• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
70 Years Of Film Industry In Pakistan

سرفراز فرید نیہاش...قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی فلمی صنعت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ آج وطن عزیز کے ساتھ ساتھ فلمی صنعت کو بھی 70سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ یہ سات دہائیوں کی تاریخ طویل ہے۔ متحدہ ہندوستان میں کلکتہ ممبئی کے بعد لاہور تیسرا اہم فلمی مرکز تھا۔ یہاں بننے والی فلموں نے پورے ہندوستان میں کامیابیاں حاصل کیں۔ لاہور کا پنچولی آرٹ اسٹوڈیو فسادات کے دوران جلا دیا تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد آنجہانی دیوان سرداری لال نے اسی پنچولی آرٹ اسٹوڈیو کے ٹوٹے ہوئے سامان کو اکٹھا کیا۔ گنے چُنے تکنیک کاروں نے یہاں سے فلم سازی کی بنیاد رکھی اور ’’تیری یاد‘‘ کے نام سے ایک فلم بنائی گئی۔ آشا پوسلے اور ناصر خان (دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی) نے اس فلم میں مرکزی کردار کیے۔ دائود چاند اس کے ہدایت کار اور فلم ساز دیوان سرداری لال تھے۔ موسیقی ماسٹر عنایت علی المعروف ناتھ نے ترتیب دی تھی، جو آشا پوسلے کے والد تھے۔ 16؍فروری 1948ء پاکستان کے پہلے نگار خانہ پنچولی آرٹ کا افتتاح ہوا۔ اس کے مالک سیٹھ دل سکھ پنچولی تھے۔ ہفتہ 7؍اگست 1948ء عیدالفطر کے دن لاہور کے سابقہ پربھات سنیما میں تیری یاد ریلیز ہوئی، بعد میں اس سنیما کا نام صنوبر ہو گیا، پھر یہ ایمپائر ہو گیا۔ فلم کے عکاس رضا میر تھے، جب کہ قتیل شفائی، تنویر نقوی اور طفیل ہوشیار پوری نے نغمات لکھے تھے۔ جن گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا، ان میں منوّر سلطانہ، آشا پوسلے، علی بخش ظہور کے نام شامل تھے۔ آج اس فلم کے تمام فن کار منوں مٹّی تلے چلے گئے ہیں۔ معاون عکاس میاں عبدالرشید کاردار، رضا میر کے شاگرد تھے۔ ایم آر احمد کے نام سے کئی کام یاب اور یادگار فلموں کی فوٹوگرافی کی۔ یہ اوّلین فلم کراچی میں 4؍نومبر 1949ء کو سابقہ سینما ایمپائر (جس کا بعد میں قسمت نام رکھا گیا) میں لگی تھی، جس زمانے میں ’’تیری یاد‘‘ زیر تکمیل تھی ہندوستان سے ہدایت کار لقمان لاہورآچکے تھے اور انہوں نے مسلم سوشل فلم ’’شاہدہ‘‘ کا آغاز کیا۔ شاہدہ، تیری یاد کے کچھ عرصے بعد ریلیز ہوئی تھی۔ 1948ء میں ریلیز ہونے والی ’’تیری یاد‘‘ واحد فلم تھی۔ 1949ء میں کل 6فلموں کی نمائش ہوئی۔ اس سال پنجابی فلموں کا آغاز ہوا۔ پہلی پنجابی فلم’’پھیرے‘‘ 3؍اگست 1949ء کو لاہور کے پیلس سینما میں ریلیز ہوئی۔ 25ہفتے چلنے والی یہ پہلی سلور جوبلی تھی۔ اداکار نذیر مرحوم اس کے فلم ساز تھے۔ نذیر اور ان کی بیگم سورن لتا نے اس فلم میں ہیرو، ہیروئین کے کردار کیے۔ اس فلم کے تمام گانے سپر ہٹ ہوئے ۔ اس فلم کی کام یابی نے پنجابی سینما کی بنیاد رکھی۔ اردو فلم ’’ہچکولے‘‘ اسی سال 16؍مارچ کو پیلس سینما لاہور میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم سے سدھیر نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔

پہلی دہائی میں کل 229فلمیں ریلیز ہوئیں۔ جن میں 181اردو، 42پنجابی، 4سندھی اور 3بنگالی فلمیں شامل تھیں۔ یہ دہائی کئی حوالے سے فلمی صنعت کی ترقی و ترویج میں اہم ثابت ہوئی۔ پاکستان کی پہلی پروپیگنڈہ فلم ’’جہاد‘‘ 1950ء میں ریلیز ہوئی ، جو کشمیر کے موضوع پر تھی۔ پہلی کام یاب اردو فلم ’’دو آنسو‘‘ سے بہ طور ہدایت کار انور کمال پاشا نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ صبیحہ اور سنتوش اس فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ یہ دونوں فن کار اسی سال ریلیز ہونے والی فلم ’’بیلی‘‘ میں پہلی بار آئے تھے، صبیحہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ فلموں کی خاتونِ اوّل ہیں، جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز پاکستان ہی سے کیا۔ موسیقار غلام حیدر بھارت سے پاکستان شفٹ ہوئے۔ ملکہ پکھراج بمبئی سے نقل مکانی کر کے آئیں اور لاہور کے پردھان اسٹوڈیو کو اپنے نام پر الاٹ کرانے میں کام یاب ہو گئیں۔ انہوں نے اس کا نام ملکہ اسٹوڈیو رکھ دیا۔ سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی درپن نے ’’عشرت‘‘ کے نام سے فلم ’’امانت‘‘ میں گلشن آرا کے مقابل پہلی بار ہیرو کے کردار میں آئے۔

سن 1950ء میں کل 13فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں دو آنسو اور ایس گل کی ’’بے قرار‘‘ کام یاب رہیں۔ 1951ء میں کل 8فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ’’چن وے‘‘ اور ’’بلو‘‘ پنجابی میں بنی۔ شوکت حسین رضوی انڈیا سے لاہور آئے اور پھر انہوں نے پنجابی فلم ’’چن وے‘‘ میں نورجہاں کو ہیروئن کاسٹ کیا۔ ’’چن وے‘‘ کے سوا باقی تمام فلمیں ناکام رہیں۔ ’’چن وے‘‘ شاہ نور میں بنی تھی۔ 1952ء میں کل سات فلمیں ریلیز ہوئیں۔ صرف ہدایت کار سبطین فضلی کی ’’دوپٹہ‘‘ آل ٹائم ہٹ فلم ثابت ہوئی، جس میں نورجہاں، اجے کمار اور سدھیر نے اہم کردار ادا کیے۔ فیروز نظامی نے چن وے کے بعد ایک بار پھر اعلیٰ دھنوں کو تخلیق کیا۔ اس فلم نے لاہور اور کراچی کے علاوہ بھارت کے کئی شہروں میں کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ 1953میں کل دس فلموں کی نمائش ہوئیں۔

عنایت حسین بھٹی نے پنجابی فلم ’’شہری بابو‘‘ سے بہ طور اداکار اور گلوکار اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ ہدایت کار لقمان نے پہلی کاسٹیوم فلم ’’محبوبہ‘‘ بنائی، جس میں شمی اور سنتوش کمار نے لیڈنگ رولز کیے۔ ہدایت کار امتیاز علی تاج کی کلاسیکل فلم ’’گلنار‘‘ بھی اس سال ریلیز ہوئی۔ 1954میں 7فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں انور کمال کی گمنام، ہدایت کار دائود چاند کی سسی، کام یاب رہیں۔ باقی فلمیں کام یابی حاصل نہیں کر پائیں۔ جے سی آنند کی سسی، پہلی اردو سولو سلور جوبلی فلم قرار پائی۔ صبیحہ اور سدھیر اس فلم کے مرکزی کرداروں میں تھے۔ ہدایت کار اشفاق ملک کی اردو فلم ’’پرواز‘‘ سے اداکار یوسف خان نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس سال مرکزی وزارت تجارت نے ایک نوٹس جاری کیا، جس کے تحت 56بھارتی فلمیں درآمد ہونی تھیں۔ اس نوٹس کے جاری ہوتے ہی پوری فلمی صنعت سراپا احتجاج ہو گئی تھی، لیکن حکومت نے اپنا نوٹس واپس لینے سے انکار کر دیا۔ بھارتی فلم ’’جال‘‘ اس دوران مغربی پاکستان میں نمائش کے لیے لائی گئی۔ فلمی صنعت نے اس فلم کی نمائش پر احتجاج کرتے ہوئے تحریک چلائی۔ اسے جال ایجی ٹیشن کا نام دیا گیا۔ اس ایجی ٹیشن کی پاداش میں فلمی صنعت کی نامور شخصیات ڈبلیو زیڈ احمد، شوکت حسین رضوی، نورجہاں، سنتوش کمار، سدھیر، اشفاق ملک، شمی، صبیحہ کے علاوہ معروف صحافی محمد علی شمسی اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ اس موقع پر فلمی شخصیات کی گرفتاریاں بھی ہوئیں۔

سن 1955میں فلم سازی کی رفتار پچھلے تمام برسوں سے تیز رہی۔ اس سال ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 19تھی۔ مسرت نذیر، نیّر سلطانہ اور اسلم پرویز نے اس سال ریلیز ہونے والی کام یاب فلم ’’قاتل‘‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس سال عیدالفطر کے موقع پر سوہنی، پتن اور نوکر ریلیز ہوئیں۔’’نوکر‘‘ پہلی پاکستانی فلم تھی،جس نے شان دار گولڈن جوبلی منائی۔ اس فلم کو کراچی کے ایروز سینما میں اداکار وحید مراد کے والد نثار مراد نے پاکستان فلمز کے توسط سے ریلیز کی تھی۔ پتن میں پہلی بار مسرت نذیر سنتوش کمار کے مدِ مقابل ہیروئن جلوہ گر ہوئیں۔ اس فلم نے بھی شان دار بزنس کیا ، اس کے ہدایت کار لقمان تھے۔ شباب کیرانوی نے بہ طور فلم ساز اس سال پہلی فلم ’’جلن‘‘ بنائی۔ ایورنیو اسٹوڈیو لاہور کا افتتاح پنجابی فلم ’’پتن‘‘ سے اس سال ہوا تھا۔ لاہور کے بعد کراچی میں اس سال باقاعدہ فلم سازی کا آغاز ہوا۔ کراچی میں بننے والی پہلی فلم ’’ہماری زبان‘‘ 24؍مئی عیدالفطر کے دن کراچی کے سابق سینما ناز میں ریلیز ہوئی۔ کراچی میں پہلا باقاعدہ نگارخانہ ایسٹرن اسٹوڈیو منگھو پیر روڈ پر بنایا گیا اور یہاں پر فلموں کی پروڈکشن شروع ہو گئی۔ کراچی میں بننے والی پہلی پنجابی فلم ’’ہیر‘‘ کو جے سی آنند نے بنائی، جس کے ہدایت کار، اداکار نذیر تھے۔ قاتل، نوکر، پتن، ہیر اور پاٹے خان اس سال کی کام یاب ترین فلمیں قرار پائیں۔

سن 1956 بھی فلم سازی کے لیے بڑا سازگارثابت ہوا۔ اردو کی31فلمیں ریلیز ہوئیں۔ 7پنجابی فلموں کے ساتھ پہلی سندھی فلم ’’عمر ماروی‘‘ سنیما گھروں کی زینت بنی۔ اس سال ریلیز ہونے والی پہلی فلم دُلا بھٹی نے کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔انگریزی فلم جیولیس سنیٹورنیا کا چربہ پہلی بار انوکھی کے نام سے بنایا گیا،جس میں بھارتی اداکارہ شیلا رومانی نے ہیروئن کا کردار کیا۔ لہری نے اس فلم سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔ پاکستان کی پہلی رومانی کلاسیکل فلم انتظار اس سال عیدالفطر کے موقع پر پورے پاکستان میں ریلیز ہوئی اور شان دار کام یابی حاصل کی، اس فلم میں سنتو کمار نے ڈبل رول کیا تھا۔ نور جہاں اس فلم کی ہیروئن تھیں، انتظار کے ساتھ ریلیز ہونی والی چھوٹی بیگم اور پینگاں (پنجابی) بھی کام یاب فلمیں تھیں۔ اس سال عید الضحیٰ کے موقع پر اداکار اکمل کی فلم جبرو ریلیز ہوئی۔ اردو فلم ’’باغی‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی ۔ سدھیر کو اس فلم سے جنگجو ہیرو کا خطاب ملا۔ مسرت نذیر اس فلم کی ہیروئن اور اشفاق ملک ہدایت کار تھے۔

پہلی پاکستانی فلم تھی، جسے ڈب کرکے چین میں ریلیز کیا گیا۔ کراچی میں بننے والی فلم مِس 56سے دیبا نے بطور چائلڈ اسٹار اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔ انور کمال پاشا نے اپنی پنجابی فلم چن ماہی سے ایک نئی ہیروئن بہار کو متعارف کروایا اور اسلم پرویز نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔1957 میں ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 27تھی۔ 16اردو اور 11پنجابی فلموں میں، آس پاس، یکے والی (پنجابی) ، عشق لیلےٰ، وعدہ، ٹھنڈی سڑک، مراد، سات لاکھ، سردار، نور اسلام اور بیداری کام یاب رہیں۔ اداکارہ نیلو نے ماہی منڈا، دلا بھٹی اور صابرہ میں ایکسٹرا رول کیے تھے۔ پہلی بار ہدایت کار جعفر ملک کی فلم سات لاکھ میں ایک نمایاں کردار میں نظر آئیں۔ نیلو پر فلمایا ہوا گیت ’’آئے موسم رنگیلے سہانے‘‘ ان کی پہچان بن گیا۔کمال کی پہلی فلم ’’ٹھنڈی سڑک‘‘ بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔ ممتاز صحافی علی سفیان آفاقی نے اس فلم کی کہانی سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔ ماضی کی لیلےٰ نے فلم وعدہ سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔ باری ملک کی ’’یکے والی‘‘ نے کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس فلم کی آمدنی سے باری اسٹوڈیو کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔ اس سال پہلی بار معروف فلمی صحافی الیاس رشیدی نے نگار ایوارڈ کا اجرا کیا۔ 1957کی فلموں کو مختلف شعبوں میں ایوارڈز دیے گئے۔ نگار ایوارڈ کی پہلی تقریب اس سال 17جولائی کو لاہور کے ایورنیو اسٹوڈیو میں ہوئی۔ سات لاکھ،بہترین فلم قرار پائی۔ رفیق رضوی کی پہلی فلم بہ طور ہدایت کار بیداری اسی سال ریلیز ہوئی۔ رتن کمار نے اس فلم میں بہ طور چائلد اسٹار ڈبل رول کیا۔ ہمایوں مرزا کی بڑا آدمی کراچی میں بننے والی کام یاب فلم تھی۔ 1958میں 23اردو، 7پنجابی اور تین سندھی فلموں کی نمائش ہوئی۔ مزاحیہ اداکار آصف جاہ کی پنجابی فلم ’’شیخ چلی‘‘ کام یاب رہی۔ چُھومنتر، جٹی، مکھڑا، کام یاب پنجابی فلمیں رہیں۔ اردو فلموں میں حسرت، بھروسہ، آدمی اور آخری نشان کام یاب رہیں۔

1959میں ریلیز ہونے والی اردو فلموں کی تعداد 25، پنجابی کی 11اور بنگالی فلموں کی تعداد 3رہی۔ فیصلہ، راز، ناگن، اپنا پرایا، نیند، ساتھی،، جُھومر اور کوئل سال کی کام یاب فلمیں قرار پائیں۔ پنجابی فلم ناجی اور کرتارسنگھ ،وغیرہ کام یاب رہیں۔ انقلابی سوچ کے حامل ہدایت کار خلیل قیصر نے بہ طور ہدایت کار پہلی فلم یار بیلی بنائی جو پنجابی زبان میں تھی، ان کی دوسری فلم ناگن جو اس سال عید الضحیٰ کے موقع پر ریلیز ہوئی، بے حد کام یاب رہی۔

اس سال فیض احمد فیض اور اے جے کاردار کی آرٹ فلم ’’جاگو ہوا سویرا‘‘ ریلیز ہوئی۔1960 میں ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد گزشتہ برسوں سے زیادہ رہی، اس سال 40 فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنی۔ مقبول اردو فلموں میں انصاف، بھابھی، گلبدن، ہمسفر، سلطنت، ڈاکو کی لڑکی، اور سہیلی شامل تھی۔ہدایت کار ایس ایم یوسف بھارت سے پاکستان آئے اور فلم سہیلی کی ڈائریکشن دی۔

1961میں اردو ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 30رہی ، پنجابی اور بنگالی فلموں کی تعداد 4رہی تھی۔ فلم ساز کہانی نویس شباب کیرانوی نے بہ طور ہدایت کار اپنے کیرئیر کا آغاز اپنی فلم ثریا سے کیا، جس کی کام یابی نے پہلی بار انہیں خُوب شہرت دی۔ 1962میں کل 39فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں 30اردو، 4پنجابی اور 5بنگالی فلمیں تھیں۔ جاگو ہوا سویراکے بعد ڈھاکا میں پہلی بار کمرشل فلم چندا بنائی گئی ۔ جس میں سلطانہ زمان نے ٹائیٹل رول کیا۔ شبنم اور رحمن اس فلم کے ہیرو ہیروئن تھے۔ چندا میں پہلی بار بطور موسیقار روبن گھوش متعارف ہوئے۔ اس فلم کے ہدایت کار احتشام تھے۔ خلیل قیصر کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم ’’شہید‘‘ میں ریاض شاہد کے مکالمے، مسرت نذیر، طالش اور علاو الدین کی کردار نگاری نے اُسے یادگار بنادیا۔ فضل کریم فضلی کی ایک بامقصد اور خوب صورت فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ ریلیز ہوئی۔ جس میں محمد علی اور زیبا نے پہلی بار اداکاری سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔

محمد علی اس فلم میں ولن بنے تھے۔ میرا کیا قصور، موسیقار، اولاد، مہتاب، بنجارن، گھونگھٹ، آنچل، اس سال کی کام یاب اردو فلمیں ثابت ہوئیں۔ پنجابی فلموں کی معروف اداکار نغمہ نے 1960میں پنجابی فلم رانی خان میں مختصر کردار سے فنی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔ 1962میں مظفر طاہر کی پنجابی چوہدری میں اکمل کے مدِمقابل ہیروئن کا کردار کیا۔ چوہدری اس سال کی واحد کام یاب پنجابی فلم تھی۔ ریاض شاہد نے اس سال فلم سازی کا آغاز کرتے ہوئے اپنی ذاتی فلم سسرال بنائی۔ یہ ایک خوب صورت اور منفرد کہانی پر مبنی فلم تھی ، فلم کی ہدایت کار وہ خود ہی تھے۔ لیلےٰ ، یوسف خان، علاوالدین اور نگہت سلطانہ نے اس فلم میں اہم کردار ادا کیے تھے۔ گھریلو مسائل پر سسرال کے علاوہ شباب کیرانوی کی مہتاب بھی ایک بے حد اعلیٰ معیار کی فلم تھی، جس نے کراچی کے اوڈین سنیما پر شاندار گولڈن جوبلی منائی تھی۔ اس فلم میں علاو الدین نے گول گپے بیچنے والا کا عوامی کردار کیا تھا۔ احمد رشدی کا گایا ہوا گیت ’’گول گپے والا آیا گول گپے لایا‘‘ اس قدر مقبول ہوا کہ اس کی مقبولیت میں آج تک کوئی کمی نہیں آئی۔ اس عوامی گیت کے خالق حزیں قادری اور منظور اشرف موسیقار تھے۔ انور کمال پاشا نے اس سال اپنی فلم محبوب میں اداکارہ رانی کو متعارف کروایا۔ بمبئی سے اداکار ادیب پاکستان آئے اور اقبال یوسف کی فلم دال میں کالا سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔ اسی فلم کے دوران بہار اور اقبال یوسف کا معاشقہ میاں بیوی کے ر شتے میں بندھ گیا۔ معروف اداکارہ عالیہ نے بطور چائلڈ اسٹار بے بی چوہدری کے نام سے پنجابی فلم رشتہ سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔

سن1963اس سال 48فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں 40اردو، 6پنجابی اور 2بنگالی فلمیں شامل تھیں عشق پر زور نہیں، موج میلہ (پنجابی)، ماں کے آنسو، شکوہ، تلاش، جب سے دیکھا تمہیں، چوڑیاں (پنجابی)، تیس مار خان (پنجابی)، کالا پانی، دامن ، چاچا خامخواہ (پنجابی) اس سال کی کام یاب فلمیں تھیں۔ بھارت سے آئے ہوئے ہدایت کار ، فلم ساز اور شاعر نخشب جارچوی نے فلم فانوس کو بڑے بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ بنائی، مگر فلم ناکام ہوگئی۔ عید الضحیٰ کے دن اس سال سابقہ مشرقی پاکستان کی فلم تلاش نے کام یابی حاصل کی ۔ اس سال بطور ہیرو محمد علی کی پہلی فلم شرارت ریلیز ہوئی، جس کے ہدایت کار رفیق رضوی تھے۔ بہار اور لیلےٰ نے ان کے مد مقابل ہیروئنز کے کردار کیے تھے۔ یہ فلم ناکام رہی۔ بطور ہیرو ان کی دوسری فلم مسٹر ایکس بھی اس سال کام یابی حاصل نہ کرپائی۔ ناصرہ اس فلم کی ہیروئن تھیں اداکار درپن کی ذاتی فلم تانگے والا میں رنگین گانوں کا تجربہ کیا گیا، اس کے باوجود فلم ناکام رہی۔ حیدر چوہدری کا نام بطور ہدایت کار پہلی بار پنجابی فلم تیس مار خان کے ٹائیٹل پر آیا۔ شیریں کی یہ پہلی فلم تھی۔ زیبا نے اس سال پہلی اور آخری مرتبہ ایک پنجابی فلم مہندی والے ہتھ میں ہیروئن کا کردار کیا۔ فلم کے ہدایت کار ایس سلیمان تھے۔ اس فلم کا چربہ ایورنیو پکچرز نے ’’نکی جئی ہاں‘‘ بنائی۔ مہندی والے ہتھ ناکام رہی، مگر اس کی ری میک ’’نکئی جئی ہاں ‘‘کام یاب رہی ۔

1964 ، فلم سازی کا کام پچھلے تمام برسوں سے آگے رہا۔ کل 68فلمیں ریلیز ہوئیں ،جس میں قومی زبان کی54 پنجابی کی 12اور 2بنگالی فلمیں شامل تھیں۔اس سال عید الفطر کے موقع پر خاندان، ڈاچی (پنجابی) ماماجی (پنجابی) باپ کا باپ، توبہ، اورچھوٹی امی ریلیز ہوئیں۔ ’’خاندان‘‘ اور توبہ سپرہٹ رہیں۔ پنجابی فلم ڈاچی کام یاب رہی، فلم خاندان میں پہلی بار بہار نے ینگ ٹو اولڈ کردار کیا۔ حبیب اور محمد علی کی ماں کا کردار کیا تھا، جب کہ اکمل نے بہار کے خاوند اور ان دونوں کے پاب کا یادگار کردار کیا تھا۔ زیبا کی پہلی کام یاب جوڑی کمال کے ساتھ بنی۔ سابق مشرقی پاکستان میں پہلی کلر فلم سنگم بنائی گئی، جو بے حد پسند کی گئی۔ ظہیر ریحان اس فلم کی ہدایت کار تھے، عید الضحیٰ کے موقع پر یہ فلم گہرا داغ کے ساتھ ریلیز ہوئی۔ گہرا داغ اپنے دور کی ایک کام یاب فلم قرار پائی محمد علی کو اسٹار بنانے والی یادگار خاموش رہو، اس سال کی ایک منفرد فلم ثابت ہوئی، جس کے ہدایت کار جمیل اختر تھے۔ اپنے دور کے معروف مزاحیہ اداکار نذر کی بطور ہیرو پہلی اور آخری فلم انسپکٹر اس سال ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے ڈبل رول کیا تھا۔ اسے بعد میں بھارت میں ڈان کے نام سے بنایا گیا، جس میں امیتابھ بچن نے ڈبل رول کیا تھا۔اس سال کی کام یاب فلموں میں شکریہ، بیٹی، پیغام، آشیانہ، میرا ماہی (پنجابی) ، ولایت پاس (پنجابی)، ہتھ جوڑی (پنجابی)، ایک دل دو دیوانے، ملن، ہیرا اور پتھر، فرنگی کے نام شامل تھے۔ وحید مراد نے اپنی ذاتی فلم ہیرا اور پتھر، میں پہلی بار زیبا کے مقابل ہیرو کا کردار کیا۔ پرویز ملک کی بطور ہدایت کار پہلی فلم تھی، محمد علی اور زیبا کی بطور ہیرو ہیروئن پہلی فلم ہیڈ کانسٹبل اس سال ریلیز ہوئی، جس کے ہدایت کار نذیر صوفی تھے۔

1965، پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سال تھا، جب بزدل پڑوسی ملک بھارت نے وطن عزیز پر شب خون مارتے ہوئے رات کی تاریکی میں حملہ کردیا اور پھر ایک ایسی جنگشروع ہوئی۔ پاک فوج کے جوانوں کےساتھ جہاں ساری قوم سر بہ کفن اس جنگ میں شامل تھی، وہاں ہمارے فن کاروں نے بھی اس جنگ میں اپنا تاریخی کردار ادا کیا۔ اس سال ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 61تھی، جس میں 38فلمیں اردو، 12فلمیں پنجابی اور 11فلمیں بنگلہ زبان کی شامل تھیں۔ایسا بھی ہوتا ہے، ڈولی (پنجابی)، عشقِ حبیب، رواج، پھنے خان (پنجابی)، کنیز، ہزار داستان، نائیلہ، جی دار (پنجابی)، آخری اسٹیشن، زمین کام یاب ہوئیں۔ معروف ہدایت کار نذر الاسلام کی بہ طور ہدایت کار پہلی اردو فلم کاجل ڈھاکا اور کراچی میں کام یاب رہی، جب کہ لاہور میں یہ فلم ناکام رہی۔ بہار نے وحید مراد کے مقابل فلم ڈاکٹر میں ہیروئن کا کردار کیا اور یہ ناکام ترین فلم تھی۔ ڈھاکا میں بننے والی پہلی سینما اسکوپ فلم بہانہ اس سال ریلیز ہوئی۔ ڈھاکا میں بننے والی دوسری کلر فلم ساگر بھی اس سال ریلیز ہوئی تھی۔ ایورنیو پکچرز کی مغربی پاکستان میں بننے والی پہلی مکمل اوریجنل کلر فلم نائیلہ اس سال کی بلا بسٹر فلم ثابت ہوئی، جس کے نغمات آج بھی سدا بہار ہیں۔ موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور گلوکارہ مالا کے سنگم سے یہ نغمات تخلیق ہوئے۔ شریف نیر ہدایت کار تھے۔ شمیم آرا، سنتوش اور درپن نے مرکزی کردار ادا کیے۔ اداکارہ رانی کی پہلی کام یاب فلم ہزار داستان کے بعد ان کا شمار پاکستان کی صف اول کی ہیروئنز میں ہونے لگا۔ پہلی پلاٹینم پنجابی فلم جی دار اس سال ریلیز ہوئی۔ شبنم کی ناقابل فراموش کردار نگاری سے آراستہ ’’ آخری اسٹیشن‘‘ اس سال کی ایک یادگار کام یاب فلم ثابت ہوئی۔ 5نومبر کو اس سال ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ملنگی نے بھی کامیابیوں کے ریکارڈ قائم کیے۔ اردو اور پنجابی فلموں کی مقبول اداکارہ سلونی کی پہلی فلم ایسا بھی ہوتا تھی، جو اس سال ریلیز ہوئی۔

سن1966 میں فلموں کی تعداد گزشتہ تمام ریلیز شدہ فلموں سے زیادہ 83تھی، 65کی جنگ کے بعد مکمل طور پر بھارتی فلموں پر پابندی لگنے سے ملکی فلمی صنعت نے فلم سازی کے کام کو کافی حوصلہ دیا۔ 52اردو ، 21پنجابی اور 10بنگالی فلموں کی نمائش اس سال کی گئی۔ فلم ساز و اداکار وحید مراد کی ذاتی فلم ارمان، وہ پہلی اردو فلم تھی جس نے اس سال پلاٹینم جوبلی منانے کا اعزاز حاصل کیا۔ پشتو فلموں کے پہلے سپر اسٹار بدر منیر اور عوامی اداکار نعمت سرحدی نے اسی فلم سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا۔ یہ دونوں اس فلم میں کیمرے ڈیپارٹمنٹ میں ٹرالی آپریٹر کے طور پر شامل ہوئے۔ بھارت میں ہدایت کار اعظم کا خطاب پانے والے محبوب خان کے بھائی ایم آر خان پاکستان آئے اور انہوں نے الہلال کے نام سے ایک شاندار کاسٹیوم بنائی، جس نے کراچی اور ڈھاکا میں کام یابی حاصل کی۔ قبیلہ، ہمراہی، آزادی یا موت، آگ کا دریا، کون کسی کا، سوال ، جاگ اٹھا انسان، مجبور، عادل، بھریا میلہ، باغی سردار، ہم دونوں، لاڈو ، مالا ، جوکر، بدنام، نغمہ صحرا، لوری، ابا جی۔ پائل کی جھنکار، بھیا، آئینہ ، اس سال ریلیز ہونے والی کام یاب فلمیں ثابت ہوئیں۔ بطور فلم ساز محمد علی کی پہلی فلم عادل نے شان دار کام یابی حاصل کی۔

سن1967میں 53اردو، 17پنجابی اور 4بنگالی فلمیں ریلیز ہوئیں۔اس سال ایک نئے ہیرو ندیم نے فلم چکوری سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ڈھاکا سے کیا۔ چکوری سب سے زیادہ چلنے والی پہلی اردو فلم تھی۔ جس نے 83ہفتے چل کر پلاٹینم جوبلی بنائی۔ مسرت نذیر کی بہ طور اداکارہ آخری فلم بہادر بھی اسی سال ریلیز ہوئی۔ نادرہ ، انسانیت، یار مار، نواب سراج الدولہ، دل دا جانی ، چاچا جی ، لاکھوں میں ایک، دیور بھابھی، احسان، اکبرا ، پھر صبح ہوگی، درشن ، جانی دشمن، چھوٹے صاحب، آگ، مرزا جٹ، کام یاب فلمیں تھیں۔ پاکستان میں بننے والی پہلی ہارر فلم زندہ لاش اداکار حبیب اور ان کے بہنوئی عبدالباقی صاحب نے بنائی۔ مایہ ناز کریکٹر ایکٹر ریحان نے اس میں ڈریکولہ کا یاد گار کردار ادا کیا تھا۔ یورپی ممالک میں شوٹنگ پر مبنی پہلی فلم ’’رشتہ ہے پیار کا‘‘ اس سال ریلیز ہوئی، جس میں زیبا اور وحید مراد نے مرکزی کردار کیے تھے۔ علی زیب کی پروڈکشن میں بننے والی پہلی فلم آگ نے اس سال گولڈن جوبلی منائی۔ پنجابی فلم مرزا جٹ کی کام یابی نے فردوس اور اعجاز کی جوڑی کو شہرت دی۔ باری اسٹوڈیو میں پہلی شوٹنگ زندہ لاش کی ہوئی۔

سن 1968میں پہلی بار تین ہندسوں پر مشتمل 117فلمیں ریلیز ہوئیں۔ 62اردو، 29پنجابی، 1سندھی اور 25بنگالی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ معروف فوٹو گرافر اسلم ڈار نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی اردو فلم دارا بنائی۔ ندیم کی مغربی پاکستان کی پہلی فلم سنگدل نے شان دار گولڈن جوبلی منائی۔محل، چاند اور چاندنی، دل میرا دھڑکن تیری، پگڑی سنبھال جٹا، بہن بھائی، شریک حیات، بدلہ ، دل دیا درد لیا، سسی پنوں، شہرو فیروز (سندھی)، صاعقہ، میرا گھر میری جنت، سجن پیارا سال کی کام یاب ثابت ہوئیں۔ پنجابی فلموں کے معروف اداکار اقبال حسن کی بطور ہیرو پہلی فلم سسی پنوں ریلیز ہوکر کام یاب رہی۔ سندھی فلموں کی پروڈکشن شہرو فیروز کی کام یابی سے دوبارہ شروع ہوئی۔ مشتاق چنگیزی، چکوری اور مہہ پارہ جیسے فن کار متعارف ہوئے۔ شبنم، اداکار وحید مراد کی دعوت پر ان کی ذاتی فلم سمندر کے لیے آئیں۔ ہدایت کار حسن طارق نے فلم بہن بھائی میں پہلی بار اپنے وقت کی بڑی کاسٹ کو شامل کیا۔ 1969میں نمائش ہونے والی فلموں کی تعداد 113 رہی جس میں 54اردو، 36پنجابی ، 1سندھی اور 22بنگالی فلمیں شامل تھیں۔ ترقی پسند صحافی احمد بشیر (بشری انصاری کے والد) نے فلم نیلا پربت بنائی، جو نفسیات کے موضوع پر تھی۔ تم ملے پیار ملا، سالگرہ، نئی لیلےٰ نیا مجنوں، چن ویر ، بزدل، گھر داماد، دیا اور طوفان، زندگی کتنی حسین ہے، دلاں دے سودے، بہو رانی، دل بے تاب، اناڑی، عندلیب، جند جان، عشق نہ پچھے ذات، مکھڑا چن درگا، تیرے عشق نچایا، شیراں دے پتر شیر، پاک دامن، قول و قرار ، زرقا، ویر پیارا، گھبروپت پنجاب دے، جینٹرمین ، چانڈوکی (سندھی)، دلا حیدری، بہاریں پھر بھی آئیں گی، کوچوان، اور سزا اس سال کی کام یاب فلمیں تھیں۔

کنگ آف کامیڈی رنگیلا نے بطور فلم ساز ، ہدایت کار، اپنی پہلی فلم دیا اور طوفان ریلیز کی، جس نے کراچی اور لاہور میں بہ یک وقت گولڈن جوبلیاں منائیں۔ اعجاز، نغمہ، رانی اس فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔ رنگیلا کا گایا ہوا گانا ’’گا میرے منوا گاتا جائے‘‘ اس فلم کا سدا بہار نغمہ ثابت ہوا۔ ریاض شاہد پروڈکشن کی شہرئہ آفاق فلم زرقا اس سال 17اکتوبر کو کراچی کے سابق سینما اوڈین میں ریلیز ہوئی اور پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم کا اعزاز حاصل کیا۔ نیلو نے اپنی زندگی کا ناقابل فراموش کردار کیا۔ فلم ساز ہدایت کار رحمن نے اپنی فلم کنگن میں پہلی بار سنگیتا کو اپنے مدِمقابل ہیروئن لیا۔ 1970یہ فلمی صنعت کے گولڈن ائیر کا ایک بے حد کام یاب سال رہا۔ جب پہلی بار پشتو اور گجراتی زبان میں فلم بنائی گئی۔

اس سال ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد 142رہی، جو گزشتہ تمام سالوں سے زیادہ تھی۔ 54اردو ، 49پنجابی، ایک پشتو، ایک گجراتی، چار سندھی، اور 33بنگالی فلمیں نمائش کے لیے پیش کی گئیں۔ ہدایت کار اقبال شہزاد نے اپنی فلم بازی میں نئی اداکارہ نشو کو محمد علی اور ندیم کے مقابل ہیروئن متعارف کروایا۔ معروف ہدایت کار اقبال کاشمیری نے بطور ہدایت کار پہلی فلم ٹیکسی ڈرائیور پنجابی میں بنائی۔ اعجاز درانی نے ہیر رانجھا بنائی۔ فردوس اور اعجاز نے ہیر رانجھا کے کتابی اور افسانوی کرداروں کو اپنے فن اداکاری سے زندہ جاوید کردیا۔ مسعود پرویز اس کے ہدایت کار تھے۔ محمد علی اور زیبا کی پہلی رنگین فلم نجمہ اس سال ریلیز ہوئی۔ کراچی میں پہلی بار پشتو فلم یوسف خان شیر بانو بنی ۔ بدر منیر اور یاسمین خان نے اس فلم میں رومانی کردار ادا کیے۔

1971میں پاکستان کے سیاسی و جغرافیائی حالات میں ایک بھونچال آیا۔ وطن عزیز دولخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہمارا سرکٹ محدود ہو کر رہ گیا۔ 82فلمیں ریلیز ہوئیں، 34اردو، 37پنجابی، 5پشتو، 3سندھی اور3بنگالی فلمیں نمائش کے لیے پیش ہوئیں۔ بنگالی فلموں کی ریلیز آخری بار ہوئی۔ بابرہ شریف کی بڑی بہن فاخرہ شریف نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ’’انصاف اور قانون‘‘ سے کیا۔ یوسف خان کے کیریئر کی ایک ناقابل فراموش تاریخی فلم ’’غرناطہ‘‘ اس سال ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ہدایت کار ریاض شاہد تھے۔ معروف اداکارہ آسیہ نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز اسی فلم سے کیا تھا۔ اقبال کشمیری کی پنجابی فلم ’’بابل‘‘ میں پہلی بار سلطان راہی نے جبرو بدمعاش کا یادگار کردار کیا۔ ممتاز نے اپنے کیریئر کی شروعات فلم ’’سلام محبت‘‘ سے کی۔ اس سے پہلے وہ پنجابی فلم ’’کوچوان‘‘ میں ایکسٹرا کا کردار کر چکی تھیں۔ معروف ٹی وی کمپیئر اور اداکار ضیاء محی الدین کو اسلم ڈار نے اپنی فلم ’’مجرم کون‘‘ میں روزینہ کے مقابل ہیرو لیا، جو ناکام رہی۔ تہذیب نے کام یابی حاصل کی۔ یہ بطور ہیرو شاہد کی پہلی فلم تھی۔ اردو فلموں کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے اپنی پہلی پنجابی فلم ’’مستانہ ماہی‘‘ بنائی۔ 1972ء:اس سال مجموعی طور پر86فلمیں ریلیز ہوئیں، 39اردو، 41پنجابی، 5پشتو اور ایک سندھی فلم شامل تھی۔ ہدایت کار اسلم ڈار نے پنجابی فلم ’’بشیرا‘‘ میں سلطان راہی کو پہلی بار ٹائٹل رول میں کاسٹ کیا۔ معروف صحافی الیاس رشیدی نے اپنی فلم ’’احساس‘‘ کے لیے پہلی بار ہدایت کار نذرالاسلام کا انتخاب کیا۔ اداکارہ رانی کے کیریئر کی شہرہ آفاق کلاسیکل فلم ’’امرائو جان ادا‘‘ اس سال ریلیز ہوئی۔ مرزا ہادی رسوا کے ناول کے کردار کو رانی نے اپنی اداکاری سے زندگی کی سانسیں دے کر امر کر دیا۔

سن 1973ء: اس سال45اردو، 42پنجابی، 6پشتو اور دو سندھی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ شمیم آرا کی ذاتی فلم ’’فرض‘‘ میں ممتاز کو پہلی بار ہیروئن کے کردار میں کاسٹ کیا۔ اس سال اداکار شاہد کی فلم ’’انمول‘‘ نے بھی شان دار ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ ’’بنارسی ٹھگ‘‘ کی کام یابی کے بعد منور ظریف جب تک زندہ رہے زیادہ تر ہیرو کے کردار کرتے رہے۔ رنگیلا کے ساتھ ان کی جوڑی بے حد کام یاب رہی۔

سن 1974ء:اس سال ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد113رہی، 49اردو، 52پنجابی، 8پشتو، 3سندھی اور ایک گجراتی فلم شامل تھی۔ پہلی بار اردو فلموں کے مقابل پنجابی فلموں کی تعداد زیادہ رہی۔ بابرہ شریف نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز شمیم آرا کی فلم ’’بھول‘‘ سے کیا۔ موجودہ دور کے معروف اداکار، فلم ساز، ہدایت کار جاوید شیخ اسی سال فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے۔ ان کی پہلی فلم دھماکہ ریلیز ہوئی، شبنم نے ان کے مقابلہ ہیروئن کا کردار کیا تھا۔ جاوید اقبال کے نام سے وہ اس فلم میں آئے تھے۔

سن 1975ء میں اردو فلموں کے مقابلے میں پنجابی فلموں کی تعداد زیادہ رہی۔ (51) پنجابی،(46) اردو، چھ پشتو، پانچ سندھی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ اس سال ریلیز ہونے والی چند پنجابی فلموں میں سنسر کی آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ فلم سازوں نے قابل اعتراض مناظر سے بھرپور فلمیں بنائیں۔ اس سال فلم ساز و ہدایت کار شباب کیرانوی نے اپنی بلاک بسٹر فلم میرا نام ہے محبت میں پہلی بار اداکارہ بابرہ شریف کو ہیروئن اور غلام محی الدین کو ہیرو لیا۔ 1976ء اس سال نمائش پذیر ہونے والی فلموں کی تعداد 107 تھی، جس میں چھیالیس (46) قومی زبان، پچپن (55) پنجابی، تین پشتو اور دو سندھی اور ایک انگریزی فلم شامل تھی۔داوٗد بٹ نے بہ طور ہدایت کار پہلی فلم جیلر تے قیدی بنائی۔

سن 1977ء : اس سال (41) اردو، پنجابی کی(33) پانچ پشتو اور ایک سندھی فلم کو ملاکر کل 80 فلمیں ریلیز ہوئیں۔ ہدایت کار نذر الاسلام کی رومانی فلم آئینہ اس سال 18 مارچ کو ریلیز ہوئی۔ اس فلم نے کراچی کے بمبینو سینما میں (47) ہفتے کام یاب بزس کیا۔ 1978ء اس سال کل (96) فلمیں ریلیز ہوئیں، جن میں (47) اردو، (41) پنجابی اور سات پشتو کی فلمیں شامل تھیں، مارشل لا کے بعد ضیا دور میں فلمی صنعت پر بہت برا وقت آیا، جس کی وجہ سے قومی زبان کی فلمیں کم سے کم ہوتی گئیں، اس کی جگہ علاقائی فلمیں زیادہ بننے لگیں۔1979ء میں ریلیز ہونے والی فلموں کی تعداد اٹھانوے تھی۔ (42) اردو، (45) پنجابی۔ آٹھ پشتو اور تین سندھی فلمیں سینمائوں کی زینت بنیں۔ فلمیں رہیں۔ انجمن نے اپنے کیریئر کی شروعات اس سال ریلیز ہنے والی فلم ’’وعدے کی زنجیر‘‘ سے کیا فلم ساز سرور بھٹی نے مولا جٹ کے نام سے ایک ایسی پنجابی فلم بنائی، جس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ کر کے کامیابی اور بزنس کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ مولا جٹ کا کردار سلطان راہی کے فنی کیریئر میں بشیرا کے بعد ایک بہت اہم ثابت ہوا۔ مصطفےٰ قریشی نے نوری نت کے ناقابل فراموش کردار کو نہایت عمدگی سے نبھایا۔ لاہور کے شبستان سینما میں یہ فلم مسلسل چار سال تک چلتی رہی۔ یہ ریکارڈ آج تک کوئی اور فلم بریک نہ کرپائی۔

شمیم آرا پروڈکشن کی مس ہانگ کانگ نے ڈائمنڈ جوبلی منائی۔ بابرہ شریف نے اس فلم میں ڈبل رول کیا۔ 1980ء : اس سال ریلیز شدہ فلموں کی تعداد میں خاصی کمی آگئی۔ صرف (58) رہی جس میں (26) اردو۔ (23) پنجابی اور نو پشتو فلمیں ریلیز ہوسکیں۔ 1981ء سے 1990ء کے درمیان ریلیز ہونے والی کام یاب اردو فلموں میں منزل، لاجواب، بڑا آدمی، دل نے پھر یاد کیا، قربانی، کالا دھندا گورے لوگ، کرن اور کلی، یہ زمانہ اور ہے، خوب صورت، میاں بیوی راضی، سنگدل، ایک دن بہو کا، نصیب، آنگن، تیرے بن کیا جینا، بیوی ہو تو ایسی، مہربانی، ذرا سی بات، دہلیز، اک دوجے کے لیے، لو اسٹوری، دیوانگی، کبھی الوداع نہ کہنا، نادانی، ٹینا، گمنام، ایسا بھی ہوتا ہے، شکاری، شادی مگر آدھی، دُوریاں، نام میرا بدنام، مِس کولمبو، بسیرا، کامیابی، بوبی، لازوال، تیرے گھر کے سامنے، ہم سے ہے زمانہ، کرائے کے گوریلے، ہل چل، ہانگ کانگ کے شعلے، مس سنگاپور، جینے نہیں دوں گی، خون اور پانی، دیوانے دو، زمین آسمان، ڈائریکٹ حوالدار، زنجیر، روبی، بنکاک کے چور، حساب، ہم ایک ہیں، قاتل کی تلاش، باغی قیدی، مِس بنکاک، فیصلہ، کندن، چوروں کی بارات، منیلا کی بجلیاں، ہمت والا، لو ان لندن، میرا انصاف، چوروں کا بادشاہ، ہنگامہ، حسینہ 420، بازار حسن، غریبوں کا بادشاہ، شانی، طاقت کا طوفان، روپ کی رانی، میڈم باوری، انسانیت کے دشمن، بلندی کے نام شامل تھے۔پنجابی اور پشتو کی چند کام یاب فلموں میں انوکھا داج ، مسٹر افلاطون، خبردہ عزت دا ،داغ(پشتو)، شیر خان، سالا صاحب، چن وریام، جٹ دا ویر ،ڈگز دا میدان (پشتو)، رستم، سلطان تے وریام، دو بیگھ زمین، اکبر دادا (پشتو)، نوکرتے مالک، میدان،حیدر سلطان، شان، نمگڑے ارمان (پشتو)، چڑھدا سورج، ودھئی دا سوال اے، بنگڑی اوہتھکڑی (پشتو)، دلاں دے سودے، رکشہ والا (پشتو) صاحب جی، چکرباز (پشتو)، راکا ، قدرت، سونا چاندی، رستم تے خان ، دارا بلوچ، کالیا، بالا گاڈی، شعلے، کمانڈر ، باغی، لیونئی (پشتو)، باز شہباز، کلیار، راجا رانی ، عشق نچاوے گلی گلی ، جمرود خان (پشتو)، نکاح، چوڑیاں،دھی رانی، بابر خان ، قسمت ، جانو ڈھاریل (سندھی) خوددار، جگا مہندی، جلال چانڈیو (سندھی)، ہلاکو تے خان، وڈیرا، قلی، چن تے سورما، قیدی، چن بہادر، چڑھدا طوفان، اکبر خان، پتر شاہئے دا ، بھابھی دیاں چوڑیاں، سہاگن،پیدا گیر (پشتو) دادا گجر، قیمت، ملنگا، میلہ ، ڈولی تے ہتھکڑی، سنگل، جابر خان، راجپوت ، ڈسکو ڈانسر ، فقیریا، نوکر (پشتو)، اللہ رکھا، دلاری، مالکا، ناچے ناگن، سخی داتا تحفہ، مکھڑا، شیرنی، روٹی ، خانہ بدوش (پشتو)، مطلبی دنیا (پشتو)، قاتل حسینہ میڈم باوری، کالکا ، بلاول، رکھوالا ، اچھو 302 ، بدمعاش نہ منم (پشتو) ناگن جوگی ، امیر خان، مزدور ، تیس مار خان، ہوشیار ، گوری دیاں جھانجراں، گورنر، سلطانہ، جیلر ، پتر جگے دا، شادمانی چوراں دی رانی، نگینہ کے نام شامل تھے۔1981ء میں فلم سازوں کی رجسٹریشن کی وجہ سے بہت سے غیر پیشہ ورانہ فلم ساز فلمیں بنانے لگے۔ اس سال سرکاری سطح پر نیشنل ایوارڈ کا اجراء ایک خوش کن عمل تھا، مگر یہ بھی پابندی سے جاری نہ رہا۔ کو پروڈکشن، نیپال، سری لنکا، بنگلہ دیش کے ساتھ کی گئی، جو زیادہ سود مند ثابت نہ ہوئی۔ اس تمام عرصے میں کئی نئے چہرے فلمی صنعت میں متعارف ہوئے، ان میں وسیم عباس، نیلی، نادرہ، راحیلہ آغا، شہناز، شاہدہ منی، گوری، عارفہ صدیقی، سلمیٰ آغا، ستارہ، شہباز اکمل، سونیا، شکیلہ قریشی، اظہار قاضی، اسمعیل شاہ، ثمینہ پیرزادہ، سنیتا خان، عمر شریف، نادرہ، نیلی، خوشبو (چائلڈ اسٹار) کنول، راشد محمود، گلاب چانڈیو، عجب گل، صائمہ، مدیحہ شاہ، ریما اور شان کے نام قابل ذکر ہیں۔ اداکارہ صائمہ نے اکرم خان کی فلم خطرناک، مدیحہ شاہ نے راجہ، ریما اور شان نے بلندی سے اپنے اپنے فنی کیریئر کا آغاز کر کے بڑی شہرت پائی۔

سن1991ء سے 2017ء ؍ اگست تک 26 سال کے عرصہ میں فلم سازی کا کام بے حد سخت روی کا شکار رہا۔ کئی سینئر فن کار، ہدایت کار، موسیقار، کہانی نویس، دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ڈائریکشن کے شعبے میں سوائے چند ناموں کے ہمارے پاس اب کوئی ایسا ڈائریکٹر نہیں ہے، جو فلم کے تمام شعبوں پر دسترس رکھتا ہوں۔ سینیئرز ڈائریکٹر نے اپنے بعد کوئی ایسی لائن تیار نہیں کی جو ان کے کام اور نام کو زندہ رکھتی۔ اس دور میں اردو فلمیں بہت کم بنیں، زیادہ تر پنجابی اور پشتو فلمیں بنیں۔ ملک بھر میں سینما ہائوسز بڑی تیزی سے رہائشی اپارٹمنٹ اور شاپنگ سینٹرز میں تبدیل ہوتے گئے۔ ڈبل ورژن کی اصطلاح بھی اسی دور میں سامنے آئی۔ اردو فلم کے زوال کے بعد ڈبل ورژن نے اصل پنجابی فلم دیکھنے والوں کو بھی مایوس کیا۔ چربہ کہانیاں لکھنے والے رائٹر ہدایت کار بن گئے، جنہوں نے ٹھکیداری نظام کے تحت فلمیں بنانا شروع کیں، جس نے فلمی صنعت سے پروفیشنل ازم ختم کردیا۔

سن 1991ء سے 2000ء تک ریلیز ہونے والی چند قابل ذکر فلموں کی تفصیل یوں رہی۔ کالے چور، ناگ دیوتا، عالمی جاسوس، ضد، وطن کے رکھوالے، چراغ بالی، نگاہیں، بختاور، درندگی، آندھی، ماجھو، چاہت، آج کا دور، گناہ، مسٹر چارلی، انسانیت، جنت، ہاتھی میرے ساتھی، خاندان، گجر بادشاہ، بت شکن، بالا پیرے دا، جیوا، مشکل، منڈا بگڑا جائے، میڈم رانی، جو ڈر گیا وہ مر گیا، چور مچائے شور، چیف صاحب، ہوائیں، گھونگھٹ، سرگم، کھلونا، دل کسی کا دوست نہیں، دیوانے تیرے پیار کے، انصاف ہو تو ایسا، نکاح، چوڑیاں، ڈاکو رانی، سنگم، چاند بابو، نکی جئی ہاں، جنت کی تلاش، نوکر، گھر کب آئو گے، مجھے چاند چاہیے، مہندی والے ہتھ، تیرے پیار میں، جب کہ پشتو فلموں میں شیرے بدمعاش، جلات خان، شیر افگن، خپل حکومت ڈونیو سیلاب، نمگڑے دنیا، مطلب آشنا، شیطانو جنج، سری خور، دلربا ڈاکو، عجب خان اوربل شپہ، آزاری، غلام، خاندانی بدمعاش، جشن کے نام قابل ذکر تھے۔1995ء میں ہدایت کارہ شمیم آرا کی منڈا بگڑا جائے کی شان دار کام یابی اردو فلموں کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوئی۔ سید نور فلمی کہانیاں اور اسکرپٹ لکھتے لکھتے ڈائریکشن میں آگئے، ان کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم جیوا کی کام یابی کے بعد وہ کام یاب ڈائریکٹر تسلیم کیے گئے۔

سن 1995ء سے 2000ء کے درمیان اردو فلموں کا ایک کام یاب دور شروع ہوا تھا، جب ہر دوسرا فلم ساز اردو فلم بنانے ک ترجیح دینے لگا۔ اسی دوران سید نور کی ڈائریکشن میں 1998ء میں پنجابی فلم ’’چوڑیاں‘‘بنی۔ اس فلم کی غیر معمولی کام یابی نے فلم سازوں کو دوبارہ پنجابی فلمیں بنانے کی طرف راغب کیا۔ پنجابی فلم 1996ء میں سلطان راہی کے انتقال کے بعد زوال پزیر ہوگئیں تھیں۔ ’’چوڑیاں‘‘ نے پنجابی سینما کو دوسری زندگی دی۔ سلطان راہی کی جگہ شان کو صائمہ کے مقابل کاسٹ کیا جانے لگا۔ شان نہ تو سلطان راہی بن سکا اور نہ ہی اردو فلموں والا شان رہا۔ روٹین کی فلموں نے ان کی ساکھ کو بے حد متاثر کیا۔ پشتو فلموں کا اپنا ایک رنگ تھا، جو اداکار شاہد خان کے آنے کے بعد تبدیل ہوا۔ اچھی، ایکشن، رومانی فلمیں ایک بار پھر بننا شروع ہوئیں۔ شاہد خان کے بعد ارباز خان نے بھی موجودہ پشتو سینما کو اپنی عمدہ اداکاری سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان26 برسوں میں کئی نئے اداکار متعارف ہوئے، جن میں بابر علی، ریشم، جان ریمبو، صاحبہ، زارا شیخ، میرا، نرگس، سعود، روبی نیازی، نازو، دلبر منیر، شاہد خان، ارباز خان، ہمایوں سعید، ثناء، زیبا بختیار، عتیقہ اوڈھو، جیا علی، وینا ملک، نرما، نور، لیلیٰ، جہانگیر خان، صبا شاہین، معمر رانا کے نام قابل ذکر ہیں۔

سن2001ء میں اداکار عجب گل نے ایک اعلیٰ معیار کی اردو فلم کھوئے ہوئے تم کہاں بنائی، جو بے حد کام یاب رہی۔ اس فلم میں عاصمہ لتا کی آواز میں کئی گیت مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ اداکار اور ہدایت کار جاوید شیخ نے ایک بین لاقوامی معیار کی فلم ’’یہ دل آپ کا ہوا‘‘ بنائی جو 2002ء میں ریلیز ہوئی۔ یہ فلم بلاک بسٹر ثابت ہوئی، خاص طور پر اس فلم کے نغمات بے حد سپرہٹ ہوئے۔ 70ء کی دہائی کی یاد تازہ ہوگئی، شیر لاہور، جگا ٹیکس، دادا بدمعاش، اک گجر سو بدمعاش، شیر پاکستان، رقاصہ، بڈھا گجر، لاہوری غنڈہ، گجر 302، کالو شاہ پوریا نامی فلموں نے پنجابی سینما سے سنجیدہ فلم بینوں کو دور کردیا، وہ پنجابی فلمیں جنہیں فیملیز دیکھنے آتی تھیں۔ ان فلموں کی وجہ سے پنجابی سینما کی ساکھ بے حد متاثر ہوئی۔

سن2007ء میں کراچی ٹی وی سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت شعیب منصور نے بڑی خاموشی سے ایک ایسی خوب صورت منفرد موضوعاتی فلم ’’خدا کے لیے‘‘ بناکر ساری دنیا کو حیران کردیا۔ ’’خدا کے لیے‘‘ سے پاکستان کی فلمی صنعت کا احیاء ہوا۔ اس فلم نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں کامیابیاں سمیٹی، شان نے اس فلم میں یادگار اور متاثرکن اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ اداکار فواد خان بھی متعارف ہوئے۔اس فلم کی کام یابی نے کراچی میں فلم سازی کے رجحان کو فروغ دیا، ٹی وی کے کئی چینل فلم کی پروڈکشن بھی ساتھ ساتھ کرنے لگے۔ جدید فلم تیکنیک کا آغاز اس فلم سے شروع ہوچکا تھا اور جو آج اپنے عروج پر ہے۔

جدید فلم کے ساتھ سینما کے اسکرین بھی نئی جدت کے ساتھ سنی پلیکس، نیو پلیکس، سائن پلیکس، سائن اسٹار، ملٹی پلیکس، سائن گولڈ کی جدت کے ساتھ فلمی اسکرین سینمائوں کا دور اب شروع ہوچکا ہے۔ بھائی لوگ، لو میں گم، وار، میں ہوں شاہد آفریدی، جوانی پھر نہیں آنی، نامعلوم افراد، رانگ نمبر، ایکٹر ان لاء، مالک، یلغار اور زیب النساء وی لب یو، جدید ٹیکنیک پر مبنی فلمیں بنائی گئیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ فلم کو فلم کے فارمیٹ کی طرح بنایا جائے۔ سیاہ، دختر، جوش اور جیون ہاتھی جیسی فلمیں بنانے سے اجتناب کیا جائے۔ ایک کام یاب کمرشل فلم ہی سینما اسکرین کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ نئے لوگ جو فلم سازی کر رہے ہیں، انہیں اپنے سینیئر ہدایت کار اور دیگر ٹیکنشنز کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نئے چہروں کے ساتھ سینیئر فن کاروں کو بھی اپنی فلموں میں کردار نگاری کا موقع دینے سے فلم کے حسن اور اہمیت میں اضافہ ہوگا۔

سن1981ء سے 2017 ء تک 36 (چھتیس سالہ) فلمی دور کا مختصر جائزہ اور تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس عرصے میں اس صنعت پر کئی نشیب و فراز اور طوفان آئے۔ 1981ء سے 1990ء تک یہ صنعت ان طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ڈٹی رہی۔ لاہور میں نگار خانے اس مشکل حالات میں کام کررہے تھے۔ فلم سازی کا کام چل رہا تھا۔

سن2007ء میں سینما انڈسٹری کو بچانے کے لیے بھارتی فلموں کی باقاعدہ نمائش کا آغاز ہوا، جس سے بچے کچے سینما ہائوسز دوبارہ چلنے لگے۔ فلمی صنعت کے لوگوں نے ان فلموں کی نمائش پر کافی شور مچایا، احتجاج کیا، مگر ان فلموں کی نمائش بند نہ ہوسکی، اب یہ صورتِ حال ہے کہ پاکستانی فلم کے لیے ان سینما ہائوسز میں شو کے لیے کوئی ٹائم نہ تھا۔

بھارتی فلمیں کو تمام شوز دیے جارہے تھے۔ ان حالات میں شعیب منصور نے ’’خدا کے لیے‘‘ کے بعد فلم بول بنائی، جس نے بین الاقوامی سطح پر پاکستانی سینما کی ساکھ بحال کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس فلم میں عاطف اسلم اور ماہرہ خان کو بے حد پسند کیا گیا۔

تازہ ترین