گریٹ بریٹن نے وہ ایمپائر کہاں کھڑے ہو کر سوچی ہو گی جس نے سینکڑوں سال تک اپنے اوپر سورج کو بھی غروب نہیں ہونے دیا۔ اور اُس کے جوانوں نے وہ منصوبہ سازی کہاں بیٹھ کر کی ہو گی جس کے نتیجے میں وہ اجنبی زمینوں، دُوردیس کی گنجلک زبانوں اور رنگ رنگ کے نا آشنا معاشروں اور تہذیبوں کو "یونین جیک" کے تسلط میں لا کر کرہ ارض کے سب سے بڑے عسکری فاتحین کہلاتے ہیں، یہ سب کب ہوا تھا ؟ کسی نروان کے لمحے میں ؟ کسی گوشہ تنہائی میں؟ کسی دانش کدئے میں یا بر سر بازار واقع ہائیڈ پارک لندن کے اُس "شاؤٹنگ کارنر" میں جہاں دنیا کے سارے حکمرانوں ، تمام نظاموں سمیت جس کسی کو چاہو " رگڑ" دو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ یہ سوال پاکستان کے موجودہ "حوار المفتوح " یا اُس کھلے ڈُلے ڈائیلاگ کے تناظر میں پیدا ہوتا ہے جو ہر موضوع پر ہر جگہ یوں جاری ہیں کہ اُن کے نتیجے میں " بریکنگ نیوز"، "بریک تھرو" ، " بریک اووے"، "بریک اِن" ، سب کچھ ایک ایسا ملغوبہ بن گیا ہے، جیسا کسی شہری مینا بازار یا کسی دیہاتی میلے ٹھیلے میں لگے بہت سے سٹال اپنی اپنی "پراڈکٹ" فروخت کرنے کے لیے بیک وقت سینکڑوں
لاوڈ اسپیکروں پر پبلسٹی کے ذریعے اپنے اپنے مال کی خوبیاں بیان کر رہے ہوں۔ یہ مال بھی بڑے مزے کا ہے۔ کہیں سیاسی رشوتوں کے انکشافات ہیں۔ کہیں انٹیلیجنس ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی فہرستیں۔ کہیں الیکشن چوری کرنے کے منصوبہ سازوں کی تفصیلات۔ کہیں غریب عوام کے فائدے کے لیے شرعی اور مقدس ناموں پر بنوائے جانے والے محاذ اور اتحادوں کی کہانیاں، اور کہیں حساس ترین اور سٹریٹیجک معاملات پر اس انداز کے تبصرے جیسے مچھلی منڈی میں " جھینگے" اور "رہو "کے ریٹ کا مقابلہ یا بھابڑے کی تنگ گلیوں میں گھسیٹے جانے والے سبزی اور فروٹ کے ٹھیلوں میں سے اُٹھنے والی مخصوص آوازیں۔لیکن کبھی کبھی ایسی آوازیں بھی سُنائی دیتی ہیں جن کا انداز حضرتِ ِاسرافیل کے پھُونکے جانے والے "صور" سے ملتا جلتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ صورپھُونکے جانے کے بعد اگلا مرحلہ قیامت کا ہے۔ اور کچھ وہ ہیں جو خود تو عمرِدراز کا ایک ایک لمحہ، ثانیہ اور دقیقہ مزے لینے میں خرچ کرتے ہیں لیکن لوگوں کو عاقبت آشنائی اور آخرت کی ہنگامی تیاریوں پر لگا رہے ہیں۔
یہ سارا شور شرابہ ، غلغلہ، طنطنہ، ولولہ اور ھمھمہ ایسا ہے جس میں گونجنے والی اکثر آوازیں بے سمت ہیں۔ جبکہ دوسری طرف امید اور پسپائی کے درمیان کہیں کھڑی پاکستانی قوم اس شہرِ غل غپاڑا کے درمیان گوش بر آواز ہے مگر اُسے سمجھانے کی بجائے سُنانے کا، اُسے جوڑنے کی بجائے توڑنے کا، اُٹھانے کی بجائے پچھاڑنے کا اور دلاسہ دینے کی بجائے دھکا دینے والوں کے ذریعے چلنے والا کاروبار زوروں پر ہے۔لیکن سیانے کہتے ہیں مایوسی کفرانِ نعمت ہے لہذا کچھ دیگر آوازوں کا تذکرہ نہ کرنا بھی ایسا ہی ہے۔ ہماری مراد اس شہر خرابی میں کچھ وہ آوازیں بھی ہیں جو اپنی سر زمین کے لیے دُعا ہی نہیں ، پاکستان کی بقا کے دلائل بھی دیتی ہیں۔ ان بے لوث صداؤں پر ہی اصل توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا مسئلہ غریبوں کے لیے اچھی گورننس اور اچھی گورننس کے لیے بہتر انتظام اور قانون کا بندوبست ہے اور کچھ وہ بھی ہیں جو کمزور ترین جمھوریت کو منظم ترین آمریت پر ترجیح دینے کی تبلیغ کرنے والوں کی ہیں۔ یہ وہ ہیں کہ جن کے لیے صوفی لوگ بھی یہ صدا لگاتے ہیں۔ " تیری آواز مکے مدینے" ۔ مگر غصّے میں بھنائے ہوئے ، جھوٹی انا کے بے لگام گھوڑوں پر سوار،ذات پسندی اور خود پرستی کے مریض، وہ جتھے قابلِ ذکر اور قابلِ غور ہیں جو ہر وقت "آئی۔ می اینڈ مائی سیلف "کا ورد اور وظیفہ کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے نزدیک صرف وہی درست سوچتے ہیں۔ صرف وہ درست بات کہتے ہیں۔ صرف یہی برتر ترین، ارفع ترین، اعلیٰ ترین اور ذہین ترین ہیں۔ جبکہ باقی سارے" اچھوت" یا ٹچ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اِن کو سُنیں تو یوں لگتا ہے کہ صرف یہی بُلبُل اور کوئل جیسا بولتے ہیں، اور اِنہیں پڑھنا شروع کریں تو یوں لگتا ہے کہ آخری سچائی وہی ہے جو اِن کے قلم سے قرطاس پر اُترتی ہے۔
آج کا قاری ہو یا سامع۔ ووٹر ہو یا کسی کا سپورٹر ۔ عام آدمی ہو یا خاص آدمی۔ پڑھا لکھا ہو یا کورا۔ ان سب کیٹگریز میں بے خبر کوئی بھی نہیں ہے۔ لوگ صرف اُن باتوں پر توجہ دیتے ہیں جو روح میں اُتریں، کانوں میں نہ ٹھونسی جائیں اور ہتھوڑے کی طرح کسی مخصوص ایجنڈے پر نہ برسائی جائیں۔ سیاست اور جمھوریت کی ابتدا ہی اختلافِ رائے سے ہوتی ہے۔ کیونکہ الیکشن لڑنے کے لیے فریق چاھیں اور جمھوری ایکسرسائیز میں کامیابی کے لیے اکثریت کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر دو صورتوں میں مقابلہ کم از کم دو فریقین کے درمیان ہوتا ہے۔ رولز آف گیمز کے مطابق یہ دو فریق ایک دوسرے کو طے شدہ وقت تک برداشت کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ اور سیاسی حریفوں کو سیاسی طور پر زندہ رکھتے ہیں، تاکہ سیاسی نظام چلتا رہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ، جہاں سیاست میں حریف باقی نہ رہے، وہاں آمریت، مارشل لاء، بادشاہی، پاپائیت آتی ہے اور پھر خون کا خراج لیکر رخصت ہوتی ہے۔ ہر جگہ ، اور ہر وقت رخصتی ضروری نہیں۔ جنھیں یقین نہیں آتا وہ میانمار کی "آن وان سوئچی" بمقابلہ برما کے چوالیس سالہ مارشل لاء کی داستان پڑھ لیں۔ یہ ماضیِ مرحوم کا قصّہِ پارینہ نہیں، نئے ملینیئم کے پہلے عشرے کی ایسی لائیو اور مُسلسل خون آشام حقیقت ہے جو پچھلے ملینیئم کے تینتیس سالوں کا تسلسُل بھی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ یا قوم جس کے حیلہ باز " پاور گیم" کے لیے برسرِ پیکار ہوں، وہاں عام آدمی بھی آوازوں کا پس منظر سمجھ لیتا ہے۔ اور آج جو شور شرابے کے اردگرد ہجوم نظر آتا ہے، وہ بھی اس بیدار قوم کی طرف سے خود پسندوں کے بارے میں اعلانِ لا تعلقی ہے۔ یا شاید کچھ یوں بھی ہے۔
ہم کھڑے ہیں گوش بر آواز، تیرے شہر میں
برسرِ طاقت ہیں حیلہ باز، تیرے شہر میں