چیئرمین سینیٹ رضا ربانی بھلے آدمی ہیں، خوش وضع، خوش لباس، خوش ذوق، خوش مزاج، موزوں کردار، اچھے اخلاق، خرابی ہے تو بس ایک کہ عمر عزیز پیپلز پارٹی میں گنوا دی فاروق لغاری کی طرح، شاید اچھا ہی کیا کہ بقول غالب
وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے
مرے بت خانے میں تو گاڑو کعبہ میں برہمن کو
آصف زرداری نے ٹھیک ہی کہا، ایک دن مجھے کہنے لگے، پیپلز پارٹی میں آجائو، کہا مشکل ہے، کیوں؟ آپ کے ہاں عزت نفس دائو پہ لگتی ہے، کہنے لگے بالکل نہیں بلکہ ہماری جماعت میں شریف اور باوقار لوگوں کی کمی ہے اگر کوئی تھوڑا سا معزز دکھتا ہو تو ہم اسے صدر بنادیتے ہیں، دیکھو ہم نے فاروق لغاری کو بنا دیا حالانکہ وہ اتنا شریف نہیں جتنا نظر آتا ہے آپ کی رپورٹ ہمارے پاس ہے، واقعی شریف ہو حالانکہ تقریر میں لہجہ بہت کڑوا ہے جو چاہو ملے گا۔ سوچتا ہوں زرداری صاحب نے سچ کہا ایک معزز تھا تو صدر بنا دوسرا نظر آیا تو چیئرمین سینٹ، ویسے سینٹ ایک لحاظ سے بڑا خوش قسمت ادارہ ہے شروع دن سے اسے اچھے سربراہ میسر آئے، نیئر بخاری اور احمد میاں سومرو کے مختصر وقفے کے علاوہ پہلے جنرل حبیب اللہ کو بھٹو نے چیئرمین بنایا پھر غلام اسحاق چیئرمین ہوئے، وسیم سجاد اور اب رضا ربانی، سب باوقار، ذہین، محنتی اور دیانتدار تھے۔
پاکستان ایسے ملک میں ادارے کو اچھا سربراہ مل جائے غنیمت ہے اور یہ غنیمت سینیٹ نے کئی بار سمیٹی۔ قومی اسمبلی کو فخر امام کے بعد کوئی قابل فخر میسر نہ آیا مگر سینیٹ خوش قسمت رہا، اب بھی اسلام آباد جانا ہو تو گاہے چیئرمین سے ملاقات رہتی ہے۔ 11جولائی کو اسلام آباد میں چیئرمین سے ملاقات ہوئی تو ایک دن پہلے ہی سپریم کورٹ کی بنائی جے آئی ٹی اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کر چکی تھی۔ رضا ربانی کے دفتر میں پیپلز پارٹی کے لیڈر چوہدری منظور بھی موجود تھے۔ چند سینیٹر جن میں ایک خاتون بھی شامل تھیں جو خیبر پختونخوا سے تعلق رکھتی ہیں، کچھ دیر میں حاصل بزنجو بھی چلے آئے ان کی گفتگو منظر عام پر لانا اس لئے مناسب نہیں کہ وہ وفاقی وزیر بھی ہیں۔ پریس کانفرنس اور دوستوں کی محفل میں کی گئی بات چیت بہت مختلف ہوتی ہے البتہ رحمان ملک کو ایک جملے میں بیان کر دیا۔ بولے ملک سے ملاقات ہوئی تو فوراً صفائی دینے لگے وہ سمجھتے تھے کہ میں وفاقی وزیر ہوں ضرور میاں نواز شریف کی طرح مجھے بھی حکومت بچانے کی فکر ہو گی شاید اسی لئے کہنے لگے ’’میں نے جے آئی ٹی کو کچھ پلے نہیں پڑنے دیا‘‘۔ پیپلز پارٹی کے ایک سینیٹر نے کہا یہ بندہ بھی باکمال ہے پارٹی میٹنگ میں کہہ رہا تھا میں نے جے آئی ٹی کو سب دیدیا وہ بھی جو جے آئی ٹی کو کہیں اور سے مل ہی نہیں سکتا تھا۔ رحمٰن، بھی ملک پر رحم کرے۔
چیئرمین بولے چوہدری صاحب اب کیا ہوگا؟، کہا آپ ہی کہیے، ہم تو گائوں سے آئے اسلام آباد سے کچھ جاننے کیلئے، پھر بھی ہوگا کیا؟،کہا وہی جو سپریم کورٹ چاہے گی، بولے سپریم کورٹ کا فیصلہ وزیر اعظم نے ماننے سے انکار کر دیا تو؟، جناب عالی، آپ چیئرمین سینیٹ ہیں مشہور وکیل بھی اور اسلام آباد جیسے باخبر شہر کے رہائشی، آپ نے یہ کیا بات کہہ دی؟، کیا وزیر اعظم بابر بادشاہ ہیں؟، جنہوں نے پاکستان کو بزور فتح کیا اور اپنی ذاتی فوج کی طاقت سے بادشاہت جیت لی۔ جمہوریت میں وزیر اعظم کی جان قانون کی ایک سطر میں ہے۔ اس پر عدلیہ نے خط تنسیخ کھینچ دیا تو ملٹری سیکرٹری اپنی ٹوپی اور چھڑی اٹھا کر جی ایچ کیو چلے جائیں گے اور دربان وزیر اعظم کیلئے دروازہ تک کھولنے تک کا روادار نہ ہو گا کہ وہ سرکاری ملازم ہے وزیر اعظم کا ذاتی نوکر نہیں، اگر فیصلہ حکومت کے خلاف ہوا تو عملدرآمد کیلئے کسی سے کہنے کی ضرورت نہیں، آئی جی اسلام آباد کافی ہے وہ حکم ملتے ہی تھانہ سیکرٹریٹ فون کرے گا اور حکم پر عملدرآمد ہو جائے گا۔ اس میں گھبرانے کا کوئی موقع ہے نہ پریشانی کی بات، اس جواب پر وفاقی وزیر کی گردن بھی اوپر سے نیچے کی طرف ہلتی رہی۔
جمہوریت کی بساط لپیٹی جائے گی نہ سیاست خطرے میں نظر آتی ہے سب سے پہلے ہمیں دیکھنا ہے کہ وزیر اعظم کی ترجیحات کیا ہیں اور صلاحیت کتنی بچ رہی، مسلم لیگ ن کی بات نہیں کررہا ہوں کہ پاکستان میں پارٹیوں کی طاقت ٹریڈ یونین سے بھی کم ہے۔ یہ پرائیویٹ لمٹیڈ کمپنیاں ہیں جنہیں ایک گھرانہ چلاتا ہے اور اسی گھرانے کے فیصلے لاگو ہوتے ہیں۔ میاں صاحب کی اولین ترجیح ہو گی کہ ان کی وزارت عظمیٰ بچ رہے۔ دوسری ترجیح مارشل لا، تیسری خاندان میں کسی کی حکومت اور آخری ترجیح پارلیمنٹ کے اندر سے تبدیلی، حاجی اسلم نے کہا مجھے آپ کی ترجیحی فہرست سے اتفاق نہیں، وزیر اعظم اپنے خاندان کی بجائے مارشل لا کو ترجیح کیوں دینے لگے؟، جناب عالی مارشل لا صرف موجود حکمرانوں کی نہیں پیپلز پارٹی کی بھی ترجیح ہے۔ ان کی سیاست صرف مارشل لا کے قالین کے نیچے محفوظ رہ سکتی ہے چند برسوں میں مظلوم بن جائیں گے اور انہیں جرنیلوں سے ڈیل کا فن بھی ازبر ہے۔ دولت بچ رہے گی، مقدمات سے گلو خلاصی ہو گی، امریکہ یورپ سے ڈیل کا موقع ملے گا، جہاں تک اپنے سوا خاندان کے فرد کو حکومت سونپنے کی بات ہے تو اس کو جاننے کیلئے دور جانے کی ضرورت نہیں، بے نظیر بھٹو نے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنی والدہ کو پارٹی کی صدارت سے فارغ کر دیا تھا۔ مبادا کبھی اماں جان مقابل نہ آجائیں تو کیا باقی لوگوں کو یہ سبق یاد نہیں ہے؟ مارشل لا موجودہ اور سابق حکمرانوں کی ترجیح ضرور ہے لیکن مارشل لا کے امکانات فی الوقت نہ ہونے کے برابر ہیں، کیوں؟ اس لئے کہ مارشل لا لگوانے والوں کی مرضی تو ضرور ہے لیکن مارشل لا لگانے والوں کی خواہش اور اہلیت کو بھی دیکھنا ہو گا۔ ملک کے اندر مارشل لا کیلئے جو حالات چاہئیں وہ پیدا نہیں، دوسرا شہری نظام سنبھالنے کیلئے اضافی فوجی دستے دستیاب نہیں، مشرق، مغرب دونوں سرحدوں پر فوج مصروف ہے ان حالات میں وہ نئی ذمہ داریوں کیلئے تیار نہیں ہوں گے، تیسرے فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کا اس طرف رجحان بھی نہیں ہے۔ دونوں سیاسی جماعتیں مارشل لا کی خواہش کے باوجود ان کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ عوام میں سب سے مقبول اور لوگوں کو سڑکوں پر لے آنے والی تحریک انصاف اس پر کبھی آمادہ نہیں ہو گی۔ سب سے اہم اور بڑی رکاوٹ فوج کا اپنا رجحان ہے اور دوسری طاقت اور مضبوط دیوار 2007ء کے بعد کی عدلیہ، ہمیں عدلیہ کے کردار کو یاد رکھنا چاہئے۔
سیاست اور جمہوریت کے مستقبل کو عدلیہ نے محفوظ بنا دیا، عدلیہ درمیان میں نہ آتی تو حکومت اور تحریک انصاف میں تصادم ناگزیر تھا۔ ایک طرف ریاست کی طاقت دوسری طرف نوجوانوں کا گرم خون، ان کا مطالبہ بھی جائز تھا، پہلے دھاندلی کی شکایات کو دور کرنا، اب تلاشی کا مطالبہ، آخر کوئی اپنے جائز مطالبات سے کب تک دستبردار رہے۔ عدلیہ نے اچھا کیا اور اس کردار کو ادا کرنے کا فیصلہ کیا جو ان کا اصل کام ہے۔ مضبوط عدلیہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل اور معاشرے کے استحکام کیلئے ناگزیر ہے۔ عدالت ہماری منصف ہے اور ثالث بھی، جرأت مند اور آئین کی پابند عدلیہ ہمیں قومی المیوں اور مصائب سے نجات دلا سکتی ہے۔