یہ سلسلہ بڑی دیر سے جاری تھا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لائلپور (فیصل آباد) کے بڑے مجھے دعوت دیتے اور میں بوجوہ اپنی ہی مادر علمی پر حاضری سے محروم رہ جاتا۔ اس بار دعوت ملی تو بچپن کا دوست محمود مرزا اور چھوٹا بھائی نوید نثار ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے ماس کمیونی کیشن کی چیئرپرسن سلمیٰ امبر سے سوچنے کے لئے کچھ وقت مانگا تو دونوں نے کہا ؟” حسن نثار! قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ ہم تینوں ہی لائلپور کی ”بوٹیاں“ ہیں اور محمود تو اس شہر کے بارے میں مجھ سے بھی زیادہ جذباتی ہے کیونکہ چھوٹی عمر میں ہی ناروے چلا گیا تھا اور اب بھی چھ مہینے وہاں اور چھ مہینے پاکستان میں ہوتا ہے۔
5جنوری کی صبح روانہ ہوئے کہ 2اور ڈھائی بجے کے درمیان جی سی یونیورسٹی فیصل آباد پہنچنا تھا اور وہاں پہنچنے سے پہلے ماضی کے کچھ مزاروں پر حاضری کے ساتھ ساتھ لنچ مرغ پلاؤ کی اس مشہور جگہ پر کرناتھا جو بچپن میں ہماری فیورٹ تھی۔ یہاں سابق گورنر پنجاب خالد مقبول کو خراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ اسی کالج کے اس سپوت نے اسے یونیورسٹی کا درجہ دلایا تھا۔
مودی کی محتاط ڈرائیونگ ، پرانے گیت سنتے ہوئے اپنے پرانے شہر کے رستے میں ہم نے ان سب کو بہت یاد کیا جو کبھی اس شہر کی رونق تھے۔ یاد رفتگاں کے دوران اس شہر کی پہچان نصرت فتح علی خان سرفہرست تھا جس کی نوید اور محمود کے ساتھ بھی بہت قربت تھی۔ پھر ہمارا بہت پیارا دوست افضل ایاز مرحوم جو بے حد غصیلا اور جنگجو تھا۔ تن تنہا پانچ دس کے ساتھ بھڑ جانا معمولی بات تھی۔ اس نے ایک انتہائی رشوت خور عہدے سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا لیکن چند سال بعد ہی متنفر ہو کر مستعفی ہوگیا اور زندگی بھر کسی حرام کے نزدیک سے نہیں گزرا۔ پھر نصرت کا ایک کزن صابری مرحوم جو آوارہ گائے کے ساتھ زور آزمائی کیا کرتا، میوزک سکول والے ماسٹر پیارے خان جن سے میں نے بینجو بجانے کی تربیت حاصل کی تھی۔
لیکچر اور سوال جواب سیشن اس حوالہ سے یادگار تھا کہ میں نے طلباء وطالبات کو انتہائی بالغ اور متوازن پایا۔ گھسی پٹی جھوٹی مصنوعی گفتگو میرے بس کی بات نہیں اور غیر روایتی، سچی کھری بات عام طور پر سننے والوں کو ہضم نہیں ہوتی لیکن جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے طلبہ کا رویہ اور ردعمل متاثر کن تھا۔ مجھے ان کے چہروں میں اپنے لڑکپن کی جھلک دکھائی دے رہی تھی وائس چانسلر ڈاکٹر شاہد محبوب کی قیادت میں سلمیٰ امبر، عباس رشید، فخر الاسلام پاشا، ثوبیہ شہزاد، نوشابہ عامر، ارم سلطانہ اور خفصہ محمود جیسے اساتذہ نصیب ہوں تو نتائج ایسے ہی خوشگوار ہوتے ہیں۔ سوال جواب سیشن کی تفصیلات تو ممکن نہیں لیکن ایک اہم بات جو میں نے ماس کمیونی کیشن کے طلبہ سے خصوصی طور پر شیئر کی کہ انہیں ہسٹری اور لٹریچر کے مضامین پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ بظاہر ان مضامن کا ماس کمیونی کیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن تاریخ پر گہری نظر اور ادب سے لگاؤ کے بغیر ماس کمیونی کیشن کا کوئی طالب علم کسی ممتاز مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالہ سے میں نے ”جیو“ والی ”امن کی آشا“ کی روشنی میں طلبہ کو اس طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ اس خطہ کو نئے سرے سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں نے یورپی ممالک کے خون آشام ماضی اور آج کے یورپی یونین کا حوالہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تو صدیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہ چکے ہیں، کروڑوں مسلمان آج بھی بھارت میں رہتے ہیں اور شدید ترین مقابلہ کی اس بے رحم دنیا میں اگر دونوں ممالک کی قیادتوں نے ہوش مندی کا ثبوت نہ دیا… ویلفیئر سٹیٹ کی بجائے سکیورٹی سٹیٹ ہی بنے رہے تو ہم جدید دنیا کے ٹائیلٹ سے زیادہ کچھ بھی نہ ہوں گے۔
اپنی مادر علمی سے رخصتی کے بعد گھر پہنچے۔ رات گئے تک جاوید بھائی سے گپ شپ کے بعد صبح ناشتہ کیا، چند گھنٹے پیدل گھنٹہ گھر کے اردگرد گھومے۔ مرحوم دوست صفدر سعید کے پرانے گھر کی سیڑھیوں کو سلام کیا، بنگالی رسگلے خریدے جو یہاں کی مشہور سوغات ہے، اجڑے ہوئے ریگل سینما کے سامنے سو سالہ پرانے کیمرہ سے بلیک اینڈ وائیٹ تصویریں بنوائیں کہ دوسری طرف دھند کے باعث موٹر وے بھی بند تھی۔
کلیرنس ملی تو 6جنوری کی دوپہر واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم تینوں اس پر متفق تھے کہ لائل پور لاوارث شہر ہے… اس کے آٹھوں بازاروں کا چپہ چپہ اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اس شہر کا پرسان حال کوئی نہیں۔ پورے کے پورے بازار تجاوزات کی زد میں تھے لیکن کیا کریں کہ یہاں تو پورا ملک ہی مدتوں سے تجاوزات کی لپیٹ میں ہے!