ہزار سال قبل لڑی جانے والی صلیبی جنگوں کے اسباب بظاہر ”بیت المقدس کی آزادی“ کے نعرے سے عبارت ہیں مگر درحقیقت بیت المقدس کو آزاد کرانے کے درپردہ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ تھا، سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس کو فتح کرنے کے بعد جس کمال مہربانی کا مظاہرہ کیا اس کا اعتراف مغربی مورخین نے بھی کیا ہے۔ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی مزید براں آج ایک ہزار برس گزر جانے کے بعد بھی اگر یہود، ہندو اور نصاریٰ کے گٹھ جوڑ کو دیکھا جائے ، فلسطین، کشمیر، چیچنیا، عراق اور افغانستان جیسے تنازعات کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب کچھ اسی ایجنڈے کا تسلسل ہے کہ جو آج سے ہزار برس قبل پیٹر راہب ، شنہشاہ فریڈرک باریروسا (جرمنی) فلپ اگٹس دوم (شاہ فرانس) اور شیردل رچرڈ (انگلستان) کا تھا۔
مسلمانوں کو ہر دور میں کچلنے کے لئے کسی نہ کسی الزام اور بدنام کرنے والے القاب سے نوازا گیا، بنیاد پرستی کے الزام کی تکرار کرتے کرتے اب مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا یہ جدید دور کی اصطلاح اور الزام ہے جو لوگ نائین الیون کا حوالہ دیتے ہوئے امریکا کی جانب سے لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزام کو درست قرار دیتے ہیں وہ کم علم ہیں ورنہ کیا انہیں یہ یاد نہیں کہ جہاد افغانستان کی کامیابی اور سویت یونین کے شکست و ریخت کے بعد امریکہ کے سابق صدر نکسن نے یہودی اورعیسائی دنیا کے نام ایک کھلے خط میں لکھا تھا کہ ”اب سویت روس اورکیمونزم کی پسپائی کے بعد مغربی دنیا کو اگر کسی سے خطرہ ہے تووہ اسلام ہے اس لئے عالم اسلام کو متحد نہ ہونے دیا جائے اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ مہم تیز کر دی جائے“۔ اس خط کے مندرجات کو دیکھے اور امریکی عزائم کو سمجھئے جب کہ 62 برس سے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کی موجودگی ، بیت المقدس پر یہودیوں کا دوبارہ قبضہ اور بابری مسجد کا ملبہ کیا یہ سمجھانے کے لئے کیوں کافی نہیں، تاریخ انسانی کے سب سے بڑے دہشت گرد اور جارح ہیں کون ہیں جنہوں نے آج کے دور میں بھی صابرہ اور شیشلا کے کیمپوں میں انسانیت سوز مظالم کرنے کے علاوہ گورنتاناموبے، ابو غریب اور بگرام جیسے عقویت خانوں سمیت دنیا بھر میں ایسی خفیہ جلیں قائم کر رکھی ہیں کہ جن میں ہونے ولاے مظالم پر شیطان کو بھی شرم آجائے۔ امریکیوں، اسرائیلوں اور بھارتیوں کے قید میں مسلمان عورتوں، بچوں اور مردوں کے ساتھ کس طرح کا ہولناک اور شرمناک سلوک ہو رہا ہے اس کی رپورٹیں خود مغربی میڈیا میں آچکی ہیں جنہیں پڑھ کر ایسا نہیں لگتا کہ امریکا اور اس کے اتحادی اقوام کا بھی مہذب اور تعلیم یافتہ اقوام میں کوئی شمار ہوتا ہے۔ افغانستان جیسے غریب اور تباہ حال ملک کے عوام پر کارپٹ بمباری، 2008ء میں اسرائیل کا غزہ کے علاقے کا محاصرہ کرنا اور پھر اس محاصرے کے اندر 15 لاکھ فلسطنیوں پر قیامت برپا کر دینا۔ بغداد پر میزائلوں کی بارش اور 16 لاکھ عراقی مسلمانوں کا قتل، 62 برس سے کشمیر پر قبضہ، قبضے کے دوران مردوں کا اغوا، قتل اورعورتوں کی عصمت دری جیسے ظالمانہ اور شرمناکواقعات کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز کسی کے پاس ہے؟ 1967ء سے بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ، مسجد کو آگ لگانے اور شہید کرنے کی کوشش کرنے کے واقعات، پاپائے روم پوپ بیٹی ڈیکٹ کا 2006ء میں پیغمبر آدم کی شان اقدس میں گستاخی کرنا اور دین اسلام کو تشدد کی تعلیم دینے والا مذہب قرار دینا، 2006ء میں ڈنمارک کے اخبارات میں خاتم النبیین ﷺ سے متعلق گستاخانہ خاکے جبر اسلامی دنیا کے احتجاج کے جواب میں کغربی حکومتوں کا اسے آزادی صحافت قرار دے دینا۔4 مئی2006ء کو جرمن پولیس کے تشدد سے عامر چیمہ کا شہید ہو جانا، افغانستان پر حملہ کرتے وقت صدر بش کا واشگاف الفاظ میں یہ کہنا کہ یہ صلیبی جنگ ہے۔ صدر بارک اوباما کا انتخابی مہم کے دوران یہ کہنا کہ اگر 9/11 جیسا واقعہ دوبارہ ہوا تو مکہ اور مدینہ پر حملہ کر دینا چاہیے۔ کیا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی کس قدر اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی رکھتے ہیں؟
ایران کی موجودہ حکومت کو گرانے کے لئے کانگریس کی طرف سے 40 کروڑ ڈالر کی منظور، طالبان کی منتخب حکومت کو نیٹو افواج کے حملے کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنا اور ہلی کاپٹر پر لے جا کر حامد کرزئی کو قابل کے اقتدار پر بٹھانا، سوڈان کے منتخب صدر عمرالبشیرپر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگائے ہوئے عالمی عدالت برائے جنئی جرائم سے وارنٹ گرفتاری جاری کروا دینا، حماس کو منتخب حکومت کو تسلیم نہ کرنا، سعودی حکومت کو ایک سخت گیر بنیاد پرست حکومت قرار دینا، کیا اس بات کا اظہار نہیں کہ امریکا عالم اسلام میں ایسی جمہوریت اور انتخابات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ جن کے نتیجے میں امریکا مخالف برسراقتدار آجائیں۔ جنوبی ایشیا سے لے کر مشرقی وسطیٰ تک بھارت ، اسرائیل اور امریکا کی ایک ہی پالیسی ہے کہ جس میں اسلامی ممالک کو سیاسی ، اقتصادی اورفوجی دباؤ میں رکھتا ہے؟ اگر تمام حالات کو دیکھا اور سمجھا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ بیت المقدس سے بابری مسجد تک غزہ سے سری نگر تک، کابل سے بغداد تک، اسلام آباد سے تہران تک اور سوڈان سے ریاض تک صلیبی جنگجو جو سازشیں اور جارحیت کر رہے ہیں انہیں ناکام بنانے کے لئے پھر سے شاہ فیصل شہید جیسے مدبر، محمود غزنوی جیسے بہادر اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مجاہد کی ضرورت ہے۔ جب عالم اسلام کو ایسی سرفروش، با بصیرت، پرعزم اور دولت ایمان سے بریز قیادت مل جائے گی تو وہی انصفا اور امن کا دن ہوگا۔ایسا ضرور ہوگا اور انشاء اللہ جلد ہوگا۔