خوش باش عیش پوری کا کہنا ہے کہ زندگی موج میلے کا نام ہے جبکہ غمگین سلیمانی کاقول ہے کہ زندگی صرف رونے دھونے کے لئے ہے۔ ہمارے شیخ رشید خوش باش عیش پوری کی طرح زندگی ہنستے کھیلتے گزارنے کے قائل ہیں۔ وہ جب کبھی ٹی وی پر آتے ہیں، میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان کی گل بدنی اور گل افشانی کے سحر میں گم ہوجاتا ہوں۔ پاکستان کے سارے ٹی وی چینلوں کی رونق انہی کے دم سے ہے لیکن جب سے انہوں نے راولپنڈی کے ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا”پنگا“ لیا ہے، اس وقت سے قوم کو خوش باش عیش پوری کے اس پیروکار کی جگہ غمگین سلیمانی کا کوئی شاگرد ٹی وی چینل پر نظر آتا ہے جو ہمہ وقت رونے دھونے میں مشغول ہے۔ ان کاچہر ا اترا ہوا ہے، آنکھوں سے مایوسی جھانک رہی ہے اور اس عالم میں جب وہ درد بھری گفتگو کرتے ہیں تو پاکستانی فلموں کی ”ملکہ ٴ جذبات“ کی طرح لگتے ہیں۔ ملک کے چاروں کونوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کی زد میں ان کے دو ساتھی بھی آئے تو شیخ صاحب رنج و الم کی تصویر بنے دکھائی دیئے حالانکہ ان کے ”دور ِ پرویزی“ میں سینکڑوں بچیاں زندہ جلا دی گئی تھیں، شیخ صاحب پرویز مشرف کے دربارمیں وزیر کے عہدے پر تمکن تھے۔مجھے یادنہیں پڑتا کہ انہوں نے ٹی وی پر آ کر اس بربریت کی مذمت کی ہو یا اور کچھ نہیں تو ان دنوں ٹی وی پروگراموں میں چہکنے کی بجائے چہرے پر حزن و ملال کامیک اپ ہی کرلیا ہو بلکہ وہ بدستور پرویز مشرف کے ”قومی ترانے“گاتے رہے۔ بہرحال اب شیخ رشید احمد پر کڑا وقت آن پڑا ہے۔ ”فرزند ِ راولپنڈی“ سے فرزندانِ راولپنڈی ایسے ایسے سوالات کر رہے ہیں، جن کا جواب ان کے بس میں نہیں، اوپر سے مسلم لیگ (ن) نے شکیل اعوان کی صورت میں جوامیدوار ان کے مدمقابل لا اتارا ہے وہ ایسا ہے کہ اس کی امیدواری ایکسپلائٹ کرنے کے لئے شیخ صاحب کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ وہ میاں برادران کا کوئی عزیز نہیں ہے، وہ چودھری نثار علی خان کابھی کچھ نہیں لگتا، اسحق ڈار سے بھی اس کی کوئی رشتہ داری نہیں کہ کہاجاسکے کہ اپنے ہی خاندان کا ایک فرد اسمبلی میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے بلکہ شکیل اعوان تو گلی کوچوں میں عام انسانوں کے ساتھ گھومنے والا ایک سیاسی ورکر ہے جو دورِ آمریت کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں شروع سے سینہ سپر رہا ہے چنانچہ شیخ صاحب کی بیچارگی دیدنی ہے، کاش کوئی ان کے لئے کچھ کرسکتا!
البتہ اس سارے معاملے میں شیخ صاحب کے ساتھ دو سازشیں ضرور ہوئی ہیں، ایک تو یہ کہ انہیں لیاقت باغ میں جلسے کی اجازت نہیں دی گئی جس پر شیخ صاحب بہت خوش ہوئے کہ انہیں کم از کم ایک انتخابی ایشو تو ملا لیکن وہ سازش کو سمجھ نہ سکے چنانچہ جب شیخ صاحب کو لیاقت باغ میں جلسہ کرنے کے ”عزم“ میں پختہ کردیا گیا تو انہیں اپنا یہ شوق پورا کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ اب شیخ صاحب جانیں یا لیاقت باغ جانے کیونکہ اب ان کی ساری توجہ یہ باغ بھرنے پرمرکوز ہو جائے گی اورشاید مسلم لیگ (ن) کی انتخابی ٹیم یہی چاہتی تھی۔ دوسری ”سازش“ شیخ صاحب کے خلاف یہ تیار کی گئی کہ اپنے ایک ایم این اے سے ان کی ایک غلطی پر استعفیٰ لے لیا گیا جس کے نتیجے میں حلقہ 55کی وہ نشست خالی ہوئی جس پرشیخ صاحب الیکشن لڑ رہے ہیں، حلقے کے لوگ مسلم لیگ (ن) کی اس اصول پسندی پر بلّے بلّے کر رہے ہیں کہ اس نے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے یہ خیال نہیں رکھاکہ اس کی زد میں ان کااپنا آدمی ا ٓرہا ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ جب یہ نشست خالی ہوگی تو انہیں ایک دفعہ پھرانتخابی معرکے میں اترنا پڑے گا۔ اس نے یہ چیلنج قبول کرلیا…اورہاں ایک سازش اور!اوریہ سازش شیخ صاحب نے خوداپنے خلاف کی کہ ق لیگ کی حمایت حاصل کربیٹھے، اب اس کے بعد ہمارے شیخ صاحب ہوں گے یا غالب# کا یہ شعر ان کے ساتھ ہوگا۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
نوحہ گر تو خیر انہیں بہت مل جائیں گے لیکن میں تو ہنستے مسکراتے اور چہلیں کرتے شیخ رشید احمد کے لئے ترسا ہوا ہوں۔ کیا اس کے لئے ہمیں جنرل پرویز مشرف کو دوبارہ ”داروغہ ٴ پاکستان“ بنانا ہوگا؟ میں نے اپنے ایک دوست سے اس مسئلے کا حل پوچھا تو اس نے جواب میں یہ لطیفہ سنایا کہ ایک شخص نے قربانی کے لئے بکرا خریدا لیکن جب وہ یہ بکرا گھر لے کر آیا تو اس نے دیکھاکہ وہ بکرا لوگوں کی نقلیں اتار رہا تھا، لطیفے سنا رہا تھا اور بہت دردناک لمحوں میں بھی قہقہے لگا رہا ہوتا تھا۔ وہ شخص پریشان ہو کر محلے کے مولوی صاحب کے پاس گیا۔انہیں ساری بات سنائی اور مسئلہ پوچھا کہ کیا اس بکرے کی قربانی جائز ہے؟ مولوی صاحب نے ایک لمحہ توقف کیا اورپھربولے ”میرے خیال میں ایک مسخرے بکرے کی قربانی جائز نہیں!“ بکرے کے مالک نے کہا ”مولوی صاحب، میں بہت غریب آدمی ہوں، میں نے بہت مشکل سے یہ بکرا خریدا تھا، اب میں کیا کروں؟“ مولوی صاحب کچھ دیر تک سوچتے رہے بالآخر فرمایا ”میرا مشورہ ہے کہ اسے اب اس کام کے لئے رہنے دو، فارغ وقت میں لوگوں کا دل بہلاتارہے گا۔“ یہ لطیفہ سنا کر میرے دوست نے کہا ”شیخ صاحب کے لئے بھی میرا مشورہ یہی ہے کہ چونکہ لوگوں نے انہیں الیکشن میں فارغ کرنا ہی کرنا ہے، لہٰذا اس کے بعد وہ اپنی سابقہ ٹی وی چینلوں والی ڈیوٹی سنبھال کر لوگوں کو ہنسانا شروع کردیں۔ اس سے خوش باش عیش پوری کی روح بھی خوش ہوگی اور اللہ جزائے خیر بھی دے گا!“