• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے شہر ہوسٹن میں ورلڈ افیر کونسل کی جانب سے ترتیب دیئے گئے ایک پروگرام میں سابق صدر جنرل مشرف نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 9/11 کے بعد امریکہ کے ساتھ دینے کا فیصلہ میرا ذاتی تھا۔ انہوں نے کہا 2000ء سے لیکر 1997ء تک امریکہ کی جانب سے تین بڑے غلط فیصلے کئے گئے جس کی وجہ سے آج افغانستان سمیت پورے خطہ میں حالات خراب ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل نے مزید کہا کہ افغانستان میں اس وقت اگر طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا جاتا تو وہاں پر کبھی بھی القاعدہ قدم نہیں رکھتی۔ امریکہ کی دوسری بڑی غلطی مسئلہ کشمیر کو حل نہ کرنا ہے جس کی وجہ سے خطہ میں انتشار پھیلا۔ علاوہ ازیں یہ کہنا بھی بالکل غلط ہے کہ ISI نے جہادی تنظیموں کی پرورش کی ہے۔
جنرل صاحب امریکیوں کو لیکچر دے کر کیا سمجھانا چاہتے ہیں یہ تو بعد کی بات ہے پہلا سوال تو یہ ہے کہ جنرل صاحب نے خود اپنے ملک کو کیا دیا۔ آج جن غلطیوں کو امریکہ کے سر تھونپا جارہا ہے اس سے بڑھ کر غلطیاں تو خود جنرل صاحب نے کیں۔ امریکہ کو تو 9/11 اور القاعدہ کی آڑ میں افغانستان کو تباہ اور پاکستان کو نقصان پہنچانا تھا سو اس نے یہ کام کیا لیکن جنرل صاحب نے کس خوشی اور امید پر اپنے ملک کو اس پرائی جنگ میں دھکیل دیا۔ کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ امریکہ کی جنگ میں پاکستان کو نہ گھسیٹتے۔
امریکہ کو افغانستان پر حملہ کرنے میں مدد کیلئے انٹیلی جنس لاجسٹک سپورٹ کے علاوہ بندرگاہ اور ہوائی اڈے دینے کی سہولتیں فراہم کرنے کا فیصلہ کور کمانڈرز کے اجلاس میں ہوا تھا… تو کیا ایک برادر اسلامی ملک اور پڑوسی ملک پر امریکی حملے میں ملوث ہونے کے نتائج پر غور کرنے کیلئے ضروری نہیں تھا کہ تمام قومی رہنماؤں سے مشاورت کرلی جاتی ، پڑوسی ملک ایران ، دیرینہ دوست چین سمیت روس اور سعودی عرب سے بھی مشورہ کرلیا جاتا۔ او آئی سی سیکریٹریٹ کو بھی صورتحال سے آگاہ کردیا جاتا کیونکہ ایک آزاد ملک افغانستان پر نیٹو افواج کے حملے کے نتائج بہت دور تک جاسکتے تھے جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا کہ افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ کو حوصلہ ملا اور پھر وہ ایک دوسرے آزاد اسلامی ملک عراق پر چڑھ دوڑا… مگر وسیع تر مشاورت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ ان کا خیال تھا کہ جو ہم سمجھتے ہیں وہ کوئی نہیں سمجھتا اور ہم ہی ملک کے مفاد کو بہتر سمجھتے ہیں۔ جنرل مشرف کی وہ پہلی تقریر اب تک ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کا ساتھ دینے سے نہ صرف پاکستان مضبوط ہوگا بلکہ مسئلہ کشمیر بھی حل ہوجائے گا اور ہمارے ایٹمی اثاثے بھی محفوظ ہوجائیں گے تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس کا اب جنرل صاحب کو اعتراف ہے لیکن اس اعتراف کا اب کیا فائدہ جب امریکہ کا حلیف بن کر افغانستان پر حملے کے نقصانات ناقابل تلافی ہوچکے ہیں۔ افغانستان ، عراق اور پاکستان جس بیرونی دباؤ، جارحیت اور معاشی و اقتصادی تباہی سے دوچار ہیں ان کا ازالہ ایک ریٹائرڈ جنرل کیونکر اور کس طرح کر پائے گا۔ وہ جنرل جو تین اسلامی ملکوں کو مصیبت اور تباہی میں ڈال کر آج بھی مغربی ممالک سے ”غدّاری“ کی قیمت اور ڈالر وصول کرتا پھر رہا ہے، جہاں تک ISI کی بات ہے تو اس حوالے سے بھی گزارش ہے کہ امریکہ تو ISI سے خائف ہے کیونکہ ISI اپنے حلف کے تحت قومی مفادات کی حفاظت کررہی ہے تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ جنرل مشرف اور صدر زرداری کی حکومتوں میں وہ کون لوگ تھے اور ہیں کہ جو ISI کو بدنام اور کمزور کرنے کیلئے امریکہ کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ بہرحال جنرل مشرف کے لیکچر اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہیں لہٰذا کسی بھی حوالے سے ان کی اہمیت نہیں۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ دنوں امریکہ کے دورے کے دوران اخبار وال اسٹریٹ جنرل کو ایک انٹرویو سمیت لاس اینجلس ورلڈ افیر کانگریس سے خطاب کے دوران کہا ”طالبان کو شکست دیئے بغیر امریکہ کی پسپائی تباہ کن ہوگی اور یہ اقدام پاکستان کی مشکلات میں اضافہ کرے گا“۔ وزیر موصوف نے مزید فرمایا کہ ”امریکہ کی انخلاء کی پالیسی سے پاکستان مزید مشکلات سے دوچار ہوجائے گا،خودکش حملے بڑھ جائیں گے اور معیشت پر اعتماد میں ڈرامائی کمی ہوگی کیونکہ سرمایہ کاروں کو یہ خوف ہوگا کہ طالبان اپنی نظریں اسلام آباد کی طرف موڑ لیں گے۔“
وزیر خارجہ کا مذکورہ بیان جہاں یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ ہمارے محترم وزیر خارجہ ان حالات، امکانات اور نتائج سے واقف ہی نہیں کہ جو افغانستان میں امریکی افواج کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں اور بعد ازاں مزید سامنے آتے رہیں گے۔ غیرملکی افواج کو افغانستان پر غیرقانونی قبضہ برقرار اور جارحیت جاری رکھنے کا مشورہ دینے سے پاکستان کی غیرجانبدارانہ حیثیت اور آزاد خارجہ پالیسی سمیت وہ اصول کہ جو ہم مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے بیان کرتے رہتے ہیں وہ کس قدر متاثر ہوگا اس کا بھی وزیر موصوف کو کوئی احساس نہیں جبکہ افغانستان میں اتحادی افواج کی موجودگی سے پاکستان سمیت پورا خطہ اس وقت جس عدم استحکام ، تشدد اور انتقام میں سلگ رہا ہے اس کی بنیادی وجوہات اور اسباب سے بھی وزیر خارجہ لا علم ہیں۔ زیادہ دیر تک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا افغانستان میں موجود رہنے سے خود پاکستان کیلئے کس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوں گے ، ان کا وزیر خارجہ کو ادراک نہیں جبکہ امریکی افواج کے یہاں سے انخلاء کرجانے کے بعد پورے خطہ میں کس قدر صورتحال بہتر اور پائیدار امن کے امکانات روشن ہوجائیں گے وہ بھی وزیر صاحب کی نظروں سے اوجھل ہیں جبکہ اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ روس ، چین، ایران اور بھارت سمیت کوئی بھی پڑوسی ملک یہ نہیں کہہ رہا جو ہمارے وزیر خارجہ فرما رہے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوج کو موجود رہنا چاہئے ان کے انخلاء سے خطرات بڑھ جائیں گے حالانکہ نیٹو افواج کے انخلاء سے حالات بہتر اور پرسکون ہوجائیں گے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ”بدلے کی جنگ“ اور افغانستان کے اندر غیرملکی فوجوں کے خلاف ”جہاد“ دونوں رک جائیں مگر پاکستان کے وزیر خارجہ ایک ایسی بات کررہے ہیں کہ جس پر جس قدر ماتم کیا جائے وہ کم ہے۔
وزیر داخلہ جناب ر حمٰن ملک نے گزشتہ دنوں سنگا پور میں انٹرپول کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ” دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا صلہ نہیں ملا ۔ پاکستان کو ہر روز ایک نائین الیون کا سامنا ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کا ساتھ دیا اور افغانستان میں اہم کردار ادا کیا تاہم عالمی برادری کی طرف سے مقاصد کے حصول کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔
جناب رحمن ملک کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ عالمی برادری ”مفادات کی برادری“ ہے جہاں گلہ اور شکوہ نہیں بلکہ وقت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بزدلوں اور احمقوں کو عالمی برادری میں غلام اور کنیز بنا کر رکھا جاتا ہے۔ پاکستان کی قیادت اگر احمقوں کی جنت میں پھول تلاش کرتی پھرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا کے تمام عقلمند بھی یہ کام کرنا شروع کردیں گے۔ عالمی برادری ایک نام ضرور ہے مگر اس میں شامل ہر ملک اپنے مفاد میں کام کرتا ہے۔ جنرل مشرف سے لیکر صدر زرداری تک امریکہ کی جس پالیسی کا لگام پکڑ کر پاکستانی حکمران کابل سے سوات اور وزیرستان تک جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور مزید یہ کہ جس جنگ کا اب اگلا ہدف بلوچستان اور جنوبی پنجاب بھی ہے وہ جنگ قطعاً پاکستان کے مفاد کی جنگ نہیں۔ یہ امریکی ایجنڈا اور بھارت کی ضرورت ہے کہ پاکستان حالت جنگ میں رہے کس قدر عجیب اور افسوسناک بات ہے کہ جنرل مشرف اقتدار سے نکالے جانے کے بعد اپنی غلطیوں کا اعتراف کررہے ہیں اور رحمن ملک دوران حکومت یہ اقرار کررہے ہیں کہ پاکستان کو اس کی قربانیوں کا صلہ نہیں ملا، مگر پھر بھی حکومت پاکستان مزید قربانیاں دینے کیلئے تیار ہے۔ ایسے حکمرانوں کیلئے دعا کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے کہ جو سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود دھوکہ کھانے اور پوری قوم کو لہولہان کرنے میں کسی طرح کی کوئی ہچکچاہٹ یا شرمندگی محسوس نہیں کررہے ۔ رحمٰن ملک کا عالمی برادر ی سے گلہ شکوہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی بچہ تھپڑ کھانے اور بار بار کھانے کے باوجود اس لالچ پر پیچھے چلتا رہے کہ کبھی تو ٹافی ملے گی… جناب رحمٰن ملک سے گزارش ہے کہ تاریخ ان قوموں ہی کو یاد رکھتی ہے کہ جن کی قیادت زندہ ہوتی ہے۔ قوم اگر مرنا بھی چاہے تو جرأت مند، غیرت مند اور با صلاحیت قیادت اسے موت کی چارپائی سے بھی اٹھا کر میدان میں کھڑا کردیتی ہے لیکن اگر قیادت حواس باختہ ، بزدل اور نااہل ہو تو وہ زندہ اور ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود شکست اور غلامی کے طوق کو اپنے گلے میں ڈال لیتی ہے۔ (جاری ہے)
تازہ ترین