جے آئی ٹی کی رائے میںوزیر ِاعظم نوازشریف اور اُن کے خاندان نے اپنی اعلانیہ آمدن سے بڑھ کر اثاثے جمع کیے ہیں، اُن کے دفاع میں بہت سے جھول ہیں ، وہ صادق اور امین نہیں ہیں، چنانچہ اُنہیں سزا ملنی چاہیے ۔ اس جانچ پرکھ سے کون اختلاف کرسکتا ہے ؟ہم ایک’’ نظام ‘‘رکھتے ہیں۔ اس نظام میں غلط کاری کا ارتکاب کرنے والے وزیر ِاعظم کا یقینی طور پر احتساب کرنا چاہئے ۔ اس میںکوئی دوآرا ہوہی نہیں سکتیں۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بذات ِ خود بہت سے جھول ہیںاور اس کے متعصبانہ ہونے کا تاثر بھی موجود ہے ۔ کیا ہوا اگر فیصلے سنانے والے جج صاحبان ہر قسم کے احتساب سے بالا تر ہیں۔ اور یہ کہتے ہوئے بھی زبان کٹتی ہے کہ جبہ ودستار اور تقدیس کے لبادوں میں ملفوف ’’پرہیزگاری‘‘اور میڈیا کی عقابی آوازوں کا بھی احتساب ہونا باقی ہے ۔ رہ گئی بات مقتدر قوتوں کے احتساب کی تو ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘۔ کیا ہوا اگر آزادی کے بعد سے اب تک بیسیوں مرتبہ منتخب وزرائے اعظم کو مدت پوری کرنے سے پہلے اتارنے کے لئے یہی دلائل سن چکے ہیں، لیکن ہم نے کبھی ’’نظام ‘‘ کا احتساب ہوتے نہیں دیکھا ۔ کیا ہواا گر ریاست کے ان ستونوں کی جمع شدہ دولت اور غیرملکی حکمران خاندانوں کی طرف سے ملنے والے تحائف اور عطیات اُن کی اعلانیہ آمدنی سے کہیں بڑھ کر ہیں۔
یہ ہے وہ شاندار نظام جسے نظریہ ضرورت کو مقدم سمجھنے اور ایک مقبول وزیر ِاعظم کو پھانسی پر چڑھا دینے والے ججوں کے سوا ہر چیز پر تقدیم حاصل ہے ۔یہ شاندار نظام ہر کسی کا احتساب کرسکتا ہے سوائے اُن بعض جنرلوں کے جنہوں نے آزادی کے بعد سے اب نصف کے قریب مدت تک اقتدار پر قبضہ جمائے رکھا اور اس کے نتیجے میںنصف ملک کھو دیا۔ صرف یہی نہیں، اُنھوں نے سیاسی نظام، انتخابات اور سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہونے کی پالیسی اپنائے رکھی لیکن ہے کسی کی مجال جو اُن کے احتساب کا نام بھی لے ۔ اس نظام کی سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ اپنے بل بوتے پر جاری ہے لیکن اس کی نظروں کے سامنے ہونے والی بدعنوانی میں ایک رتی بھر کمی نہیں آئی ۔اس دوران یہ حقیقت بھی ورطہ ٔ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ اگرچہ اس طاقتور نظام کی نظروں میں بدعنوانی ایک بہت بڑا ایشو ہے لیکن پاکستان کے کم ظرف عوام کو جب بھی اپنا حق ِرائے دہی استعمال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، وہ بدعنوان سیاست دانوں کو ووٹ دے کر پارلیمنٹ میں لے آتے ہیں۔
آئیے کچھ بنیادی سوالات پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں۔ کیا حکومتیں تبدیل کرنے کے لئے ہونے والے بدعنوانی کے مقدمات کے ذریعے مقتدر قوتوں کے مفاد کا تحفظ مقصود ہے ؟کیا پاکستان میں بنیادی تضاد ناقابل ِ احتساب قوتوں اور خوفزدہ معاشرے کے درمیان ہے یا عوام اور ان کے سیاسی رہنمائوں کی مالی بدعنوانی کے درمیان ؟جے آئی ٹی کے مطابق شریفوں نے 1980 اور 1990 کی دہائی میں دولت جمع کی اور منی لانڈرنگ کی ۔یہ وہ دور تھا جب اہم ادارے نے بدعنوانی کے ارتکاب کرنے والے نوازشریف کا احتساب کرنے کی بجائے پنجاب کا وزیر ِاعلیٰ بنا دیا۔جب نوازشر یف نے ان قوتوں کو آنکھیں دکھانے کی کوشش تو اُنہیں جلا وطن کردیا گیا ۔
اب ایک مرتبہ پھر بدعنوانی کے الزامات کی پاداش میںاُن کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ وہ اہم قوتوں کے مفاد کے سامنے سرنگوں ہونے کے لئے تیار نہیں ۔ ہمیں یاد ہے کہ مس بھٹو کو بھی 1990 میں ، اور پھر 1996 میں بدعنوانی کا الزام لگا کر اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا، لیکن جب وہ مقتدر طاقتوں کی منشا پر چلنے کے لئے تیار ہوگئیں تو اُنہیں 2007 ء میں واپس بلالیا گیا ۔ تاہم جب اُنھوں نے کیے گئے ’’معاہدے ‘‘ کو توڑنے کی دھمکی دی تو اُن سے جان چھڑا لی گئی ۔
1980 کی دہائی میں محمد خان جونیجو کو اسٹیبلشمنٹ نے پہلے اقتدار پر فائزکیا لیکن پھر توہین آمیز طریقے سے چلتا کیاحالانکہ اُن پر بدعنوانی کا کوئی الزام نہ تھا ۔ مسٹر شریف سے پہلے آصف علی زرداری کی پی پی پی کی حکومت خوش قسمت تھی کہ اس نے صرف ایک وزیر ِاعظم کھویا لیکن اپنی مدت پوری کرلی ۔ اب پی پی پی ایک علاقائی جماعت بن چکی ہے اور اس کے اہم رہنما اپنی حفاظت کی غرض سے بیرونی ممالک میںرہنا پسند کرتے ہیں۔ اس دوران مسٹر شریف کے دائیں بائیںکے دستے خالی ہوچکے ہیں۔ دلیر رہنما، جیسا کہ مشاہد اﷲ، پرویز رشید ، نہال ہاشمی اور طارق فاطمی مقتدر قوتوں کے غضب کا نشانہ بن کر میدان سے جاچکے ہیں۔
یہاں ہمیں ایک بات میں واضح ہونا چاہیے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نوازشریف نے اپنے اعلانیہ وسائل سے بڑھ کر دولت جمع کی ۔ لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ اُن کے ٹرائل کی غرض وغایت صرف حکومت کی تبدیلی ہے اور اس کا مقصد ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہرگز نہیں ۔اس سے پہلے یہ کوشش دودھرنوںکے ذریعے کی گئی تھی لیکن عوامی شعور نے اُس کوشش کو ناکام بنادیا۔ اس مقصد کی بجاآوری کے لئے کسی نئے راستے کا انتخاب ضروری ہوچکا تھا ،اور یہ راستہ پاناما گیٹ کی صورت میسر آگیا ۔
یہاں مسٹر شریف کے سامنے آپشنز محدود ہیں۔ وہ مزاحمت کا راستہ اپناسکتے ہیں لیکن پھر اُنہیں توہین آمیز طریقے سے ہٹا دیا جائے گا۔یا پھر وہ ’’اخلاقی بنیادوں ‘‘پر مستعفی ہوسکتے ہیں تاکہ وقت آنے پر وہ ایک بار پھر میدان میں اتر سکیں۔ دونوں صورتوں میں وہ خود کو مظلوم ثابت کرسکتے ہیں۔ یہاں الجھاہواسوال یہ ہوگا کہ اُن کی روانگی پر اُن کے ووٹر اور پارٹی کارکن کیسا رد عمل دکھائیں گے ؟1993 اور پھر 1999 میں اُنھوںنے مقتدر قوتوں کے سامنے سرجھکانے سے انکار کرکے عوامی مقبولیت حاصل کی تھی ۔ آج وہی طاقتیںاُنہیں ہمیشہ کے لئے راستے سے ہٹاکر سسٹم کو بچانے کے لئے کمر بستہ ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ آج اُن قوتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، اور وہ بہت منظم ہیں۔