’’کسی بھی قوم کی ترقی وتنزلی میں اس کے اہل فکر و دانش کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل ہوتا ہے ۔یہ طبقہ جس قدر عصری تقاضوں کو سمجھنے ، قوموں کے عروج وزوال کے اسباب پر نظر رکھنے اور تاریک راہوں میں روشنی کے چراغ جلانے والا ہو اسی قدر وہ قوم ترقی کی منازل آسانی سے طے کرتی ہے ۔ لیکن جس قوم کا یہ طبقہ اپنے کردار سے غافل ہو جائے یا اس کی ادائیگی سے پہلو تہی کرے، اسی قدر اس قوم کے زوال کے امکانا ت بڑھتے چلے جاتے ہیں‘‘۔
مندرجہ بالااقتباس نامور دانشوراور صحافی پروفیسر وارث میر کے ضیاء مارشل لا دور میںلکھے گئے ایک مضمون سے ہے جس میں وہ اپنے ہم عصر ’’سرکاری دانشوروں ‘‘کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ وقتی مصلحتوں کے تحت آمر کاآلہ کار بن کروہ درباری اورہرکارے تو کہلا سکتے ہیں لیکن دانشوراورصحافی کہلانے کا حق کھو بیٹھتے ہیں۔9جولائی 1987کواڑتالیس برس کی عمر میںجوانمرگی کا شکار ہونے والے وارث میر ضیاء دور میں پروان چڑھنے والی درباری سیاست اور صحافت کوپاکستان کے لئے زہر قاتل سمجھتے تھے لہٰذا انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے حریت فکر کا علم ہمیشہ بلند رکھا۔وہ ایک روشن خیال اور لبرل سوچ رکھنے والے دانشور تھے ، ان کی فکر جہادی نہیں بلکہ اجتہادی تھی ، وہ تلوار کی بجائے قلم کی طاقت پر یقین رکھتے تھے اور مسلمانوں کو علم وخرد کا اسیر دیکھنا چاہتے تھے۔فکری لحاظ سے وہ حریت فکر اور آزادی ٔاظہار کے زبردست حامی تھے اور آمریت کی ہر شکل سے نفرت کی حد تک گریز کے قائل تھے ۔ وہ مذہبی پیشوائیت اور ملائیت کے زبردست مخالف تھے۔ان کا شمار مولانا حنیف ندوی مرحوم سے متاثران چند سرپھرے دانشوروں میں کیا جاسکتا ہے جو فقہ اسلامی کو بذریعہ اجتہاد عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے ۔شاہ ولی اللہ ، علامہ محمد اقبالؒ ،محمدعلی جناح ؒ،سرسیداحمد خان ؒکے بھی وہ اسی لئے معتقد تھے کہ یہ لوگ مسلمانوں کو جدید علوم اور عصری تقاضوں سے آشنا ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔مسلمانوں میں پائی جانے والی بے جا تقلید، رجعت پسندی اور فرقہ پرستی کے رجحانات کے وہ سخت ناقد تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ مسلمانوں کو ماضی کے حوالے سے جذباتیت اور رومانویت سے نکل کر خود تنقیدی کی نظر پیدا کرنی چاہئے ، تاکہ ماضی کی کوتاہیوں سے سبق حاصل کر کے حال اور مستقبل کو بہتر بنا یا جاسکے۔ وہ اختلافات رائے کو برا نہیں جانتے تھے کہ اس سے تحقیق کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ ان کے اپنے الفاظ میں ’’سوچنا ،سوال کرنا،شک کرنا اور انکار کرنا ہی علم کی امنگوں اورخواہشوں کے مطابق تشکیل دیا جانا چاہئے اوراسی لئے انہوں نے ضیاء مارشل لاء کی ڈٹ کر مخالفت کی اور اسے عوامی امنگوں کا قتل عام قراردیا۔
پچیس برسوں سے زائد پر محیط اپنے صحافتی کیریئر کے دوران وارث میرنے حریت فکر،انسانی حقوق، اجتہاد، حقوق نسواں، اقبالیات، فلسفہ، مذہب، سماج، سیاست، نفسیات، دائیں اور بائیں بازو کی سیاست وصحافت ،آزادی ٔاظہار ،ادبیات ،شخصیات ،پاکستان کی آئینی تاریخ اور بین الاقوامی سیاست سمیت دیگر سینکڑوں امور پر لکھا۔ان کا فکری رجحان آغاز سے ہی مختلف الجہات رہا۔اوائل عمری سے ہی ادب ، مذہب ،فلسفہ اور نفسیات سے شغف رکھتے تھے ۔مطالعے کا بہت زیادہ شوق رکھنے کی وجہ سے انہیں تحقیق سے دلچسپی پیدا ہوئی ۔جس کارنگ ان کی ہر تحریر میں نظر آتاہے۔جب وہ میدان عمل میں آئے تو خود کو ایسے ماحول میں پایا، جہاں دائیں بازو کی سیاست اور صحافت کا دور اپنے عروج پر تھا۔ انہوں نے چونکہ ایوب دور میں اپنے صحافتی کیریئر کاآغاز کیا، اس لئے ان کی اس دور کی تحریروں میں بھی ضیاء دور کی تحریروں کی جھلک نظر آتی ہے۔ دونوں ادوار میں انہوں نے جمہوریت کی حمایت ، مارشل لا حکومت کی مخالفت اور صحافت پر عائد پابندیوں کی بھر پور مذمت کی۔
پروفیسر وارث میرحالانکہ30برس پہلے وفات پا گئے لیکن آج بھی ان کی تحریروںکا جائزہ لیا جائے تو ہمیشگی کاعنصرنمایاں نظر آتا ہے۔ مثا ل کے طور پرحال ہی میں شائع ہونے والی ان کی نئی کتاب’’ فلسفۂ خوشامد۔ پاکستانی سیاست اور صحافت ‘‘میں شامل تحریروں کو پڑھا جائے تو وہ آج بھی تازہ محسوس ہوتی ہیں۔یہ تحریریں انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں قلم بند کیںجب آزادیٔ اظہار پر کڑے پہرے تھے اور حق اور سچ لکھنے والوں کوبھاری قیمت چکانا پڑتی تھی ۔اپنی تازہ کتاب میں شامل مضامین میں پروفیسر وارث میر نے جہاں ان خوشامدی سیاستدانوں ، صحافیوں اور ادیبوں کے بارے میں لکھا ہے جنہوں نے دنیاوی عہدوں اور آسائشوں کے حصول کے لئے اپنے ضمیر کا سودا کیا وہیں ماضی کے ان باضمیر اور باکردار دانشوروں ، ادیبوںاور صحافیوں کے بارے میںبھی طبع آزمائی کی ہے کہ جو حریت فکر کے مجاہد ٹھہرے اور تمام تر لالچ، دھمکیوں اور دبائو کے باوجود اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے رہے۔پروفیسر وارث میر خود بھی ایسے چند پاکستانی لکھاریوںمیں شامل تھے جنہوں نے تمام تر دبائو اور دھمکیوں کے باوجود اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا، ببانگ دہل سچ لکھا اور کسی بھی دنیاوی مصلحت کا شکار ہونے سے انکاری رہے۔
پروفیسر وارث میرکے اپنے الفاظ میں ’’زندہ قوم کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس کے لکھنے اور پڑھنے والوں کو پابندیوں اور قد غنوں کی کتنی ہی بیڑیاں کیوں نہ پہنادی جائیں ، ان کے منہ پر کتنے ہی تالے کیوں نہ لگادیئے جائیں ،وہ کسی نہ کسی طریقے سے آہ یا سسکی بھر کر احتجاج کا اظہار کرہی دیتے ہیں۔زنجیروں میں جکڑے ہوئے صاحب قلم و مطالعہ کے دل میں زنجیروں کو توڑ دینے کی خواہش ، نیت کی پوری قوت اور اخلاص کے ساتھ موجود ہو تو اس سے ہر حلقہ زنجیروں کو زبان مل جاتی ہے ۔ ویسے بھی ایک سچا لکھنے والا کسی کا ایجنٹ یا آلہ کار نہیں بن سکتا کیونکہ لکھنے والے کا تعلق انسانیت اور اپنے معاشرے کے بہتر مستقبل سے ہوتا ہے۔وہ اعلیٰ انسانی قدروں ، حسن، خیر ، امن ، اعتدال اور وطن سے محبت کا پرچارک ہو تا ہے اور وہ انقلاب کے لئے کلاشنکوف یا میزائل چلانے کی بجائے اپنا قلم چلا تا ہے جو کہ وہ عوام کی امانت سمجھ کر استعمال کرتا ہے‘‘۔
وارث میر کا مؤقف تھا کہ اس جامد نظام کی تبدیلی تک کہ جس میں فکر محبوس ہو اور اظہار پابند، انسانیت کی فلاح سے وابستہ کوئی بھی مسئلہ قابل حل نہیں۔دنیاکی تاریخ پر نظر دوڑائیںتو معلوم ہوتا ہے کہ ہر سچا دانشور،لکھاری ،صحافی ، اور ناقد جس نے باغیانہ روش اپناتے ہوئے اپنے دور کے مروجہ دقیانوسی نظام اور اس کے پس پردہ کرداروں کا چہرہ بے نقاب کرنے کی کوشش کی اسے رد عمل میں ہر طرح کی مخالفت، مشکلات اور حتیٰ کہ فتوئوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اس امتحان میں سرخرو وہی اہل قلم و دانش گردانے گئے جو اپنے مؤقف کی سچائی پر قائم رہے اور اس جدوجہد میں اپنی جان سے گزر گئے۔ انہی میں ایک معتبر نام پروفیسروارث میر کا بھی ہے جنہوں نے بے لاگ اور بیباک صحافت کی آبیاری خون دل سے کی اور اس کو نئی جان و جہت عطا کی ۔