سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے گزشتہ دنوں نیویارک میں ایک صحافی کو انٹریو دیتے ہوئے صدر زرداری سے متعلق جو ریمارکس دیئے، وہ افسوسناک اور قابل مذمت ہیں۔ ان کے الفاظ میں ”آصف زرداری محب وطن نہیں، وہ جرائم پیشہ اور دھوکے باز ہیں۔“ بلاشبہ صدر زرداری کے سیاسی کیریئر پر تنقید ہوسکتی ہے۔ ہم ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں صدر زرداری یا حکومت کے خلاف رائے دینے کا استحقاق بھی رکھتے ہیں۔ جناب زرداری میں جتنی بھی خامیوں کی نشاندہی کی جائے، وہ ممکن ہے ان میں ہوں کیونکہ وہ انسان ہیں تاہم اتنا اندھیر بھی نہیں ہے کہ ان کی ذات میں کوئی خوبی ہی نہ ہو۔ صدر زرداری صاحب ہزار خامیوں کے باوجود جنرل مشرف کے مقابلے میں اس لئے زیادہ محب وطن اور بہادر ہیں کہ انہوں نے اقتدار پر شب خون نہیں مارا اور نہ ہی انہوں نے محترمہ کی شہادت کے المناک واقعہ کے بعد کسی بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ یہ بھی ممکن ہے جناب زرداری اقتدار سے جلد محروم ہوجائیں۔ جب ہم جناب زرداری کا موازنہ جنرل مشرف اور میاں نواز شریف کے ساتھ کرتے ہیں تو ان کے مقابلے میں زیادہ بہادر اور ثابت قدم نظر آتے ہیں۔ جہاں تک جنرل مشرف کی جانب سے صدر زرداری پر لگائے گئے الزامات کا تعلق ہے تو آصف علی زرداری جرائم پیشہ ہے یا نہیں… اس کا فیصلہ عوام ووٹوں اور عدالت کے فیصلوں سے ہونا چاہئے۔ اس بارے میں کسی ایسے شخص کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں جو خود این آراو کا ماسٹر مائنڈ ہو اور جس نے محض اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے قومی دولت لوٹنے والوں کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش کی۔ ایسے کسی شخص کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کو جرائم پیشہ قرار دے۔ کیا این آراو کی تخلیق اور نفاذ سے بڑھ کر بھی کوئی جرم ہے؟ آصف علی زرداری پر دھوکے باز ہونے کا الزام لگانا کسی ایسے شخص کو ہی زیب دیتا ہے جس نے خود کسی دوسرے کو دھوکا نہ دیا ہو۔ ہم مشرف سے پوچھنا چاہیں گے کہ ایک منتخب وزیراعظم کی حکومت کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر برطرف کرکے اقتدار سنبھالنا، کیا پاکستان کے کروڑوں عوام کے ساتھ دھوکا نہیں تھا؟ کیا کارگل میں پیش قدمی کے بعد پسپائی بزدلی نہیں تھی؟ کیا ایم ایم اے کے ساتھ 17/ویں ترمیم سے اتفاق کے بعد وردی نہ اتارنا، دھوکا نہیں تھا؟ کیا لال مسجد، ڈیرہ بگٹی، سوات اور وزیرستان آپریشن شروع کرنا، ملک کی یکجہتی اور سلامتی کو نقصان پہنچانا نہیں تھا اور محترمہ بینظیر بھٹو، عبدالرشید غازی اور نواب اکبر خان بگٹی کے مقدمات کا سامنا کرنے سے پہلے ہی فرار ہوجانا، کیا بزدلی نہیں ہے۔ نواب بگٹی کے قتل پر اب یہ کہنا کہ میں تو محض صدر تھا، انتظامی اختیار تو وزیراعظم شوکت عزیز اور وزیراعلیٰ جام یوسف کے پاس تھے، اس کے علاوہ بھی کئی ایجنسیاں اس فیصلے میں شریک تھیں تو کیا وہ اپنے ساتھیوں کے خلاف اس وقت ہی وعدہ معاف گواہ بننے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ ابھی تو گرفتاری بھی عمل میں نہیں آ ئی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی، ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک، 60/جج صاحبان کو نظربند کرنا، دو برس تک ہزاروں وکلاء پر تشدد کرتے رہنا مگر اب اس کے بعد یہ کہنا کہ مجھ سے غلطی ہوئی، کیا بزدلی، مکاری اور بے شرمی نہیں…؟ آرمی چیف کے عہدے اور صدارت کے منصب سے چپکے رہنا، کیا لالچی ہونے کی دلیل نہیں۔ کیا چک شہزاد سے لے کر لندن کے لگژری فلیٹ اور دیگر کئی قیمتی پلاٹوں کی موجودگی، کرپشن کا ثبوت نہیں۔ بجلی کے بلوں سے لے کر قومی خزانے میں موجود قیمتی غیر ملکی تحائف کو لے اڑنا، کیا چوری نہیں۔ کراچی میں لوٹ مار اور ٹارگٹ کلنگ پر چشم پوشی کرنا، کیا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا ثبوت نہیں۔ شوکت عزیز کی کرپشن سمیت 9/برس کے دور اقتدار میں پلاٹوں کے سودوں اور معاہدوں میں کی جانے والی بدعنوانیوں پر پردہ پوشی کرنا، کیا بددیانتی اور کرپشن نہیں تھی۔ 9/برس تک ملک کے سیاہ سفید کا مالک بنے رہنے کے باوجود کیا گڈ گورننس کا قائم نہ کرنا، نااہلی کا مظاہرہ نہیں۔ صدر بش کی ایک دھمکی کے سامنے سرینڈر کردینا اور نیٹو افواج کو برادر اسلامی اور پڑوسی ملک افغانستان پر حملہ کردینے کیلئے لاجسٹک اور انٹلیجنس سپورٹ فراہم کرنا، ملک کے مستقبل اور وسیع تر مفادات سے غداری نہیں تھی۔ تحریک آزادی کشمیر جو درحقیقت الحاق پاکستان کی تحریک ہے، اس کی اخلاقی اور سیاسی مدد کرنے کے بجائے اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ قراردادوں کو چھوڑ کر 12/آپشنز کی بات کرنا، قومی وقار اور ملکی مفاد سے انحراف اور کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں سے انکار نہیں۔ انسداد دہشت گردی کی جنگ جو درحقیقت صلیبی جنگ ہے، اس میں کندھے اچکاتے ہوئے فرنٹ لائن اتحادی بن کر کھڑے ہوجانا، عالم اسلام کو صدمہ، سامراجی قوتوں کو فائدہ اور خطے کو غیر محفوظ اور غیر مستحکم کرنے جیسی قابل مذمت اور شرمناک حرکت نہیں تھی۔ 2001ء میں امریکا کو افغانستان پر حملہ کردینے میں مدد دینا افغانستان سے عراق تک جو لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا، اس کا ذمہ دار کون ہے۔ پانچ پانچ ہزار ڈالر میں پاکستانی شہریوں کو امریکا کے حوالے کردینا، کیا ضمیر فروشی نہیں تھی؟ عالمی سطح کا یہ رہنما جس نے پاکستان پر 9/برس حکومت کی، اپنی بہادری، حب الوطنی اور بالاتری کو ثابت کرنے کیلئے پاکستان کب تشریف لائے گا۔ اگر کمانڈو جنرل امریکا کی گود میں اور انگریزوں کی کمین گاہوں میں چھپ کر توپیں چلاتا رہے گا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ایسی توپیں تو عوامی میلوں میں طوطا بھی چلاتا ہے اس لئے طوطے کی توپ اور جنرل مشرف کے بیانات میں آخر کچھ فرق تو ہونا چاہئے؟