• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری: فریقین کےاپنے اپنےموقف کی حمایت میں اٹل دلائل

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) ملک میں جاری سیاسی آویزش کے تناظر میں فریقین اپنےاپنےموقف کی حمایت میں ایک سے بڑھ کر ایک دلیل اور تاویل دے رہے ہیں سیاسی قیادتوں نے اپنے ہمنوائوں میں اپنے اپنےنظریات کو اس قدرراسخ کردیا ہے کہ وہ اپنے سوا کسی بھی دوسرے کےنقطہ نگاہ کو جھوٹ اور مکروفریب تصور کرتےہیں ۔عدالت عظمیٰ پیر کو پانامہ دستاویزات کے معاملے کی حتمی سماعت شروع ہورہی ہے جس کے حوالے سے فریقین کے دعوے کافی دلچسپ ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے کارکنوں کو  تیاررہنے کے لئے ہدایات جاری کردی ہیں اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے تحفظ کی خاطر سربکف رہیں  دوسری جانب حکومتی اکابرین نے محتاط لب ولہجہ اختیار کررکھا ہے تاہم مسلم لیگی کارکن بھی پیش آمدہ کسی بھی صورتحال سےعہدہ برآ ہونے کے لئے کمربستہ ہوچکے ہیں اس طرح ابھرنے والا منظر کافی تشویشناک ہے۔ایسے میں سازش کی کارفرمائی کے لئے بہترین مواقع موجود رہتے ہیں سازش کیا ہے؟ اس بارے میں ہر ایک کوتجسس ہے کہ پتہ چلے سازش کس بلا کا نام ہے۔ زیر تذکرہ معاملے میں سازش کاسراغ محض اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نواز شریف حکومت سوا چار سال سے صریر آرائے اقتدار ہے اس دوران ملکی حالات میں ہر سو بہتری آئی ہے جس کااعتراف ہر شخص کرتاہے چین پاکستان اقتصادی راہداری کا منصوبہ جس سے پاکستان کی معیشت میں انقلاب آفریں بہتری آئے گی روبہ عمل ہے دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں اور عالمی نقشے پر پاکستان کا وقار بڑھ رہا ہے یہ تبدیلیاں پاکستان کے دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھارہیں بالخصوص اقتصادی راہداری کے منصوبے کی دشمن بعض بڑی طاقتیں ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ساز باز کر رکھی ہے بھارت نے اقتصادی راہداری کے منصوبے کو چیلنج کر رکھا ہے اس منصوبے کے دشمنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ پاکستان پر براہ راست حملہ کرکے اس منصوبے کو تہس نہس کرسکیں۔ ان حالات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یاد رکھیں کہ ان منصوبوں اور ترقی کے خالق وزیراعظم نواز شریف ہیں  انہوں نے اقتصادی راہداری کے منصوبے کا اعلان کیا تو ملک میں دھاندلی کے انتخابات کا غلغلہ برپا کردیاگیا اور حکومت کے ہاتھ پائوں باندھنے کی کوشش کی گئی۔

یہ عمل کم و بیش آٹھ نو مہینے جاری رہا اس دوران بھی افتراق و انتشار پیدا کرنے کے لئے کارروائیاں جاری رہیں حکومت کے  سب سے بڑےحریف جو اپنی کوششوں میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے تھے اور اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ نواز شریف کو 2018ء تک برداشت کرنا پڑے گا وہ اپنی پارٹی کے انتخابات کرارہے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات میں ٹھیک ٹھاک تیاری کے ساتھ اتر سکیں۔اچانک سات سمندر پار سے دستاویز کی نقول جاری ہوئیں ۔ پاکستان میں نواز شریف کے مخالفین نے اپنے تمام کام چھوڑ چھاڑ کر پانامہ سے آئی ان دستاویزات کوعلم بنا کر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی ٹھان لی  اس دوران ان دستاویزات کے خلاف عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی جسے فاضل عدالت نے فضول قرار دیکررد کردیاپھر اس درخواست پر اچانک حشر اٹھادیا گیا۔

ملک میں ترقی اور آگے بڑھنے کی ہر کارروائی منجمد ہوکر رہ گئی اور عدالتی کارروائی کے ذریعے تعمیر و ترقی کے نقیب حکمرانوں کو اپنی بقا کی آزمائش میں مبتلا کردیا ۔سازش کوئی مجسم عمل نہیں ہوتا جسے دیکھ کر اور چھو کر پہچانا جاسکے۔ بسا اوقات سازش میں شریک اورکردار ادا کرنے والوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ سازش کا حصہ ہیں۔ سازش کاثبوت دستاویز سے نہیں و اقعاتی شہادتوں سے ملتاہے اور اس پر یقین اس وقت آتا ہے جب یہ کارگرہو کر اپنے نتائج حاصل کرلیتی ہے اور پھر متاثر ین کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے جنہیں سادگی میں استعمال کرلیا جاتاہے عدالت عظمیٰ پیر کو پانامہ دستاویزات کے معاملے کی حتمی سماعت شروع ہورہی ہے جس کے حوالے سے فریقین کے دعوے کافی دلچسپ ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ نے اپنے کارکنوں کو جشن کے نام پر تیاررہنے کے لئے ہدایات جاری کردی ہیں اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے تحفظ کی خاطر سربکف رہیں  دوسری جانب حکومتی اکابرین نے محتاط لب ولہجہ اختیار کررکھا ہے تاہم مسلم لیگی کارکن بھی پیش آمدہ کسی بھی صورتحال سےعہدہ برآ ہونے کے لئے کمربستہ ہوچکے ہیں اس طرح ابھرنے والا منظر کافی تشویشناک ہےملکی استحکام کو بلاشبہ خدشات لاحق ہورہےہیں تعمیر و ترقی کی سرگرمیاں منجمد ہوچکی ہیں پاکستان کے د شمن بغلیں بجارہے ہیں کہ ان کے مقاصد کی آبیاری بطریق احسن ہورہی ہے ۔ ایک مرتبہ اور ایک ایسا بڑا واقعہ رونما ہوگیا تو پھر اس کے ملک گیر پیمانے پر پھیلائو کو روکنا ممکن نہیں رہے گا اور وہ خانہ جنگی جس کا شکار ہو کردنیا بھر کے مسلمان ممالک تباہی و بربادی کی تصویر بن رہے ہیں خدانخواستہ پاکستان میں راہ نہ حاصل کرلے۔

پاکستان کے ارباب حل و عقد کو نہیں فراموش کرنا چاہئے کہ پاکستان کے مفاد میں اقدام کرنے میں ہی ان کا اور ان کی آئندہ نسلوں کا بھلا ہے ۔

تازہ ترین