• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکمرانوں کا غم اور عوام کی خوشی!.....ملک الطاف حسین

بدلتے موسموں کی طرح سیاست کا رنگ بدلنے لگا ہے۔مارچ میں بہار آنے سے پہلے خزاں نے اپنا کام دکھاناشروع کردیا ہے حالانکہ ابھی تو سردی کافی تھی اور خزاں میں بھی کچھ دیر تھی مگر اس مرتبہ سیاست کا موسم او رمنظر بڑی تیزی سے بدلتاہوا نظر آنے لگا ہے جب کہ سردیوں کا موسم تو حکمرانوں کے حکم چلانے کا موسم ہوتا ہے کیوں کہ گرم کمرے‘ گرم لحاف‘ گرم مزاج اور دوست تو سردیوں میں مزا دیتے ہیں… ہاں البتہ اپوزیشن کے لئے سردیوں کا موسم کچھ زیادہ فائدہ مند نہیں ہوتا کیوں کہ عوام کو گھروں سے نکالنے کے لئے کافی زور لگانا پڑتا ہے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ اور بھوک کی وجہ سے عوام ویسے بھی بہت کم سوپاتے ہیں لہٰذااپنی اس فرصت کو کسی جلسہ عام میں گزارنے یا کسی لیڈر کا استقبال کرنے میں گزار دینا بہتر سمجھتے ہیں ویسے بھی جب دل کی بات سامنے والا کررہا ہو ‘ اندر کا غصہ اور منہ کی گالی کوئی لیڈر دے رہا ہو تو وہاں تالیاں بجانے کا خوب ہی مزہ آتا ہے۔
بہرحال کتنے موسم آئے اور گزر گئے ‘ عوام نے کتنے سیاستدانوں کو کندھوں پر اٹھایااور کتنوں کو لحد میں اتارا‘ کتنے سالگرہ کے کیک کاٹے اور کتنی ہی برسیوں پر آنسو بہائے‘ کتنے انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ یہ سب کو سب کچھ بھول بھی چکا ہے کیوں کہ جس طرح سے گیا ہوا وقت واپس نہیں آتا اسی طرح سے گزرا ہوا غم اور گئی ہوئی خوشی بھی واپس نہیں آتے‘ یادیں تو صرف باتیں ہوا کرتی ہیں اور باتوں سے پیٹ نہیں بھرا کرتا بلکہ اس کے لئے تو پھر سے مسائل کا سامنا اور وسائل کو تلاش کرنا پڑتا ہے‘ جانے والوں کا تعاقب نہیں ہوتا بلکہ آنے والوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔ کیوں کہ جانے والا تو خود لٹیرا او ربھگوڑا ہوتا ہے۔ بھگوڑے اور لٹیرے کبھی سخی نہیں ہوتے‘ قوم کا خزانہ لوٹ کر بھاگنے والوں کے پیچھے بھاگ کر بھلا کوئی کیاکرے گا وہ تو آنے والوں پر ہی پھول برسائے گا کہ شاید خزانے سے کچھ نچھاور کردے مگر بے چارے عوام… بے چارے عوام جو اب بھی اپنے حکمرانوں کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قومی خزانے کے محافظ اور عوام کے خادم ہیں حالانکہ حقیقت تو اب یہ بن چکی ہے کہ یہ عوام کے خادم نہیں حاکم ہیں اور خزانے کے امین یا محافظ نہیں بلکہ مالک و خائن ہیں۔ ہر دو رکی طرح اس دور کے حکمرانوں کا کام بھی خزانہ اڑانا ہے‘ سو یہ کام بڑی تیزی کے ساتھ ہورہا ہے۔
البتہ ایک کام جو پاکستان کی 62 برس کی تاریخ میں اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا وہ اب کی بار دیکھنے میں آرہا ہے… عوام سے زیادہ حکمران پریشان ہیں۔ عوام کے نزدیک یہ خبر بہت ہی خوشی کی خبر ہے کہ ان کے حکمران غم میں مبتلا ہیں اور ایک ایسا غم کہ جس کا کوئی علاج کسی کے پاس نہیں ہے‘ کہتے ہیں کہ خوف کا منظر کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو اس کو دور کیا جاسکتا ہے لیکن جو خوف اندر بیٹھ گیا ہو اُسے نکالنا ممکن نہیں ہوتا‘ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے حالانکہ ان کے پاس بھاری مینڈیٹ ہے‘ وہ منتخب حکمران ہیں‘ آئین پانچ سال کی مدت فراہم کرتا ہے‘ امریکہ ضمانت دیتا ہے‘ اپوزیشن کی طرف سے کوئی بڑی رکاوٹ یا تحریک نہیں‘ عام انتخابات کا کوئی مطالبہ نہیں‘ پارلیمنٹ میں کوئی دم خم نہیں ہر طرف سے OK ہے مگر اس کے باوجود متفقہ وزیراعظم اور منتخب صدر پریشان اور بہت ہی زیادہ پریشان نظر آتے ہیں… بجلی ‘ گیس ‘چینی اور آٹا وغیرہ کے بحران حل کرنے کے مطالبوں پر وزیراعظم سخت برہم ہیں کہ ابھی تو ہمیں ڈیڑھ برس گزرا ہے جب کہ ہم پانچ برس کے لئے آئے ہیں‘ حساب آخر میں مانگا جائے پہلے کیوں مانگا جارہا ہے‘ شاید وزیراعظم صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابھی تک تو ملک میں کہیں نہ کہیں کوئی روشنی نظر آرہی ہے۔ چولہا بھی کسی نہ کسی وقت پر تو جل رہا ہے‘ چینی ‘آٹا‘ بھی مہنگا یا خراب سہی مگر مل تو رہا ہے جب ان میں سے کچھ بھی نہ رہے ملک صومالیہ اور افغانستان بن جائے اور ادھر پانچ سال پورے ہوجائیں تو تب جا کر حساب دیں گے مگر کیا اُس وقت کوئی حساب لینے والا بھی باقی رہے گا…؟۔
صدر مملکت بڑی شان اور بڑے نام والے ہیں۔ سیاست کی سیڑھیاں چڑھ کر یہ سیاست دان نہیں بنے بلکہ سیاستدانوں کی بارات میں مل کر سیاست کے تاج کے سرتاج بنے ان کی زندگی خوب شاہانہ اور عجیب اتفاقات سے بھری ہے۔ وہ جیل سے محل خریدتے ہیں اور محل میں بیٹھ کر جیل جانے کی باتیں کرتے ہیں گوکہ ان کا کوئی دشمن نہیں مگر پھر بھی وہ للکارتے پھررہے ہیں‘ بہت بڑی جماعت کے سربراہ ہیں مگر لیڈر نہیں کارکن نظر آتے ہیں ‘ تقریر صدر کی حیثیت سے کرتے ہیں مگر باتیں صدر والی نہیں کرتے بیرونی ملک دوروں میں ملک کی نمائندگی کرتے ہیں مگر ترجمانی نہیں کرپاتے‘ مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں مگر کمانڈ نہیں جانتے‘ آئین کے نگہبان اور پابند ہیں مگر آئین کو نظر انداز کرنے کا رجحان ہے‘ کرپشن اور بدعنوانیوں کو روکنا ان کے فرائض منصبی ہیں مگر خود انہیں کرپشن کے مقدمات کاسامنا ہے‘ محترمہ شہید کے قاتلوں کو جانتے ہیں مگر بتاتے نہیں ہیں‘ بلوچ ہیں مگر نواب بگٹی کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کرتے‘ انصاف اور آزادی کی بات کرتے ہیں مگر عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرتے اور میڈیا کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کرتے ہیں‘محمد بن قاسم کی سرزمین سے تعلق رکھنے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو رہا نہیں کراسکتے‘ انتخابی وعدوں کے باوجود صوبہ سرحد اور بلوچستان میں ملٹری آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں‘ امریکہ دوست نہیں مگر اس کی دوستی پر بھروسہ کرتے ہیں‘ ایوان صدر میں بیٹھ کر بھی ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں‘ اسلامی جمہویہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے اسلام کابول بالا کرنے کے بجائے روشن خیالی کے گیت گاتے ہیں… عوام کے غم میں مبتلا رہنے کے بجائے اپنے غم میں مبتلا رہتے ہیں جب کہ سچی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کا غم ہی اب عوام کی خوشی ہے… خوش رہیں عوام ‘ صدا خوش ۔

تازہ ترین