلم کی ریلیز باقی ہے دوستو اور ریکارڈز تو بنتے ہی ٹوٹنے کیلئے ہیں تو سب فی الحال بڑی عید پر بڑی پکچر دیکھنے کیلئے تیار رہیں نام یاد ہے نا”میں پنجاب نہیں جاوٴنگی“۔۔۔

تازہ ترین