• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھیڑ اس قدر تھی چوک میں تانگہ الٹ گیا!روزن دیوار سے …عطاء الحق قاسمی

بزرگوں نے سچ کہا تھا کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے، میں نے غزل کے خوبصورت شاعر روحی کنجاہی کی غزل کے ایک مصرعہ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
کے ” کثیر الاستعمال “ ہونے کے حوالے سے کسی زمانے میں پے در پے کالم لکھے تھے، اب وہی سلوک برادر عزیز آفتاب اقبال اپنے ٹی وی پروگرام” خبرناک“ میں میرے ساتھ کررہے ہیں ،اس کا تذکرہ آگے چل کر ہوگا، مگر اس سے پہلے روحی کنجاہی کے مصرعے کی باز گشت سن لیں، میں نے لکھا کہ روحی کا یہ مصرعہ آپ کسی بھی خبر، کسی بھی جملے اور کسی بھی تبصرے کے آخر میں لگادیں وہ ساری صورتحال کی کایا پلٹ کر رکھ دے گا۔ میں نے اپنے متعدد کالموں میں اس کی متعدد مثالیں پیش کیں۔ مثلاً ایک خبر تھی”حکومت مہنگائی کی روک تھام کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی“ اس کے آگے میں نے روحی کنجاہی کا مصرعہ#
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
لگادیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ، اس کی کچھ اور مثالیں کچھ اس طرح تھیں۔
گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تو ہم سے خفا ہے تو زمانے کے لئے آ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
انہی دنوں میڈم نورجہاں اور اداکار اعجاز کے درمیان علیحدگی کی خبر اخبار میں شائع ہوئی تو روحی کنجاہی کا مصرعہ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
یہاں بھی کام آیا۔ جنرل ضیاء الحق نے چودھویں بار اعلان کیا کہ وہ اسلامی نظام نافذ کرکے دم لیں گے ، روحی کنجاہی کے مصرعے نے یہاں بھی ان اعلانات کی قلعی کھول کر رکھ دی ۔ سو اس مصرعے کے استعمال نے وہ دھومیں مچائیں کہ بعض دوسرے کالم نگاروں نے بھی اس سے کام لینا شروع کردیا، بعد میں میں نے یہی کام شعیب بن عزیز کے مصرعے
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
سے لینا شروع کردیا۔ صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے ،آپ بھی اس مصرعے کو مختلف اخباری بیانات و واقعات کے آخر میں لگا کر دیکھیں، رام بھلی کرے گا۔
لیکن کسی خوبصورت مصرعے کا دل دکھایا جائے تو اس کی آہ تو لگتی ہے۔ افلاک سے نالوں کا جواب تو آتا ہی ہے سو ایسے ہی ہوا آفتاب اقبال کے ہتھے میرا یہ شعر چڑھ گیا۔
اسے اب بھول جانے کا ارادہ کرلیاہے
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کرلیا ہے
میرے اس مزاح نگار دوست کے تخلیقی ذہن نے اس شعر کے دوسرے مصرعے کی بہت سی”پرتیں“ دریافت کیں اور پھر انہیں اپنے ایک لاجواب کردار میر محمد علی کے سپرد کردیا، سو ان دنوں اس مصرعے کی بھرپور” بے حرمتی“ ہورہی ہے۔ کچھ مثالیں ملاحظہ کریں۔
”حکومت عدلیہ کے خلاف سازش کررہی ہے“
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کرلیا ہے
”جلد ہی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیا جائے گا“
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کرلیا ہے
”نیا سیکٹر کھولتے وقت فوری قبضہ یقینی بنایا جائے گا“
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کرلیا ہے
”قیام امن اور عدل و انصاف کے نظام کے لئے امریکی غلامی سے نکلنا ہوگا“
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کرلیا ہے
”تعلیمی اداروں میں زبانی اور جسمانی سزاؤں کا رجحان ختم کیا جائے گا“
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کرلیا ہے
سو روحی کنجاہی اور شعیب بن عزیز کے مصرعوں کی جو درگت میں نے بنائی تھی ،آفتاب اقبال اس کا بدلہ لینے کے لئے میدان میں اترآئے ہیں۔ میں اپنے ”گناہوں“ کے ”کفارے“ کے طور پر اس ضمن میں آفتاب کا ہاتھ ضرور بٹاتالیکن یہ نوجوان کسی کی بھی ”بِستی“ کرنے میں خود کفیل واقع ہوا ہے لہٰذا اسے میری طرف سے ملنے والی کمک کی کوئی ضرورت نہیں البتہ میں اس کی خدمت میں اس کے والد اور میرے محبوب شاعر ظفر اقبال کے چند شعر پیش کرتا ہوں ،مجھے یقین ہے کہ یہ شعر بھی آفتاب کے ”کام“ کے ہیں اور یہ بھی یقین ہے کہ ان”کارآمد“ شعروں یا مصرعوں سے وہ بے شمار سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے غباروں سے ہوا نکالنے کا کام لیں گے، خواہ اس کے نتیجے میں خود والد صاحب کی”عزت سادات“ہی کیوں نہ خطرے میں پڑجائے بلکہ میری اطلاع یہ ہے کہ آفتا ب یہ پروگرام پہلے سے بنا چکے ہیں بہرحال شعر ملاحظہ فرمائیں
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر#
آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے
اس شعر کا دوسرا مصرعہ انشاء اللہ کافی جرنیلوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور میڈیا پرسنز کے برج الٹا سکے گا۔
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تو نہ ملا
اس شعر کا بھی دوسرا مصرعہ بہت سے سیاسی معرکوں کا پول کھول سکتا ہے۔
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آلیا
یا
یہ شہر وہ ہے جس میں کوئی گھر بھی خوش نہیں
داد ستم نہ دے کہ ستم گر بھی خوش نہیں
شعروں کے آخری مصرعے بھی بہت سے بیانات اور خبروں میں کہرام مچا سکتے ہیں۔ اور اب آخر میں ظفر اقبال کا صرف ایک اور شعر درج کررہا ہوں اور یہ شعر ایسا ہے جو اوپر درج کئے گئے سارے شعروں کا مائی باپ ثابت ہوگا۔ شعر ہے
ہم بس گئے تھے گرمی بازار دیکھنے
بھیڑ اس قدر تھی چوک میں تانگہ الٹ گیا
بس یہ شعر استعمال کریں اور اس کے بعد ”تانگے “ الٹتے دیکھیں۔

تازہ ترین