پاناما کیس کے فیصلوں(بیس اپریل اور اٹھائیس جولائی کے حتمی فیصلے ) کو پڑھنے کے بعد ذہن میں ابھرنے والی غالب سوچ یہی ہے کہ اگر سپریم کورٹ بنیادی ٹرائل کورٹ بننے سے گریز کرتی تو بہتر تھا۔ تمام عدالتوں سے ریکارڈ پڑھنے میں غلطی ہوسکتی ہے، اُن سے غلط فیصلہ ہوسکتا ہے ،جس کی تلافی اپیل میں ہوسکتی ہے ۔ لیکن جب اپیل کے لئے کوئی فورم میسر نہ ہو تو پھر اس غلطی کی تلافی کیسے ہوگی ؟
بیس اپریل کو جسٹس کھوسہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کسی جے آئی ٹی کی ضرورت محسوس کیے بغیر وزیر ِ اعظم کو نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس سے بات شروع کرتے ہوئے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں ریکارڈ پڑھنے میں ایسی غلطی سرزد ہوگئی جسے اپیل میں محترم کھوسہ صاحب خود ہی سوفیصد درست کردیتے ۔ جسٹس کھوسہ کا استفسار بنیادی طور پر اس بات کا تعین کرنے پر تھا کہ کیا وزیر ِاعظم اور اُن کے بچوں کی پیش کردہ وضاحت ایماندارانہ ہے یا نہیں۔ اُنھوںنے بہت سے تضادات کو دیکھتے ہوئے نتیجہ نکالا کہ وہ ایماندار نہیں ہیں۔ فیصلے میں ان تضادات کی نشاندہی کی گئی :
فاضل جج صاحب دیکھتے ہیں کہ وزیر ِاعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بیان دیا کہ جون 2005 ء میں جدّہ فیکٹری کی فروخت سے حاصل ہونے والے وسائل سے اُن کے بیٹو ں نے اپنا بزنس قائم کیا۔اس پر جج صاحب سوال اٹھاتے ہیں کہ ’’کیا وزیر اعظم ایماندار ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ اُن کے بیٹو ں نے 2005 ء میں کاروبار قائم کیا جبکہ اُن کے ایک بیٹے (حسن) کا کہنا تھا کہ اُس نے لندن کاروبار اس سے پہلے شروع کیا تھا۔‘‘ اس کے بعد جسٹس کھوسہ وزیر ِاعظم کی تقریر کا حوالہ دیتے ہیں۔۔۔’’ مکہ کے نزدیک لگائی گئی اسٹیل فیکٹری چند سال بعد تمام اثاثوں سمیت فروخت کردی گئی، اور یہ وسائل میرے بیٹوں، حسین نواز اور حسن نواز نے اپنے نئے کاروبار کے لئے استعمال کیے ۔‘‘
وزیر ِاعظم نے یہ کبھی نہیں کہا تھا کہ اُن کے بیٹوں نے ’’اپنے کاروبار میں یہ فنڈز استعمال کیے‘‘۔ اُنھوںنے کہا تھا ’’میرے بیٹو ں نے اپنے نئے کاروبار کے لئے یہ وسائل استعمال کیے۔‘‘فرض کریں وہ کہتے کہ اُن کے بیٹوں نے پرانے کاروبار میں ان فنڈز کو استعمال کیا ۔تو کیا اس کا یہ مطلب ہوتا کہ وہ کاروبار ان فنڈز سے شروع کیا گیا تھا؟جسٹس کھوسہ نوٹ کرتے ہیں کہ وزیر ِاعظم کی کی گئی تقاریرلندن جائیداد کی ’’خرید ‘‘ کا ذکر کرتی ہیںجبکہ قطر سے آنے والا بیان اس جائیداد کی ’’ایک معاہدے کے تحت منتقلی ‘‘ کی بات کرتا ہے جس کا تعلق ماضی کی سرمایہ کاری سے تھا۔ اس پر جج صاحب نتیجہ نکالتے ہیں کہ خرید کا مطلب ’’معاہدے کے تحت منتقلی‘‘ نہیں ہوتا۔ عام ڈکشنریاں ’’خرید‘‘ کی تعریف اس طرح کرتی ہیں۔۔۔’’ایسی جائیداد حاصل کرنا (قانونی طور پر) جو وراثت میں حاصل نہ کی گئی ہو‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس معاہدے میںماضی کی سرمایہ کاری کے ذریعے جائیداد کا حصول ’’خریدنے ‘‘ کے معانی میں ہی لیا جائے گا۔
جسٹس کھوسہ مریم نواز کے ثنا بچہ کو 2011ء میں دئیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں کہ ’’مریم نواز بہت صراحت کے ساتھ اس بات کی تردید کرتی ہیں کہ وہ اپنے بھائیوں یا بہن کی لندن میں کسی جائیداد سے واقف ہیں، جبکہ اُن کا اس عدالت کے سامنے پیش کردہ موقف یہ ہے کہ اُن کا بھائی حسین نواز وسطی لندن میں 2006 ء سے چار جائیدادوں کا مالک ہے جبکہ وہ اس بھائی کے لئے 2006 ء سے اُن جائیدادوں کی ٹرسٹی ہیں ۔‘‘ مریم نواز کا بیان تحقیق کا متقاضی ہے ۔ پی ٹی آئی کے ایک سیاست دان نے وسطی لندن کی جائیدادوں کی ایک فہرست پیش کرتے ہوئے الزام لگایا کہ اُن میں سے چھ نواز شریف، چھ مریم نواز، چار حمزہ، تین حسن اور تین کلثوم نواز شریف کی ہیں۔ جبکہ مریم نے کہا تھا۔۔۔’’لندن چھوڑیں، میری تو پاکستان میں بھی اپنی جائیداد نہیں ہے۔ میں نہیں جانتی کہ اُنھوںنے کہاں سے میری، میری والدہ اور میرے بہن بھائیوں کی یہ جائیدادیں نکال لی ہیں… اس حساب سے تو تمام وسطی لندن ہمارا ہونا چاہیے ۔‘‘میرا خیال ہے کہ جب مریم نوازنے لندن میں اپنی جائیداد ہونے کی تردید کی تھی تو اُنھوںنے یہ نہیں کہا تھا کہ اُن کے بھائیوں کی بھی لندن میں کوئی جائیداد نہیں ۔ اگر کوئی ماتحت عدالت اس کا یہ نتیجہ نکالتی تو اسے اپیل میں درست کرلیا جاتا۔
اس کے بعد جسٹس کھوسہ حسین نواز شریف کے 19جنوری 2016 ء کو کیپٹل ٹاک میں دئیے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں حسین نواز نے کہا تھا…’’جدہ فیکٹری فروخت کرنے سے کافی اچھی رقم مل گئی ، اور اس رقم سے اُنھوںنے تین جائیدادیں رہن (mortgages) کے ذریعے حاصل کیں، جن کی رقم ابھی تک ادا کی جارہی ہے ۔ ‘‘اس پر جسٹس کھوسہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’’رہن کی کہانی بالکل نئی ہے ، اور یہ قطری خط کے افسانے، جس کے مطابق جائیدادیں کسی معاہدے کے تحت خریدی یا حاصل کی گئیں، سے بالکل مختلف ہے‘‘ ۔ اور یہ بات ایسے ہی ہوتی اگر حسین نواز پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے فلیٹس کے حوالے سے کہتے کہ یہ ہیں وہ فلیٹس جنہیں رہن کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے ۔ لیکن ایسا لگتا ہے جیسے عمران خان کے الزام کے جواب میں اُنھوںنے واضح طور پر لندن جائیدادوں کا ذکر کیا جن میں مذکورہ لندن فلیٹس بھی شامل تھے جو رہن( اور جزوی طور پر جدہ مل کی فروخت سے حاصل ہونے والے فنڈز) کے ذریعے حاصل کیے گئے تھے ۔ ایسا لگتا ہے کہ محترم جج صاحب کو انٹرویو کا درست ٹرانسکرپٹ فراہم نہیں کیا گیا۔
جسٹس کھوسہ حسن نواز کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں …’’حسن نواز نے نومبر 1999ء میں( بیان کے مطابق لندن جائیداد خریدنے سے سات سال پہلے) ٹم سبطین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہاتھا کہ وہ ایک طالب علم ہیں اور ان کی کوئی آمدنی نہیں، اور وہ اس جائیداد میںبطور کرائے دار رہ رہے ہیں اور کرائے کی رقم ہر چار ماہ بعد پاکستان سے آتی ہے ۔ ‘‘جج صاحب نوٹ کرتے ہیں کہ ’’اس نوجوان کا بیان اُس سے مختلف ہے جو موقف قطر سے سامنے آیا جس کے مطابق میاں محمد شریف کی فیملی کو کسی معاوضے کے بغیر ان فلیٹس میں رہنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ ‘‘ لیکن قطرسے آنے والا ایک اور خط، جس کا اس فیصلے میں حوالہ دیا گیا، کہتا ہے …’’دونوں خاندانوں میں تعلقات کی وجہ سے میاں محمد شریف اور اُنکی فیملی اس جائیداد کو استعمال کرتی اور اس کے تمام اخراجات، بشمول جگہ کا کرایہ اور سروس چارجز برداشت کرتی تھی ۔‘‘ اس خط کے مطابق جگہ کا کرایہ اور سروس چارجز شریف فیملی ادا کرتی تھی ۔ جسٹس کھوسہ نوٹ کرتے ہیں کہ وزیر ِاعظم نے مکہ کے قریب ایک اسٹیل فیکٹری لگانے کاذکر کیا لیکن بعد میں کہا کہ فیکٹری جدہ کے قریب لگائی گئی تھی ۔ چونکہ جسٹس کھوسہ نے بات کا ایک سے زیادہ مرتبہ ذکرکیا ہے تو یہ وضاحت برمحل ہوگی کہ ان دونوں شہروں کا درمیانی فاصلہ صرف 45 میل ہے ۔ اسلئے وزیر ِاعظم نے اسے مکہ کے قریب فیکٹری کہا تھا ۔ مذکورہ بالا بحث کا تعلق جسٹس کھوسہ کے بیس اپریل کے اختلافی نوٹ سے ہے۔ اسکے بعد حالیہ فیصلے ، جس میں وزیر ِاعظم کو نااہل قرار دیدیا گیا، کی بات کرتے ہیںتو اسکے اس حصے سے کوئی شکایت نہیں کہ معاملہ مزید تحقیقات کیلئے نیب کے سپرد کردیا گیا، لیکن اسکے بعد فاضل عدالت مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر وزیر ِاعظم کو نااہل قرار دیتی ہے ۔’’اس بات کی تردید نہیں کی گئی ہے کہ مدعاعلیہ نمبر 1کیپٹل ایف زیڈ ای کا چیئرمین تھا اور وہ تنخواہ کا حقدار تھا، چاہے وہ تنخواہ نکلوائی گئی یا نہیں۔ اگر وہ تنخواہ نہیں بھی نکلوائی گئی تو بھی وہ اثاثہ ہی قرار پاتی ہے ۔ چنانچہ نہ وصول کی جانیوالی تنخواہ کو بطو راثاثہ 2013کے انتخابی کاغذات میں ظاہر کرنا ضروری تھا۔ لیکن جب مدعاعلیہ نمبر 1 نے ایسا نہیں کیا تو اُنھوں نے کاغذات ِ نامزدگی میں غلط بیانی سے کام لیا۔ چنانچہ وہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے سیکشن 99(1)(f) اور آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت ایماندار تصور نہیں ہونگے۔‘‘یہاں مسئلہ یہ ہے کہ بددیانتی کے ارتکاب کا تعین کرنے کیلئے دوعوامل ضروری ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ (ROPA)کی خلاف ورزی ہو، جسے اکثریتی فیصلے نے نوٹ کیا، چاہے اسکے لئے کتنی ہی تنگ ٹیکنکل وجہ کیوں نہ تلاش کی گئی ، اور دوسرا غلط کاری کا ارادہ یا نیت(جو کہ غیر قانونی حرکت کے ارتکاب کے علاوہ ہوتی ہے )۔اس بات کی وضاحت اس طرح ہے کہ قتل کا جرم محض اس بنا پر مکمل ثابت نہیں ہوتا کہ ایک شخص قتل ہوگیا ہے ۔ اسکے ساتھ قتل یا اُسے جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی شامل ہونا ضروری ہے ۔ اکثریتی رائے عموماً یہی فرض کرلیتی ہے کہ چونکہ جسمانی طور پر جرم کا ارتکاب کیا گیا ، اسلئے نیت بھی لازمی طور پر جرم کی ہوگی ۔ اگر فاضل جج صاحبان ارتکاب کے اس نکتے پر غور کرتے کہ چونکہ نواز شریف نے تنخواہ وصول نہیں کی تھی ، اسلئے یہ فعل بددیانتی کے زمرے میں نہیں آتاکیونکہ اسکی نیت یہ نہیں تھی۔ لیکن اس نکتے پر بھی کوئی بحث نہیں ہوئی۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہمارے معمول کے جوڈیشل طریق کار سے الگ راہ اختیار کی گئی ۔ ایسا نہیں کہ سپریم کورٹ اپیل میں سرزد ہونے والی غلطیوں کو درست کردیتی ہے ۔اسکے لئے بھٹو کیس ایک واضح مثال ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مثالیں ( اور شاید پاکستان کو جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ ریکو ڈک پر عدالت کی مداخلت کتنی مہنگی ثابت ہوئی) ہمیں بتاتی ہیں کہ جب سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184کے تحت کارروائی کی تو کیا کیا غلطیاں سرزد ہوئیں۔ میری رائے یہ ہے کہ اول تو سپریم کورٹ کو براہ راست مداخلت سے اجتناب کرنا چاہئے تاوقتیکہ انتہائی ضروری ہو، اور اس کیلئے بھی آئینی ترمیم کے ذریعے اپیل کا راستہ طے کیا جائے۔ غیر تصحیح شدہ غلطیاں سپریم کورٹ کی ساکھ پر منفی اثر مرتب کرسکتی ہیں۔
(صاحب مضمون وکیل ہیں اور ان کا تعلق لاہور سے ہے)