برطانوی وزیراعظم گوڈرن براؤن نے لندن کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”افغانستان سے 2010ء سے اتحادی افواج کی واپسی کا ٹائم فریم تیار کرنے کیلئے کانفرنس بلائی جانی چاہئے۔ لندن اگلے سال افغانستان سے اتحادی افواج کی واپسی کیلئے جنوری میں عالمی کانفرنس کی میزبانی کرنے کیلئے تیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اتحادی افواج کو 2010ء سے واپسی کا آغاز کر دینا چاہئے“۔
وزیراعظم براؤن نے افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کا جو مطالبہ یا ارادہ ظاہر کیا ہے وہ خوش آئند اور درست سمت میں پہلا قدم ہے تاہم اس بات پر افسوس رہے گا کہ افغانستان پر اکتوبر 2001ء میں اتحادی افواج کے حملے کیلئے سب سے زیادہ سرگرم کردار سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے ادا کیا تھا۔ صدر بش کے جارحانہ مزاج اور ناانصافی پر مبنی ظالمانہ اقدامات کو سابق برطانوی وزیراعظم نے ہی شہ اور حوصلہ دیا تھا حالانکہ برطانیہ افغانوں کی تاریخ مزاحمت اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے بخوبی واقف تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ٹونی بلیئر برطانیہ کے سابقہ تجربے کی روشنی میں صدر بش کو افغانستان پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے اور 9/11 کے واقعے کی شفاف تحقیقات کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچنے کا مشورہ دیتے مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا بلکہ افغانستان پر حملہ کرنے کیلئے اسلام آباد سمیت کئی ممالک کے دارالحکومتوں کے دورے کر کے حملے کیلئے راہ ہموار کی گئی۔ ٹونی بلیئر اقتدار سے رخصت ضرور ہو گئے تاہم وہ برطانیہ کی تاریخ کو ایک مرتبہ پھر داغدار کر گئے۔ تاریخ کا یہ داغ دھونے کیلئے برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم گوڈرن براؤن کو انصاف پر مبنی جرأت مندانہ کردار ادا کرنا ہو گا … گوکہ وزیراعظم براؤن پر ایسا کوئی الزام نہیں جیسا کہ ٹونی بلیئر پر ہے تاہم افغانستان کے مسئلے کے حل کیلئے اب تک وزیراعظم براؤن بھی ایسا کچھ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ جس کے بعد وزیراعظم براؤن اور برطانیہ کے عوام کا شکر یہ ادا کیا جا سکے۔ افغانستان پر جارحیت اور غیرقانونی قبضے پر تاحال برطانیہ کا کردار بھی امریکہ سے مختلف نہیں رہا تاہم وزیراعظم براؤن کا مذکورہ بیان امید افزا اور عالمی امن کے لئے نیک شگون ہو سکتا ہے۔ مزید برآں انخلا کی مجوزہ تجویز یا ارادہ فی الحال ابتدائی مرحلے سے بھی ایک مرحلہ پیچھے ہے کیونکہ جب تک امریکہ انخلاء کیلئے تیار نہیں ہو گا برطانیہ کیلئے بھی ممکن نہیں کہ وہ افغانستان سے انخلاء کیلئے تنہا کوئی بڑا قدم اٹھا سکے تاہم وزیراعظم براؤن کے مذکورہ بیان کے بعد یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اتحادی افواج اور نیٹو ممالک افغانستان سے انخلاء کیلئے سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔
انخلاء کی تجویز اندرون خانہ کافی عرصے سے کابل، ریاض، لندن اور واشنگٹن سمیت کئی دیگر دارالحکومتوں میں گردش کر رہی ہے فرانس کے صدر نکولس سرکوزی کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران شاہ عبداللہ کے ساتھ تفصیلی مذاکرات اور امریکی صدر بارک اوباما کے دورہٴ چین کے دوران چینی قیادت کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں یقیناً افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کی صورت میں بعد کی صورتحال کیا ہو گی اس پر تبادلہ خیال ہوا ہو گا۔ افغانستان کے اندر سے بھی بعض جہادی رہنماؤں کے ایسے بیانات سامنے آئے ہیں کہ جن میں اتحادی افواج کو افغانستان سے نکلنے کیلئے محفوظ راستہ دینے کی بات کی گئی ہے جن میں سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار کا بیان بڑا واضح اور دوٹوک ہے کہ ہم اتحادی افواج کو نکلنے کا محفوظ راستہ دینے کیلئے تیار نہیں“۔ تاہم ہمارا خیال ہے کہ صدر اوباما اور وزیراعظم براؤن ایک بار پھر ایسی غلطی کرنے والے ہیں جیسی کہ بش اور ٹونی بلیئر نے کی تھی گو کہ یہ ”انخلاء“ کی طرف جا رہے تھے مگر ان کے انخلاء میں بھی ایسی ”شرارت“ کے موجود ہونے کا خدشہ ہے کہ جو 2001ء میں ہونے والے حملے کے بھیانک نتائج اور منفی اثرات کو ختم کرنے کے بجائے کسی دوسری شکل میں برقرار رکھے گی۔ ”عالمی کانفرنس“ کے ذریعے اتحادی افواج کے انخلاء کا ٹائم فریم حاصل کرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ انخلاء مکمل نہیں جزوی ہو گا۔ افغانستان مکمل آزاد نہیں بلکہ کڑی شرائط کے ساتھ مقبوضہ رہے گا۔ عالمی طاقتیں جن میں چین اور روس بھی شامل تھیں انہیں بھی انخلاء کے بعد والے کردار میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ اس کردار کے خدوخال امریکی ایجنڈے کا حصہ ہوں گے اس طرح کہ ممکنہ اقدامات سے انخلاء کا وعدہ یا ارادہ پورا نہیں ہو پائے گا۔ افغانستان نئے طرح کے تصادم سے دوچار ہوجائے گا جبکہ پورا خطہ بدستور غیرمستحکم اور غیرمحفوظ رہے گا کیونکہ افغان کسی بھی صورت میں غیرملکی مداخلت کو برداشت نہیں کریں گے وہ اس وقت تک مزاحمت کرتے رہیں گے جب تک کوئی ایک بھی غیرملکی فوجی یا کسی حملہ آور ملک کا کوئی ایک بھی مشیر اور سفارت کار موجود ہو گا۔ افغان حامد کرزئی جیسا کوئی دوسرا کٹھ پتلی حکمران برداشت نہیں کریں گے۔
کرزئی کا انتخاب مغربی حکومتوں کے نزدیک تو یقیناً انتخاب ہے مگر افغان عوام اور جہادی رہنما کرزئی کو منتخب صدر نہیں امریکہ کا مسلط کردہ ایجنٹ سمجھتے ہیں افغان عوام کی منتخب حکومت تو وہی تھی جس کے سربراہ ملا عمر تھے اور جسے کارپٹ بمباری کے ذریعے کابل اور قندہار سے نکالا گیا۔
بہرحال وزیراعظم براؤن کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ افغانستان سے مکمل انخلاء ہونا چاہئے، کسی خلاء یا شرارت کو درمیان میں نہیں چھوڑنا چاہئے۔ نیک نیتی کے ساتھ کیا جانے والا انخلاء ہی عالمی امن کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ انخلاء کا ایک مطلب یہ بھی ہونا چاہئے کہ مغربی ممالک کو افغانستان کے ساتھ ازسرنو اپنے تعلقات قائم کرنے کیلئے بہتر ماحول میسر آسکے۔ مغرب کو افغانوں کے ساتھ بہتر تعلقات اور اعتماد کی بحالی کا سنگ بنیاد انخلاء کے وقت ہی رکھنا ہو گا۔ انخلاء کا فیصلہ کسی عالمی کانفرنس میں ہونے کے بجائے علاقائی کانفرنس میں ہونا چاہئے۔ انخلاء کی کانفرنس کی میزبانی کسی ایسے ملک کو نہیں کرنی چاہئے جو حملہ آوروں میں شامل ہو، کانفرنس کی میزبانی کیلئے لندن کے بجائے بیجنگ اور ریاض میں کسی ایک کو ذمہ داری دی جائے تو زیادہ بہتر ہو گا تاہم اس طرح کی کانفرنس کی کامیابی کیلئے لازمی ہے کہ طالبان اور حزب اسلامی کے نمائندوں کو بھی کانفرنس میں مدعو کیا جائے اب کی بار ”جنیوا معاہدے“ جیسا معاہدہ ہونا ممکن نہیں کیونکہ اس مرتبہ افغان اپنی نمائندگی کرنے کا اختیار شاید کسی دوسرے ملک کو نہ دیں وہ چاہیں گے کہ وہ انخلاء کے معاہدے کے براہ راست شریک ہوں۔ انخلاء غیرمشروط ہونا چاہئے۔ شرائط منوانے کا وقت گزر چکا ہے۔ 2001ء سے 2009ء تک افغانوں کا جو خون بہا اور جس طرح کی تباہی اس انتہائی غریب ملک پر امیر ملک لائے اس کے بعد افغان روایت کے مطابق قاتلوں کو کسی قسم کی رعایت دینے یا شرائط منوانے کا ہرگز موقع نہیں دیا جائے گا۔ افغان اپنے قبائلی نظام، معاشرتی رسم ورواج اور اسلامی نظریاتی تعارف کے حوالے سے مکمل طور پر آزاد خودمختار رہنا چاہیں گے وہ کوئی ایسی یقین دہانی نہیں کرائیں گے کہ جس کا تعلق افغانوں کی غیرت وحمیت سمیت ان کی تاریخی روایات کے برعکس ہو۔ وہ کسی ایسے مطالبے پر غور کرنا بھی پسند نہیں کریں گے کہ جس میں ان کے کسی مہمان کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کرنا شامل ہو، افغانستان میں کوئی جنرل مشرف نہیں کہ جو اپنے ہم وطنوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کو فروخت کرتا رہے۔ اتحادی افواج کا افغانستان میں جن سے مقابلہ ہے وہ غریب ضرور ہیں مگر بے ضمیر نہیں وہ زندگی اور موت کے درمیان بہت کم فاصلہ رکھتے ہیں اس لئے انہیں جھکانا، خریدنا اور خوفزدہ کرنا ممکن نہیں جبکہ مسلسل 30 برس سے حالات جنگ میں رہنے کے بعد اب تو وہ عالمی سیاست اور عالمی سازشوں کو بھی خوب سمجھنے لگے ہیں … لہٰذا وزیراعظم براؤن سے ہمارا کہنا یہ ہے کہ وہ اتحادی دوستوں اور صدر اوباما کو ابھی سے یہ بات سمجھا دیں کہ جہاں افغانستان سے انخلاء کا ٹائم فریم جلد ازجلد طے کیا جانا ضروری ہے وہیں پر اس طرف بھی توجہ رکھی جائے کہ افغانستان کو انخلاء کے بعد کسی دوسرے ذریعے یا ہتھکنڈے سے اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس طرح سے مزید وقت ضائع ہو گا۔ نیٹو افواج اور مغربی ممالک کی شکل میں اضافہ ہو گا جبکہ عالمی امن بھی جوں کا توں متاثر رہے گا۔
اگر وزیراعظم براؤن افغانستان سے اتحادی افواج کے مکمل انخلاء کا ٹائم فریم طے کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کریڈٹ نہ صرف وزیراعظم براؤن کو ہو گا بلکہ برطانیہ کے تمام شہریوں اور ملکہ عالیہ کیلئے بھی عالمی اعتماد اور احترام میں اضافہ ہو گا۔ ہماری نیک تمنائیں وزیراعظم براؤن کے ساتھ ہیں۔