چلا چل لفافے تو ہرگز نہ ڈر لے آمیرے ”سید کی “ جلدی خبر۔
نہایت ہی واجب الاحترام، محترم المقام ، عزت مآب
عالی مرتبت جناب سید پرویز مشرف صاحب!
عقیدت و محبت سے لبریز سلام!!
امید ہے آپ خیر و عافیت سے ہوں گے اور ایجور روڈ کے دلکش و رنگین عربی ریستورانوں کے لذیز کھانوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں گے۔ جب کبھی میں تصور کی آنکھ سے دیکھتا ہوں کہ آپ اپنے عالی شان فلیٹ کی وسیع بالکونی میں بچھی آرام کرسی پر نیم دراز، سگار پی رہے ہیں اور آپ کے آس پاس نہ کوئی ایم ایس ہے نہ اے ڈی سی، نہ حاجب نہ چوبدار، نہ اونچے طرے والے خاصہ دار نہ مجھ جیسا کوئی دست بستہ غلام، تو میرے دل پر ایک تیر سا لگتا ہے۔ جی چاہتا ہے میرے پر لگ جائیں اور میں ابھی اڑ کر آپ کے پاس پہنچ جاؤں، آپ کے حضور کورنش بجا لاؤں، آپ کے دست مبارک پر بوسہ دوں اور گردن جھکائے، ہاتھ باندھے، پہروں آپ کی خدمت میں کھڑا رہوں۔ ظالموں نے کیا دن دکھایاہے کہ آپ وطن آ بھی نہیں سکتے کہ دیدار کے لئے ترستی آنکھوں کی پیاس بجھاؤں۔ بڑی احسان فراموش قوم ہے آپ جیسے عظیم رہنما اور قائداعظم ثانی کو گنوا دیا۔ اللہ ان ناشکروں کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔
پچھلے دنوں آپ کا بلاوا آیا تھا۔ میں نے بیرسٹر سیف کے ساتھ مل کر قدم بوسی کا پروگرام بھی بنا لیا تھا لیکن الیکشن کے بکھیڑوں میں الجھ کر رہ گیا۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ کس قدر مشکل کام ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2008ء کے انتخابات میں، میں دو حلقوں سے کھڑا ہوا تھا لیکن دونوں سے میری ضمانت ضبط ہوگئی تھی۔ اس وقت لوگوں نے یہ کہہ کر مجھے مسترد کردیا تھا کہ تم مشرف کے ساتھی ہو۔ تم نے ایک ڈکٹیٹر کے سیاہ کارناموں کا ساتھ دیا۔ تمہارے ہاتھ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے شہیدوں کے لہو میں رنگے ہیں۔ تم بے وفا ہو…میں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن میرا کوئی بس نہ چلا۔
اسی مجبوری کی وجہ سے اب میں کھلے عام آپ کا نام نہیں لیتا۔ میں نے اوپر اوپر سے معافی مانگ لی ہے کہ میں نے آپ کے غلط کاموں (معاف کردیجئے گا) کا ساتھ دیا لیکن خدا کے لئے ایک لمحے کے لئے بھی دل میں یہ خیال نہ لایئے گا کہ میری نیاز مندی میں کوئی فرق آگیا ہے ۔ میں اب بھی آپ کا دست بستہ غلام ہوں۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ میں نے اندر ہی اندر آپ سے کتنا گہرا رابطہ رکھا ہوا ہے۔ آپ کو باقاعدگی سے فون کرتا ہوں۔ ہر روز آپ کی درازی عمر کی دعائیں مانگتا اور نذر نیاز کرتا ہوں۔ کھلے عام اس لئے آپ کا نام نہیں لیتا کہ میرے حلقے کے جاہل اور ان پڑھ ووٹر اب بھی آپ سے نفرت (توبہ توبہ) کرتے ہیں ۔ جس دن سے مسلم لیگ (ق) نے میری حمایت کا اعلان کیا ہے، اس دن سے یہ پروپیگنڈہ اور بھی زورپکڑ گیا ہے کہ میں آپ کا بندہ ہوں۔ ہوں تو میں آپ ہی کا بندہ اور اس پر مجھے فخر بھی ہے لیکن کیا کیا جائے، ووٹوں کا معاملہ ہے اور ووٹر تو ووٹر آپ کا نام کسی درخت کے سامنے لیا جائے تو وہ بھی سوکھ جاتا ہے۔
میرے نہایت ہی پیارے شاہ جی!!
آپ نے ٹیلیفون پر تو مجھے اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلایا ہی تھا۔ اس سلسلے میں آپ کے ”عملی تعاون“ کا بھی بے حد شکر گزار ہوں لیکن نہایت ہی ادب سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔ اخبارات میں خبر چھپی ہے کہ آپ نے میری حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ آپ نے ”پاسداران پاکستان“ اور اپنے دیگر عقیدت مندوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ نہ صرف مجھے اپنا ووٹ دیں بلکہ میری انتخابی مہم میں تن، من ، دھن کی بازی لگادیں۔ یہ سب آپکی ذرہ نوازی ہے لیکن حلقے کی سیاست کے حوالے سے آپ کی کھلی حمایت میرے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ آپ کی طرف سے میری حمایت کے اخباری اعلان کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں میرے سیاسی حریف تقسیم کررہے ہیں۔
آپ سے دردمندانہ درخواست ہے کہ آپ اندر خانے جو کچھ کررہے ہیں وہ کافی سے زیادہ ہے۔ اس طرح کھلے عام میری حمایت نہ کریں۔ بلکہ ہوسکے تو ایک آدھ بیان میرے خلاف دے دیں تاکہ لوگ مجھے آپ کا پٹھو نہ سمجھیں۔ سچی بات یہ ہے کہ پہلے مسلم لیگ (ق) کی طرف سے میری حمایت کا اعلان میرے ہزاروں ووٹ کھا گیا۔ ایک اور ستم یہ ہوا کہ آپ کا ہم نوالہ و ہم پیالہ دوست، گورنر پنجاب سلمان تاثیر یہاں آیا اور اس نے بھی عوام سے اپیل کردی کہ وہ میری حمایت کریں اس کا یہ اعلان میرے بچے کھچے ووٹوں کا بڑا حصہ لے اڑا۔ رہی سہی کسر، آپ کے اس حمایتی اعلان نے پوری کردی۔ یقین جانیئے سخت پریشان ہوں۔ ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے آج بھی میرا بڑا رابطہ ہے۔ آپ کی دعا سے ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ میری بھرپور مدد کررہی ہیں۔ انہی کے ذریعے مجھے پتہ چلا ہے کہ میرا مخالف امیدوار، آپکے کچھ جانثاروں، مثلاً بیرسٹر سیف، ڈاکٹر شیر افگن اور جنرل راشد قریشی وغیرہ کو میرے حق میں انتخابی مہم چلانے کیلئے اکھاڑے میں اتار رہا ہے۔ خدا کیلئے اس سازش کو روکئے ورنہ میں کہیں کا نہیں رہوں گا۔ میں آپ کے خلوص سے اچھی طرح واقف ہوں لیکن 24فروری تک یہ تعلق زیادہ منظر عام پر نہ آئے تو بہت بہترہوگا۔
جان سے پیارے سید صاحب!
سی این این سے آپ کا انٹرویو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا کہ آپ ایک بار پھر ملک کی خدمت کے لئے آرہے ہیں۔ بس تھوڑا سا انتظار کرلیں۔ مجھے منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچنے دیں۔ پھر دیکھئے میں اسمبلی ے اندر اور باہر آپ کے لئے کیسی مہم چلاتا ہوں۔ میری کامیابی آپ کی کامیابی ہوگی۔ اگرچہ میں نے ووٹ لینے کے لئے جامعہ حفصہ اور لال مسجد کے واقعات پر معافی مانگ لی ہے لیکن آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر اللہ نے آپ کو دوبارہ موقع دیا تو میں آپ کے ہراول دستے میں ہوں گا اور اگر پھر کسی جامعہ حفصہ یا لال مسجد پر حملے کی ضرورت پیش آئی تو میں خودکلاشنکوف لے کر سب سے آگے رہوں گا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس وقت بھی میں نے کھل کر ان ”دہشت گردوں“ کو کچل ڈالنے کی بات کی تھی حالانکہ بعض لوگ مخالفت کررہے تھے۔ اسی طرح امریکہ کی تابعداری کی سب سے بڑی وکالت بھی میں نے ہی کی تھی۔
آپ میرے خیال میں آج بھی پاکستان کے عظیم ترین رہنما اور قائداعظم ثانی ہیں۔ آپ کے ایک اشارے پر میں اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہوں۔ بس الیکشن کے دن گزرجانے دیں۔ اگرچہ میں لوگوں کو بے وقوف بنانے کا فن جانتا ہوں لیکن عوام، عوام ہی ہوتے ہیں۔ انتخابات کی صورت حال کے بارے میں کچھ نہیں لکھ رہا۔ پتہ نہیں یہ خط کس کے ہتھے چڑھ جائے۔ احتیاطاً اپنے پاس پڑوس میں کوئی اچھا سا فلیٹ دیکھ رکھئے گا۔
ایک بار پھر درخواست ہے کہ پلیز میرے حق میں بیان جاری نہ فرمائیں۔ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ میرے نزدیک آپ کا درجہ پیر و مرشد کا ہے۔ اوپر خدا ہے اور نیچے آپ۔ اگرچہ میں آپ ہی کا امیدوار ہوں لیکن لوگوں کو پتہ چل گیا تو میں تباہ و برباد ہوجاؤ ں گا۔ اللہ ایک بار پھر وطن عزیز کو آپ کی بگتی کش اور لال مسجد شکن قیادت میسر فرمائے اور میں ایک بار پھر آپ کی قدم بوسی کے اعزاز سے سرفراز ہوں۔ آمین
ہزاروں سلام اور لاکھوں دعاؤں کے ساتھ
فقط آپ کا ایک جانثار