• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گیت کار اعظم شکیل بدایونی کی 101ویںسالگرہ آج منائی جارہی ہے

Todays Print

ممبئی ( مانیٹرنگ ڈیسک) اپنی خوبصورت شاعری سے فلم انڈسٹری کو لازوال گیت دینے والے شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کے چاہنے والے 3 اگست کو ان کی 101 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔’ چودہویں کا چاند ہو‘ جیسے سینکڑوں لازوال گیتوں کے خالق معروف شاعر شکیل بدایونی کی پیدائش 3 اگست 1916 کو اترپردیش کے ضلع بدایوں میں ہوئی۔ زمانہ طالبعلمی کے دوران ہی شکیل نے شاعری شروع کی اور 1944 میں بمبئی منتقل ہونے کے بعد ان کی ملاقات معروف موسیقار نوشاد سے ہوئی اور فلم ’درد‘ سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔جس کے گیتوں نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا، خصوصاً ’افسانہ لکھ رہی ہوں دلِ بے قرار کا‘ تو آج بھی لوگوں کی زبانوں پر رواں ہے۔اس کے بعد نوشاد اور شکیل بدایونی کے اشتراک سے متعدد سپر ہٹ گیت سامنے آئے جن میں فلم ’میلہ‘ کا یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، فلم ’دلاری‘ کا سہانی رات ڈھل چکی، فلم ’میرے محبوب‘ کا میرے محبوب تجھے، اڑن کھٹولہ کا او دور کے مسافر، سمیت بیجو باورا کا گیت او دنیا کے رکھوالے قابل ذکر ہیں۔ اس جوڑی کا سب سے نمایاں کام فلم ’مغلِ اعظم‘ میں سامنے آیا جس کے ہر گیت نے مقبولیت حاصل کی، خصوصاً پیار کیا تو ڈرنا کیا تو لافانی حیثیت اختیار کرگیا۔پچاس سے ساٹھ کی دہائی تک دیگر نغمہ نگاروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ گیت شکیل نے لکھے تھے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی سب سے زیادہ فلمی گیت لکھنے والے نغمہ نگار شکیل بدایونی ہی رہے تھے۔

چودھویں کا چاند کے ٹائٹل گیت پر 1961میں شکیل کو پہلا فلم فئیر ایوارڈ ملا۔ ہندوستانی حکومت نے انہیں گیت کارِ اعظم کے خطاب سے بھی نوازا۔شکیل بدایونی کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آئے جن میں رعنائیاں، صنم و حرم اور نغمہ فردوس شامل ہیں۔ یہ عظیم نغمہ نگاراورشاعر بیس اپریل انیس سو ستر کو اٹھاون برس کی عمر میں کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہوکر انتقال کر گئے مگر ان کی شاعری آج بھی دلوں کو چھو جاتی ہے۔

تازہ ترین