گزشتہ جون انگلینڈ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں بھارت کے ہاتھوں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شکست پر ایک ٹی وی پروگرام کے میزبان نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو ٹیم کی فوری واپسی کا مشورہ دیا تھا۔ایک مبصر جو پاکستان کے سابق کپتان رہ چکے ہیں، اس قدر نالاں تھے کہ انہوں نے پی سی بی کو ختم کرنے،اس کے ڈومیسٹک اور انٹرنیشنل ٹورنامنٹ منسوخ کرنے اور تمام مینجمنٹ،سلیکٹرز اور کوچز کو گھر بھیجنے کا مطالبہ کر دیا۔مگردو ماہ بعدقوم آج بھی پاکستان کے روایتی حریف اور فیورٹ ٹیم بھارت کو ہرا کر چیمپئنز ٹرافی میںشاندار فتح حاصل کرنے کا جشن منا رہی ہے۔کرکٹ کی بحالی کا یہ عمل کیسے ممکن ہوا اور اس کے راستے میں کیا رکاوٹیں حائل تھیں؟
پاکستان کرکٹ کی تاریخ میں 1992کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد واحد اہم ترین ڈویلپمنٹ پاکستان سپر لیگ ہے۔آٹھ سال تک تین چیئر مین پی سی بی اس کو منعقد کر وانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔آج یہ بھرپور کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔اس نے تین طریقوں سے پی سی بی کو فائدہ پہنچایا ہے۔پہلا یہ کہ اس سے نیا اور تازہ ٹیلنٹ دریافت ہوا جس نے حال ہی میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دوسرا یہ کہ اس سے ہمارے نوجوانوں کو دنیا کے بہترین انٹرنیشنل کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلنے اور دبائو برداشت کر نے کا تجربہ ہوا جس سے انہیں سیکھنے کا موقع ملا۔تیسرا یہ کہ پی ایس ایل سے ہونے والا منافع پی سی بی کی فنڈنگ کا آزاد ذریعہ بننے جارہا ہے جو کہ آئی سی سی کی فنڈنگ کا پچاس فیصد ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میںکر کٹ کی ترقی کے لئے زیادہ فنڈ مہیا ہو ں گے۔مگر پی ایس ایل کو دو خطرات کا سامنا ہے۔
پی ایس ایل کے مکمل طور پر متحرک اور خود مختار بننے کے لئے ضروری ہے کہ یہ پاکستان میں منعقد ہو۔متحدہ عرب عمارات ایک مہنگا وینیو ہے جہاںٹکٹوں کی فروخت بھی زیادہ نہیں اور نہ ہی مقامی اسپانسرز پائے جاتے ہیں۔لیکن ملک میں دہشت گردوں کے متواتر حملوں نے اسے مشکل بنا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ مارچ لاہور میںہونے والا فائنل ایک غیر معمولی کامیابی تھی۔ہمارے سامنے موجود ٹاسک مشکل ہے۔جب بھی لاہور یا کراچی میںکوئی بم دھماکہ ہو تا ہے،پی سی بی کی بین الاقوامی کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈز کو مائل کرنے کی تمام کوششیں،کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے،دھوئیں کے ایک بادل کی طرح اڑ جاتی ہیں۔کچھ لوگوں کے ذاتی مفادات بھی پی ایس ایل کے لئے خطرے کا باعث ہیں۔پی سی بی سے نکالے جانے والے سابق ملازمین بھی عدالت کے ذریعے پی سی بی پر دبائو ڈال کر اپنا مفادچاہتے ہیں۔ اس وقت ایسے ہی شکایت کنندگان کی وجہ سے پی ایس ایل کو نیب اور ایف آئی اے کی انکوائریز کا سامنا ہے، حالانکہ اس کے امور انتہائی شفاف اور دوٹوک تھے۔ نیز پی سی بی آڈٹ کا داخلی نظام رکھتا ہے۔
درحقیقت ایک قومی اثاثے کی حفا ظت کی بجائے پارلیمانی اسپورٹس کمیٹی سیاسی رقابت اور اختلافات کی وجہ سے پی سی بی کو غیر ضروری طور پر ہدف تنقید بناتی ہے۔ اب یہ کوشش کی جارہی ہے کہ پی سی بی میں اس کے آئین کے مطابق ہونے والی تقرریوں کو عدالتوں کے ذریعے سبوتاژ کردیا جائے۔ ایسے عناصر کی کوشش ہے کہ اس کے چیئرمین اور بورڈ آف گورنرز کے تین سال کے لئے ہونے والے انتخاب کو چیلنج کرتے ہوئے پی سی بی کے انتظامی ڈھانچے کو پٹری سے اتار دیا جائے۔ اگر وہ اپنی مذموم کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ہمیں پی سی بی کی پی ایس ایل کے ذریعے پاکستان میں انٹر نیشنل کرکٹ کی واپسی کی امید کو خیر باد کہہ دینا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ کو لالچ اور بدعنوانی سے خطرہ ہے۔ پی ایس ایل کے حوالے سے چند ایک کھلاڑیوں کی میچ فکسنگ کے حالیہ واقعات پی ایس ایل کا مستقبل تاریک کرسکتے ہیں اگر اس برائی کا ابھی سے قلع قمع نہ کیا گیا۔ اس کے باوجود میڈیا کا ایک دھڑا اور کچھ سابق کھلاڑیوں پر مشتمل اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردی استغاثہ کی بجائے بدعنوانی کا ارتکاب کرنے والی کالی بھیڑوں کی طر ف ہے۔کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر ایک عشرہ قبل اُس وقت کا پی سی بی جسٹس قیوم رپورٹ پر سختی سے عمل کرتا اور بدعنوانی میں ملوث کھلاڑیوں کو اٹھاکر باہر پھینک دیا جاتا تو پاکستان میں وہ خرابیاں نہ سراٹھاتیں جن کی وجہ سے بعد میں پاکستانی کرکٹ کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔ افسوس، اُن میں سے آج بھی کچھ کھلاڑی موجودہ پی سی بی پر تنقید کرتے ہیں توکہنا پڑتا ہے کہ ’’دامن کو ذرا دیکھ.....‘‘
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ پی ایس ایل کی کامیابی نے اسے بکیوں کا ممکنہ ہدف بنادیا ہے، چنانچہ ضروری ہے کہ پی سی بی بدعنوانی کو مطلق برداشت نہ کرنے کی بے لچک پالیسی اپنائے، اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کو فوری سزائیں ملیں۔ لیکن پی سی بی کی اس کوشش میں معاونت کرنے کی بجائے میڈیا کے کچھ دھڑے بدعنوانی کی روک تھام کرنے والے اسکواڈ کی راہ میں کانٹے بونے میں مصروف ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات نے بھی پی سی بی کو متاثر کیا ہے۔ بی سی سی آئی چھ دوطرفہ سیریز کے آٹھ سالہ معاہدے کی پاسداری کرنے سے انکار کررہا ہے۔ یہ سیریز پی سی بی کو پچاس بلین روپے حاصل کرنے میں مدد دیتیں۔ مودی سرکار پاکستان سے اپنے وطن میں یا دنیا میں کہیں بھی کھیلنے سے انکار کررہی ہے۔ اس طرح بی سی سی آئی نے کرکٹ کو سیاست کی نذ ر کردیا ہے۔ اس پالیسی کی وجہ سے کرکٹ کے شائقین دو طاقتور روایتی حریف ٹیموں کے درمیان سنسنی خیز مقابلے دیکھنے سے محروم ہیں۔ ایک طرف بھارت ہوم سیریز سے پیسے کما کر اپنے اسٹیڈیمز اور میدانوں کو آباد کررہا ہے، دوسری طرف پی سی بی کو حکومت کی طرف سے بھی فنڈز نہیں ملتے۔
اس وقت پی سی بی کو خوفناک چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان سے نمٹنے کے لئے سب سے ضروری ہے کہ اس کی مینجمنٹ میں استحکام ہو، تاکہ وہ پی ایس ایل کی طرح مزید ’’میڈ ان پاکستان برانڈز‘‘ متعارف کراسکے۔ کامیاب کوچنگ اور عمدہ ٹیم سلیکشن ضروری ہے تاکہ بدعنوانی کی ماری ہوئی پاکستانی ٹیم اس غبار سے نکل کر تازہ ہوا میں سانس لے سکے۔ اس کے ڈومیسٹک کرکٹ ڈھانچے کو بھی اصلاح کی ضرورت ہے۔ اگرہم بی سی سی آئی سے کہیں کہ کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھا جائے تو ہمیں یہی مطالبہ اپنے وطن میں سیاسی مفاد پرستوں سے بھی کرنا پڑے گا۔