• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محسنانِ پاکستان,,,,سحر ہونے تک …ڈاکٹر عبدالقدیر خان

کچھ عرصہ پیشتر میں نے اپنے ایک کالم میں شیر شاہ ، لیاری اور وہاں کے مکینوں کے بارے میں اپنے پچاس سال پیشتر کے تجربات، تاثرات بیان کئے تھے۔ میں نے وہاں مقیم مکرانیوں کی خوش مزاجی ، اعلیٰ خصلت، اخلاق، رحمدلی کے بارے میں کچھ تفصیلات بیان کی تھیں۔ آج ایک اور طبقہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس طبقہ کے لوگوں نے کمزور اور ناتواں ، نومولود پاکستان کو اپنے خون سے سینچا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اپنے محسنوں کو بھول جاتے ہیں اور ہماری قوم تو اس فن میں ماہر ہے۔
میرا مختصر قیام شیر شاہ ، لیاری اس وجہ سے تھا کہ وہاں ہمارے بھوپال کے قریبی جاننے والے ایس ڈی او جلال الدین رہتے تھے ، جب بڑے بھائی پاکستان آئے تو وہیں کرایہ پر مکان لے لیا ، شام کو سب بھوپالیوں کی محفل جمتی تھی اور بہت اچھا وقت گزرتا تھا۔ میری آمد کے چند ماہ بعد والدہ اور چھوٹی بہن آنے والی تھیں اور خواتین کے لئے یہ علاقہ مناسب نہ تھا اور دوم یہ کہ چونکہ بہن نے ابھی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنا تھی وہاں سے آنا جانا بہت مشکل تھا۔ ان وجوہات کی بنا پر بڑے بھائی نے فوراً جوبلی سینما کے پاس ، پولیس اسپتال کے سامنے ایک صاف ستھری بلڈنگ میں اچھا فلیٹ لے لیا اور ہم وہاں منتقل ہو گئے۔ میرے لئے وہاں سے ڈی جی سائنس کالج جانا بہت آسان تھا اور میں بآسانی پیدل چلا جایا کرتا تھا۔ بہن نے بہادر یار جنگ گرلز اسکول میں داخلہ لیا اور وہ ناظم آباد میں بڑی بہن کے پاس رہنے لگیں۔ اسی دوران میری دوستی میرے کلاس فیلو بدرالاسلام سے ہوئی اور آج تک قائم ہے۔ وہ چارٹرڈ میرین انجینئر بن گئے اور میں نیوکلیئر انجینئر بن گیا۔ کہوٹہ میں کام شروع ہوا تو میں نے ان کو کویت سے بلا لیا جہاں وہ اعلیٰ عہدے اور بڑی تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے کہوٹہ میں اعلیٰ خدمات سرانجام دیں اور اب وہ کراچی میں پرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ کالج کی تعلیم ختم کر کے میں اور بڑے بھائی بھی ناظم آباد منتقل ہو گئے اور جرمنی جانے تک میرا قیام وہیں رہا۔
میں اس کالم میں آپ کو جوبلی سینما اور رنچھوڑ لائن کے قیام کے دوران چند واقعات بتانا چاہتا ہوں اور وہاں جو میمن برادری تھی اس کی پاکستان کے لئے کی گئی خدمات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں مگر اس سے پیشتر چنددوسرے لوگوں پر مختصر تبصرہ کروں تو بہتر ہے۔
اب پاکستان کے قیام کو62سال ہو گئے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کی اکثریت قیام پاکستان اور ان لوگوں کی قربانیوں سے زیادہ واقف نہیں ہے جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ بنگال سے لے کر صوبہ سرحد تک اور کشمیر سے لے کر جنوب میں مالا بار تک لاتعداد محسنان پاکستان نے بے انتہا قربانیاں دیں اور ہمارے لئے یہ ملک حاصل کیا۔ مولانا حسرت موہانی، نواب اسمٰعیل خان، سر عبدالرحمن ، جناب سہروردی، فضل حق صاحب، سر آغا خان، راجہ صاحب محمودآباد، نواب لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، قاضی عیسیٰ ، سر عبداللہ ہارون، پیر مانکی شریف، ڈاکٹر عبدالرحیم بنگش ، نواب بھوپال وغیرہ وغیرہ اور سالار کارواں قائداعظم محمد علی جناح کے ناموں سے سب ہی واقف ہیں۔
لیکن قیام پاکستان کے بعد جن لوگوں نے اس پودے کو اپنے خون سے سینچا ان سے عوام زیادہ واقف نہیں ہیں۔ پاکستان کے قیام کے بعد ہندو قوم کو یقین تھا کہ یہ ملک چند ماہ میں مالی ، معاشی مشکلات کا شکار ہو کر ختم ہو جائے گا مگر تقسیم کے بعد ہندوستان سے ، خاص طور پر یوپی ، حیدرآباد وغیرہ سے لاتعداد تعلیم یافتہ لوگ ہجرت کر کے کراچی آ گئے ، ان لوگوں نے ایک جہادی جذبہ کے تحت ملک کی تعمیر کی، اپنے پیسوں سے کاغذ اور پینسل لے کر دفتر جاتے تھے اور ببول (کیکر) کے کانٹوں سے پنوں کا کام لیتے تھے۔پاکستان بننے کے بعد سید مراتب علی شاہ صاحب کی خدمات کون فراموش کرسکتا ہے ،اسی طرح ملک کی تعمیر میں پارسیوں ، اسمٰعیلیوں، بوہریوں اور عیسائیوں نے بھی انتہائی اہم رول ادا کیا۔ ان لوگوں کا رول زیادہ تر انتظامیہ کو اچھی طرح چلانا، فلاحی اداروں کا قیام اور عوام کی خدمت کرنا تھا۔ بوہریوں نے معاشی سطح پر بہت مدد کی اور ان میں نمایاں و لیکا خاندان تھا جس نے کئی صنعتی ادارے قائم کرکے ملک کو معاشی طور پر مضبو ط کیا۔ میں اس وقت آپ کو اُن محسنانِ پاکستان کے علاوہ اُن محسنانِ پاکستان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کو میمن کہتے ہیں۔ جوبلی سینما اور رنچھوڑ لائن کے قیام کے دوران میرا رابطہ ان لوگوں سے پڑا۔ شام کو یہ لوگ (اوسط طبقہ) چائے اور پان کی دکانوں پر جمع ہوتے تھے ، بے حد ہنس مکھ اور محنتی تھے۔ میں نے دیکھا کہ یہ لوگ بغیر ٹائی کے سوٹ پہنتے تھے، جوتوں کے بجائے چپلیں پہنتے تھے اور بے حد پان کھاتے تھے۔ انہوں نے (صنعت کاروں ) قیام پاکستان کے فوراً بعد دل و جان سے ملک کی خدمت کی اور مالدار لوگوں نے حکومت پاکستان کو کثیر رقم دی جس سے لوگوں کی تنخواہیں دی گئیں اور ملک میں صنعتوں کی بنیاد ڈال کر ملک کو مضبوط بنیاد مہیا کردی۔
ڈی جے سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد میں نے سرکاری ملازمت بطور انسپکٹر اوزان و پیمانہ جات شروع کی۔ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مجھے انڈسٹریل ایریا بھی ملا اور میں باقاعدگی سے ملوں اور فیکٹریوں کا دورہ کرتا تھا ۔ اس دوران مجھے یہ علم ہوا کہ اس میمن برادری نے پاکستان کی تعمیر میں کس قدر اہم کردار ادا کیا تھا۔ آہستہ آہستہ میرے تعلقات سرکاری سطح سے ہٹ کر ذاتی دوستی اور قدر دانی میں تبدیل ہو گئے، حاجی عبدالرزاق، حسین داؤد، غلام محمد فیکٹو، یعقوب تابانی، باوانی فیملی، قاسم پار کھ بھائی، اور دوسرے لاتعداد میمن بھائیوں سے دوستی ہو گئی اور آج بھی مجھے اس دوستی پر فخر ہے اور اسے قیمتی سرمایہ سمجھتا ہوں۔ یورپ سے جب واپس آیا اور کہوٹہ کا سربراہ بنا تو پھر دوستی کا دائرہ کار اور بڑھ گیا اور باہمی محبت میں اضافہ ہو گیا۔ اب تو میں میمنی کھانوں کا بھی شوقین ہو گیا اور بھائی یعقوب تابانی حاجی رزاق صاحب اور مرحوم غلام محمد آدمجی فیکٹو کی دعوت سے بھی انکار نہ کر سکا۔ ان کے کھانوں میں مرچیں تو کچھ زیادہ ہوتی ہیں مگر بہت ہی لذیذ ہوتے ہیں۔ ان محسنان پاکستان سے واقفیت اور دوستی کے بعد میں نے ان کی تاریخ کا مطالعہ کیا تو یہ حقائق سامنے آئے ۔ قبل اس سے کہ میں کچھ اور بیان کروں سب سے پہلے قائداعظم  کے میمن برادری کے بارے میں تاثرات بیان کر دوں۔ قائداعظم  نے فرمایا ”میمن برادری جیسی صف اول کی اور حوصلہ مند تاجر برادری بیدار ہو کر سیاست میں حصہ لینے لگی ہے۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے اور یہی دنیا میں کامیابی اور کامرانی حاصل کرنے کی راہ ہے۔ میری دعا ہے کہ آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں۔ “(البرٹ ہال کلکتہ 31-12-1937 )
میمن برادری کے مسلمان ہونے کے بارے میں کچھ مختلف آراء ہیں ۔ ایک جگہ کہا گیا کہ تقریباً پندرہ سو صدی عیسوی میں نگر ٹھٹھہ میں حضرت پیر یوسف الدین کے ہاتھوں لوہانہ برادری کے سات سو خاندان مسلمان ہو گئے تھے اور یہ مومن کہلاتے ہیں۔ سندھ کے مشہور ادیب میمن عبدالمجید سندھی نے لکھا ہے کہ میمن برادری حضرت عمر بن عبدالعزیز  کے زمانہ میں تقریباً سولہ سو اسّی صدی عیسوی میں منصورہ میں مسلمان ہوئی تھی۔ رچرڈ برٹن نے لکھا ہے کہ میمن برادری ریاست کچھ میں مسلمان ہوئے تھے۔
مشہور سندھی تاریخ نویس سراج الحق نے لکھا ہے کہ لوہانہ برادری پہلے بدھ مذہب کی پیروکار تھی، تعلیم یافتہ تھی اور سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کی تجارت کرتے تھے۔ان کے مطابق یہ لوگ محمد بن قاسم کے زمانے میں مسلمان ہوئے، اس بارے میں انہوں نے مزید فرمایا کہ سنسکرت زبان میں لفظ ”مے“کا مطلب تجارت اور ”من“ کا مطلب ہیرے جواہرات ہیں۔چونکہ یہ لوگ ہیرے جواہرات کی تجارت کرتے تھے اس لئے میمن کہلائے۔
بعض مورخین کے مطابق محمد بن قاسم کے لشکر میں جو نبو تیم قبیلہ کے لوگ شامل تھے وہ فوج کے دائیں حصہ میں میمنا سے تعلق رکھتے تھے اور یہ ٹھٹھہ میں بس گئے ، یہ کپڑے بننے کا کام کرنے لگے تھے اور انہیں بھی میمن کہاجاتا تھا۔
میمن برادری کے لوگ ہندوستان میں زیادہ تر سندھ ، گجرات اور کاٹھیاواڑ میں قیام پذیر تھے۔ جو میمن سندھ میں بس گئے وہ سندھی میمن کہلائے اور جو گجرات میں بس گئے وہ گجراتی یا تھرادی میمن کہلائے، جو کاٹھیا واڑ میں بس گئے وہ کاٹھیاواڑی میمن کہلائے اور کینیا میں رہائش پذیر میمن برادری نصرپوریا میمن کہائے۔
اگر آپ کا رابطہ میمن بھائیوں سے رہا ہے تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ نہایت نرم گو ، صلح پسند، محبت کرنے والے اور نہایت محب وطن لوگ ہیں۔ میمن برادری کی ملکی اور عوام کی خدمات بیان کرنے کے لئے اور تفصیلات بیان کرنے کے لئے ایک موٹی کتاب کی ضرورت پڑے گی۔ صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک پاکستان کی اقتصادی ، تعلیمی، فلاحی کاموں میں جو نمایاں کارنامے سر انجام دیئے ہیں وہ نہ صرف ان کے لئے بلکہ پاکستان کے لئے نہایت باعث فخر ہے۔ لفظ میمن سن کر لوگ صرف تجارت، کاروبار کا سوچتے ہیں حالانکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی خدمات قابل فخر ہیں۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد میمن برادری نے مشرقی پاکستان میں نہایت اہم صنعتی یونٹ قائم کئے۔ ان میں باواجوٹ ملز، آدم جی جوٹ ملز، چائے کے باغات جوٹ برآمد کرنے والی کمپنیاں، کرنافلی پیپر ملز، داؤدراین اور کیمیکل ملز قابل ذکر ہیں۔سقوط ڈھاکہ سے میمن برادری کو اربوں روپیہ کا نقصان ہوا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بچے کھچے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں منہمک ہو گئے۔ پورے مغربی پاکستان میں صنعتوں کا جال پھیلا دیا اور کپڑے، آرٹ سلک، اون، کاغذ، ہوائی جہاز، پانی کے جہاز، سگریٹ، ریڈی میڈ گارمنٹس، ٹاول، اخبار، تعمیرات وغیرہ جیسی صنعتوں کے قیام میں نہایت نمایاں کردار ادا کیا۔ کچھ صنعتوں کا تذکرہ کروں گا مثلاً آدم جی گروپ، پاکولا گروپ، داؤد گروپ، فیکٹو گروپ، النور گروپ، دادا گروپ، حسین گروپ، دادا بھائی گروپ، عبداللہ گروپ، جعفر گروپ، باوانی گروپ، مچھیارا گروپ، تابانی گروپ قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھی لاتعداد چھوٹے اور درمیانے درجے کے گروپ بھی کارفرما ہیں۔ میمن برادری کے فلاحی کاموں میں مساجد، اسکول،کالج اور اسپتال وغیرہ کی فہرست بہت طویل ہے۔
میمن برادری کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے علاوہ تقریباً پندرہ لاکھ میمن غیر ممالک یعنی دینا کے تمام خاص ممالک میں قیام پذیر ہیں۔ پاکستان میں تقریباً چھ لاکھ، ہندوستان میں سات لاکھ اور اس کے علاوہ امریکہ میں تقریباً تیرہ ہزار اور برطانیہ میں پچیس ہزار میمن رہائش پذیر ہیں۔ میمن برادری کے متعلق بہت سی معلومات میرے عزیز دوست مرچنٹ نیوی کے کیپٹن کمال محمودی نے بہم پہنچائی ہیں، میں ان کا شکر گزار ہوں۔
ماضی قریب اور جدید دور کے چند مشہور میمن رہنماؤں میں حاجی سر عبداللہ ہارون، حاجی عبدالستار سیٹھ، آدم جی حاجی داؤد، حاجی عبدالغنی بیگ محمد باوانی، عثمان عیسیٰ بھائی وکیل، حاجی دادا ولی محمد مودی، احمد ای ایچ جعفر، یوسف ہارون، محمود ہارون، اشرف ولی محمد تابانی، زین نورانی،عبدالستارایدھی،الحاج ذکریا کامدار، حاجی حنیف طیب، ڈاکٹر فاروق ستار، نثار میمن، قاسم پاریکھ، عبداللہ جے میمن، غلام علی میمن، احمد داؤد، حسین داؤد، عبدالقادر لاکھانی ، عقیل کریم ڈیڈی، رزاق بلوانی،عزیز تبّا،عبدالرزاق تھلپا والا،حسین لاوائی،امین غازیانی، جسٹس عبدالحفیظ میمن، جسٹس رحیم بخش میمن، جسٹس محمد بچل میمن، جسٹس رحیم بخش منشی، غلام محمد آدم جی فیکٹو، احمد ابراہیم ولی محمد باوانی، حاجی الیاس میمن، حسین ابراہیم، لطیف ابراہیم جمال، محمد ابراہیم تابانی، یعقوب تابانی، عثمان سلمان، حاجی عبدالرزاق، امین لاکھانی وغیرہ وغیرہ مشہور ہیں ۔آپ کو شاید معلوم ہو گا کہ اردو شاعری کے باوا آدم ولی دکنی جو گجرات میں تین سو سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور جن کا نام شاہ محمد ولی اللہ تھا میمن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے یہ مشہور شعر کہا تھا:
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں مجھے جناب عزیز اے منشی،غلام محمد فیکٹو، حسین داؤد، یعقوب تابانی، حاجی حنیف طیب، حسین لاوائی، حاجی عبدالرزاق، حاجی اقبال، حاجی جان محمد کی دوستی پر فخر ہے۔ حاجی رزاق کو دبئی کا گولڈن بوائے کا خطاب ملا ہے۔ شاید آپ کو علم نہ ہو ایک مرتبہ جب پاکستان سخت مالی مشکلات کا شکار تھا تو حاجی رزاق نے حکومت کو ایک سو پچاسی ملین ڈالر قرض دیا تھا۔ میں نے شروع میں ان برادریوں کا تذکرہ کر دیا ہے جنہوں نے پاکستان کی خدمت کی ہے۔ میمن برادری کے پاکستان پر بہت احسانات ہیں ۔ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد نقد رقوم دے کر اور بعد میں لاتعداد صنعتی ادارے قائم کر کے انہوں نے ایک مضبوط پاکستان کی بنیاد ڈال دی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کوضرور اس کا اجر عظیم دے گا۔
تازہ ترین