گلگت بلتستان میں عام انتخابات کے انعقاد کے بعد9 مختص نشستوں پر امیدواروں کی نامزدگی کادوسرا مرحلے شروع ہو گیا ہے۔ گلگت بلتستان اسمبلی کی کل 33نشستوں میں سے 24پر براہ راست انتخابات ہوئے ۔6سیٹیں خواتین اور تین ٹیکنو کریٹس کے لئے مختص ہیں ۔ انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ایم کیو ایم،مسلم لیگ ق،مسلم لیگ ن،گلگت بلتستان ڈیمو کریٹک الائنس (جی بی ڈی اے)، بلاورستان نیشنل فرنٹ (بی این ایف)نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ق اور ن لیگ نے قومی اسمبلی سے بھی واک آؤٹ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔یوں تو ہماری سیاست میں عوام کا منڈیٹ تسلیم،ناکامیوں کو صدق دلی کے ساتھ قبول کرنے اور اصلاح احوال کی بہت کم سکت پائی جاتی ہے اس لئے گلگت بلتستان کے انتخابات میں روایتی طور پر احتجاجی سیاست بروئے کار لائی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم وفاقی حکومت میں اتحادی جماعت ہے۔ اس کا پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی کے الزامات لگانا غیر معمولی بات ہے۔یہ پارٹی ملکی سیاست میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے کراچی اور حیدر آباد سے نکل کر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک سیاسی سفر کا آغاز کیاہے ۔ گلگت بلتستان میں ایم کیو ایم نے کل 24میں سے 20 نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے ۔اسکردو سے اس کے ایک امیدوار کو کامیابی ملی۔جس نے پی پی پی کے امیدوار کو دو ہزار ووٹوں سے شکست دی۔گلگت کے ایک حلقے میں اس کے امیدوار کو پی پی پی نے شکست دی۔ غذر میں ایم کیو ایم کے امیدوار کی موت کے باعث الیکشن ملتوی کیا گیا۔ گلگت بلتستان میں تقریباً سوا سات لاکھ ووٹروں نے 250 امیدواروں کی سیاسی قسمت کا فیصلہ کرنا تھا۔ انتخابات میں پی پی پی نے سب سے زیادی 23نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے تھے جن میں سے 11میں اسے کامیابی ملی۔ ن لیگ کو 14امیدواروں میں سے دیامر اور گانچے حلقوں سے دو،ق لیگ کو 14میں سے دیامر اور گلگت سے دو، جے یو آئی کو 6میں سے دیامر کی ایک جبکہ آزاد امیدواروں کو چار نشستیں ملیں۔ جماعت اسلامی نے تین، جی بی ڈی اے نے 10،اے این پی4،تحریک انصاف دو اور بی این ایف نے دو امیدوار کھڑے کئے تھے لیکن ان جماعتوں کا کوئی امیدوار کامیاب نہ ہو سکا۔دیامر اور گلگت کے دو حلقوں میں تصادم کے باعث الیکشن ملتوی کیا گیا۔ پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان حکومت تشکیل دینے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں اور وزارت اعلیٰ کے لئے سید مہدی شاہ کو نامز د کیا ہے۔ پی پی پی پر الزامات ہیں کہ اس نے انتخابات میں غیر ضروری طور پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اسکردو میں انتخابی جلسے سے خطاب میں پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔ وزیر امور کشمیر، اطلاعات و نشریات اور قائم مقام گورنر گلگت بلتستان قمر زماں کائرہ نے انتخابی مہم چلائی۔ پاکستان بیت المال کے چیئر مین اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئر پرسن نے بھی پارٹی کے لئے مہم چلائی۔یہ بھی الزام ہے کہ بینظیر ٹریکٹر سکیم کا غلط استعمال کیا گیا۔ ترقیاتی پیکیجز کے اعلانات بھی کئے گئے تاکہ پی پی پی کے امیددواروں کے حق میں رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔اس سلسلے میں سرحد اور پنجاب حکومتوں نے بھی انتخابی کوڈ آف کنڈیکٹ کی خلاف ورزی کی ۔حکومت کی جانب سے مشکوک نوعیت کے اعداد و شمار پیش کئے گئے۔مثلاً گلگت میں کل آبادی 56641اور رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 48574 دکھائی گئی ہے۔اسی طرح دیامیر کی کل آبادی 40680اور رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 39249ظاہر کی گئی ہے۔پارٹیوں کو الیکشن تیاریوں کا بھی موقع نہ مل سکا۔صرف 18دن میں انتخابی عمل مکمل کیا گیا ۔انتخابی فہرستیں تیار کرنے میں اس عجلت کے باعث غلطیاں ہوئیں۔نیز شدید سردی کے باعث ٹرن آؤٹ پر منفی اثر پڑا۔اسلئے خطے میں جمہوری عمل کے فروغ کیلئے انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ پیپلز پارٹی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے خطے کے عوام کو حقوق دئیے اور ان کا تشخص تسلیم کیا۔وزیر اعظم یوسف گیلانی کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے جس میں انھوں نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا نہیں بلکہ کشمیر کا حصہ قرار دیا ہے۔ گلگت بلتستان ایک حساس علاقہ ہے جس کی سرحد چین کے ساتھ ملتی ہے۔چین کے تعاون سے بونجی استور میں 7ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لئے ڈیم تعمیر کیا جا رہا ہے جبکہ دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر بھی خطے کی تعمیر و ترقی میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ گلگت بلتستان میں جمہوری دور کے آغاز اور چین کی دلچسپی نے بھارت کو احتجاج پر مجبور کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابات کو بھارت نے کاسمیٹک مشق قرار دیا جسے پاکستان نے مسترد کر دیا۔ بھارت کی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر1947ء سے نظریں مرکوز ہیں۔مقبوضہ کشمیر سمیت وہ ان خطوں کو بھی اپنا حصہ سمجھتا ہے۔اس سلسلے میں بھارتی پارلیمنٹ میں قرارداد منظور کی گئی ہے۔وقت کا تقاضا ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو زیادہ سے زیادہ حقوق دئے جائیں۔انتخابات اور دیگر انتظامی معاملات میں وفاقی حکومت کی مداخلت ختم کرنے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ بھارت اور پاکستان کے دیگر دشمنوں کو پروپگنڈہ کرنے کا موقع اور مقبوضہ کشمیر پر ناجائز تسلط بر قرار رکھنے کا جواز نہ مل سکے۔ بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنانے کے لئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان میں انتخابی دھاندلی کی شکایات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جائے اور عوام کو زیادہ سے زیادہ حقوق اور اختیارات دینے کے اقدامات کئے جائیں۔