21نومبر 2009ء کے جنگ میں احسن اقبال صاحب رہنما مسلم لیگ نوازکا مضمون ”حقیقی سازشی“ نظر سے گزرا جس پر آپ نے رائے طلب فرمائی ہے لہٰذا کچھ گزارشات عرض ہیں یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی سازشی ہے کون اور کیوں؟ یہ کیوں پیدا ہوئے، کیا یہ سازشی خود ہمارے اپنے ہیں اور کیا یہ دانستہ ہیں یا نادانستہ یہ کام کررہے ہیں۔ پھر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے رہنما تو نہیں یا عام انسان ہیں یا کچھ بیرونی ممالک، خاص، بلکہ مذموم مقاصد کے ساتھ۔ ایسے ممالک کا پروپیگنڈہ ایک سازش ہی تو ہے کیونکہ پروپیگنڈہ کے دو عناصر ہیں ایک جھوٹ اور دوسرا تسلسل کے ساتھ یہاں تک کہ وہ جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے۔
یہاں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ حکومت کی بنیادی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ حکومت کی پہلی ذمہ داری انصاف کی فراہمی ہے اگر ملک میں انصاف نہ ہوگا تو عوام فرسٹریشن میں مبتلا ہوں گے اس طرح ملکی نظام اور اسٹرکچر کی بنیادیں ہل کر رہ جائیں گی۔ جب انصاف نہیں ہوگا تو امن قائم رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا لہٰذا حقدار کو اس کے حق کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے دراصل حقوق و فرائض کا چولی دامن کا ساتھ ہے جہاں ایک شخص کے حقوق شروع ہوتے ہیں وہیں دوسرے شخص کے فرائض واضح ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ افراد اداروں اور ملک کے نظام کی بنیاد بنتا ہے۔
انصاف کی فراہمی کے بعد حکومت کی دوسری بڑی ذمہ داری معیشت کا درست نظام قائم کرنا ہے اس کے لئے مثبت سوچ کا ہونا ضروری ہے چنانچہ اجتماعی سوچ اور قومی جذبہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اگر معاشی نظام درست نہ ہوسکے تو افراتفری اور طبقاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے اس لئے ذاتی مفادات کی قربانی کا حوصلہ اور اجتماعی مفادات کو پیش نظر رکھنا ہوگا دراصل انسانیت کا بنیادی مقصد ہی معاشرہ کی بہتری ہے جو ہر شخص کی بنیادی ذمہ داری بھی ہے اسی مقصد حیات کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ ”درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو“ لہٰذا ”زندگی“ کوئی یادگار کام کرنے کے لئے ہے جو دوسروں کی بھلائی کا باعث بنے۔ محض بچپن جوانی اور بڑھاپے کی منزلیں طے کرنا نہیں۔
اب یہاں ایک اورسوال پیدا ہوتا ہے کہ سازشیں کیسے ختم ہوں اس کے لئے ہر سطح پر ہر شخص کی تربیت کی ضرورت ہے تربیت ایک ایسا انتظامی مسئلہ ہے جو تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت ضروری ہے کیونکہ ”علم کے بعد عقل خزانہ ہے“ چنانچہ حالات کے تحت اپنے آپ کو ڈھالنا ہوگا۔
ہمارا ملک ایک خودمختار اسٹیٹ ہے اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک خودمختار اسٹیٹ کا تصور یہ ہے کہ اس کے معاملات میں کوئی دخل اندازی نہ کرے، جارحیت سے باز رہے اور کوئی بیرونی طاقت اس پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش نہ کرے۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم جن حالات سے گزر رہے ہیں وہ کیونکر پیدا ہوئے کون سے عوامل نے آج ہمیں اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے؟ مختصراً اس کی وجہ ” اداروں کا نہ پنپنا“ زیادہ عرصہ فوجی حکومتوں کا قائم رہنا اور سیاست دانوں کا آمریت سے مقابلہ نہ کرنا ہے لہٰذا آج ہمیں ”گزشتہ را صلوات آئندہ را احتیاط“ کے اصول پر عمل کرنا ہوگا اور صحیح راہ متعین کرنا ہوگی، بنیاد ”نیک نیتی“ کو بنانا ہوگا، بروقت اور صحیح فیصلے کرنا ہوں گے مصلحت پسندانہ فیصلوں سے اجتناب کرنا ہوگا معذرت خواہانہ رویوں کو چھوڑنا ہوگا حکومت بچانے کے لئے ملکی مفادات کو داؤ پر لگانے سے پرہیز کرنا ہوگا اجتماعی اور ملکی مفادات کے حق میں سینہ سپر ہونا ہوگا بڑی طاقتوں سے ڈکٹیشن لینا بند کرنا ہوگا میرٹ کے نظام کو آگے بڑھانا ہوگا پارٹی پالیٹکس کے تحت میرٹ کو تباہ کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا ملکی وسائل کو بھرپور طریقے سے بروئے کار لانا ہوگا کرپشن کا خاتمہ کرنا پڑے گا تعلیمی نظام کو ایسا بنانا ہوگا کہ اسکول کالج پیداواری ادارے بن جائیں عملی مضامین پڑھانے پر توجہ بڑھانا ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کو بدلنا ہوگا داخلی معاملات میں بذریعہ انصاف عوام کو مطمئن کرنا ہوگا اور خارجہ تعلقات میں دوست، دشمن کی پہچان کرنا ہوگی جب ہی پاکستان ایک باوقار قوم کے طور پر ابھر کر سامنے آسکے گا اور ہم اپنی منزل پر گامزن ہوسکیں گے۔