• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا اجمالی جائزہ‎....پہلا حصہ

70 Years Of Old Political History Of Pakistan Part 1

14اگست ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ وقت گزرتار ہےگا اور 14اگست کا دن ہماری قومی زندگی میں بار بار آتا رہے گا، اسی طرح وہ تحریک بھی زندہ و پائندہ تابناک اور ضوفشاں رہے گی، جس کا آغاز بر صغیر پاک و ہند میں اس احساس کے ساتھ ہوا کہ مسلمان یہاں ایک مختلف قوم کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہیں اپنی قومی انفرادیت ، اپنی حیثیت اور معاشرت، علوم و فنون ،تہذیب اور اس کی اقدار کی ارتقا کے لیے ایک الگ ریاست قائم کرنی ہوگی۔ 14اگست 1947کو ریاست پاکستان ظہور میں آگئی۔ قرار داد پاکستان کی منظوری سے قیام پاکستان کے اعلان تک صرف سات سال کا عرصہ اس بات کا شاہد ہے کہ ، جو قوم اپنے مقصد پر یقین رکھتی ہے، اپنی صفوں کو آہنی دیوار کی طرح استوار کرتی ہےاور اپنے قائد کی فراست پہ کامل یقین کے ساتھ قدم آگے بڑھاتی ہے۔

اس کے لیے کوئی راستہ دشوار اور کوئی منزل دور نہیں ہوتی ۔آزادی کا یہ دن ایک منزل نہیں صرف نشان منزل ہے۔ بر صغیر کے مسلمانوں نے بے پایاں قربانیوں کے نتیجے میں ایک ملک تو حاصل کرلیا، لیکن اصل مقصد تو اس کے بعد آتا ہے، یعنی ایک ایسے معاشرے کا قیام ، جو دین داری، روشن خیالی، علم، فن، تہذیب، معاشرت اور معیشت کے اعتبار سے دوسرے ملکوں کے لیے ایک مثال ہو، آخر یہی تو مقصد تھا، جس کے حصول کی خاطر ہم نے ایک الگ ملک کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد تقریباً چوتھائی صدی کا عرصہ ہم نے ضائع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کا نصف حصہ گنوا بیٹھے۔ اب ان باتوں کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں البتہ ماضی کی غلطیوں سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے ۔

ہمارے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ ملک میں آئین اور جمہوریت کے اصولوں کو کسی حد تک مستحکم بنا دیا گیا۔ ملک کی اقتصادی حالت پے در پے حادثوں کے باوجود اب پہلے سے کہیں بہتر ہے، گرچہ ہمارے روایتی دشمن آج بھی وہی ہیں ، جو کل تھے لیکن ان کے مقابلے میں دوستوں کی تعداد کرۂ ارض پر ایک سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ہے اور ان کے ساتھ ہمارے دوستانہ مراسم اور باہمی لین دین میں برابر اضافہ ہو رہا ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم قومی اتحاد کی بہ دولت تمام دشواریوں پر قابو پالیں گے اور مسلسل محنت کی بہ دولت اس معاشرے کی تشکیل میں کام یاب ہوں گے ، جس کی خاطر پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔

قائد اپنی غیر معمولی فراست اور عظمت کردار سے ٹوٹی پھوٹی کشتی کو ساحل مراد تک لانے میں کام یاب رہے۔ ہمیں آزادی حاصل کیے 70 سال ہونے کو آئے ہیں اور آج یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ہم نے آزادی کے کتنے بنیادی تقاضے پورے کیے ہیں اور نئے تقاضوں کا ہمیں کتنا شعور ہے۔

دوسری اقوام کے مقابلے میں ہماری آزادی کے تقاضے کسی قدر مختلف ہیں۔ ہمیں اس تاریخی تسلسل کا بھی اہتمام کرنا ہوگا، جو ملت اسلامیہ کے تصور سے وابستہ چلا آرہا ہے۔آج ہم حالات کے جس بھنور میں ہچکولے کھا رہے ہیں، اس کا بڑا سبب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی کھینچا تانی اور جمہوری رواداری کا شدید فقدان ہے۔ بداعتمادی کی فضا میں شکوک و شبہات خطرات کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔پاکستان کی تشکیل کا بنیادی مقصد عوام کا معیار زندگی بلند کرنا اور انہیں ہر سطح پر باوقار بنانا تھا۔ قائداعظم نے 1942ء میں فرمایا تھا کہ، میری جدوجہد جاگیرداری کے خاتمے، اقتصادی اور تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لیے ہے۔ وہ اپنی ہر تقریر میں معاشرتی انصاف کی اہمیت اجاگر کرتے ، مساوات، حریت اور اخوت کو معاشرے کے بنیادی اجزا قرار دیتے تھے۔ انہوں نے شدید نقاہت کی حالت میں اسٹیٹ بینک کی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’پاکستان میں ایک ایسا اقتصادی نظام فروغ پائے گا ،جو شہریوں کی فلاح و بہبود اور خوش حالی کے یکساں مواقع فراہم کرے گا۔ معاشرتی اور معاشی ناہم واریاں بتدریج دور ہوجائیں گی ،محروم اور پس ماندہ طبقوں کا ملکی وسائل پر سب سے زیادہ حق ہوگا۔‘‘

70 برس قبل ہم بکھرے ہوئے اور کم زور تھے، ہم نےنئے سفر کا آغاز کیا اور کافی حد تک آگئے گئے لیکن مختلف وجوہ کی وجہ سے ہم بحرانوں کا شکار رہے، ہمارے قدم مسلسل لڑکھڑاتے رہے اور اب تک لڑکھڑا رہے ہیں۔ آئیے ہم سب مل کر دعا کریں کہ اے پاک پروردگار، تو ہمیں متحد کردے، ہمیں حوصلہ دے، ہمیں دنیا بھر میں سر اٹھا کے چلنے کے قابل بنا دے۔آمین۔

آج جب ہم قیام پاکستان اور برطانیہ سے آزادی کی سترویں سال گرہ منا رہے ہیں تو موزوں لگتا ہے ایک نظر اپنے ماضی پر ڈالی جائے اور دیکھا جائے کہ اس عرصے میں کیا کچھ کیا ہے، گوکہ ہماری حالیہ تاریخ اتنی قابل فخر نہیں کہ اس کے ساتھ ہم دنیا میں سر اٹھا کر کھڑے ہو سکیں، لیکن اتنی اہم ضرور ہے کہ اس کا نئی نسل کو ضرور پتا ہونا چاہئے۔ اس مضمون میں کوشش کی جارہی ہے کہ مختصراً ستر سال کو چند صفحات میں سمیٹ دیا جائے۔

جب پاکستان بنا تو اس میں رہنے والے ایک عام انسان کے خواب یہ تھے کہ اس میں ایک فلاحی ریاست کی تمام خوبیاں موجود ہوں گی، صحت اور تعلیم کی سہولتیں مفت اور اعلٰی درجے کی ہوں گی، فراہمی اور نکاسی آب کا بھرپور انتظام ہوگا، توانائی کے ذرائع مہیا کئے جائیں گے، سڑکوں کے جال بچھائے جائیں گے، لوگ اپنے گلی محلوں اور اپنے گھروں میں محفوظ ہوں گے ،طرز حکم رانی منصفانہ ہوگا اور انصاف کی فراہمی ہر ایک کو ہوگی۔

اگر عام آدمی کے یہ خواب تھے تو دیگر طبقات کے خواب خاصے مختلف تھے۔ مثلاً اس خطے میں رہنے والے زمین داروں اور جاگیر داروں کے خواب یہ تھے کہ کسی قسم کی زرعی اصلاحات نہ ہوں اور اگر ہوں بھی تو انہیں ناکام بنادیا جائے، کیوں کہ متحدہ ہندوستان میں کانگریس اعلان کرچکی تھی کہ فوری زرعی اصلاحات نافذ کی جائیں گی، یعنی بڑے بڑے زمین داروں اور جاگیر داروں سے ان کی زمینیں چھین کر تقسیم کی جائیں گی اور زیادہ سے زیادہ زمین رکھنے پر حکومتی پابندی ہوگی۔اسی طرح نوزائیدہ پاکستان میں رہنے والے اور آنے والے زیادہ سرمایہ داروں کے خواب یہ تھے کہ انہیں بھارت کے زیادہ تر غیر مسلم سرمایہ داروں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا، پاکستان کی معیشت اور صنعت اب مسلمان سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کی مرہون منت ہوں گی، جس میں وہ بلاشرکت سرمایہ کاری کریں گے اور خوب منافع کمائیں گے۔
اُس وقت کی مسلمان سول اور فوجی افسر شاہی کے خواب یہ تھے کہ اب انہیں سرکاری عہدوں کے لیے غیرمسلموں سے مقابلہ نہیں کرنا پڑے گا، وہ اعلٰی ترین عہدوں پر بڑی آسانی سے پہنچ جایا کریں گے اور ایسا ہوا بھی۔ مثلاً جنرل ایوب خان کبھی بھی متحدہ ہندوستان میں آرمی چیف نہیں بن سکتے تھے اور نہ خود کو فیلڈ مارشل کا عہدے دے پاتے اور شاید نہ ہی خود کو ملک کا صدر بنا سکتے تھے۔ یہ سب اسی لیے ممکن ہوا کہ یہاں سول اور فوجی افسر شاہی نے اپنے ان سب خوابوں کی تعبیر حاصل کی، جو شاید وہ متحدہ ہندوستان میں بھی حاصل نہ کر پا سکتے۔

اسی طرح مذہبی رہنمائوں کے یہ خواب تھے کہ وہ پاکستان میں ایک تھیوکریسی یا ملائیت کا راج لے آئیں گے، جہاں پر ان کے مذہب اور فرقے کو مکمل بالادستی ہوگی اور معاشرے کے ہر شعبے میں فرقہ واریت کو گھسا کر لوگوں کی عام زندگی کو بھی فرقوں کے تابع کردیا جائے گا۔اسی طرح سیاست دانوں کے یہ خواب تھے کہ سیاست پر غیر مسلم مخالفین کا سامنا نہ کرنا پڑے، خاص طور پر جو پہلی دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی تھی، اس کی کوشش یہ تھی کہ دستور ہی نہ بن پائے، کیوں کہ نیا آئین بننے کے بعد پہلی دستور ساز اسمبلی کو خود تحلیل ہوجانا تھا اور اسمبلی کے اکثر ارکان کو خطرہ تھا کہ نئے دستور کے تحت نئے انتخاب میں شاید وہ جیت نہیں پائیں گے، اس لیے آئین سازی کا عمل طویل سے طویل تر کیا جاتا رہا۔اس سارے عمل میں جو عام آدمی کے خواب تھے، وہ پورے نہ ہوسکے، البتہ باقی سب نے اپنے اپنے خوابوں کی تعبیر بڑی حد تک حاصل کرلی۔ عوام کو صحت اور تعلیم کی کی سہولتیں تو نہ مل سکیں، لیکن جاگیر دار اور زمین دار بدستور اپنی جاگیروں پر قائم رہے۔ فراہمی اور نکاسی آب کی سہولتیں تو پسماندہ رہیں، لیکن سرمایہ دار قرضے لے کرخوب کھاتے اور اپنی صنعتوں کا فضلہ آبی وسائل میں ڈال کر عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتے رہے۔

بجلی کی سہولتوں کے لیے تو عوام ستر سال سے ترس رہے ہیں، لیکن سول اور فوجی افسر شاہی اپنے لیے خوش حالی کے جزیرے ضرور قائم کرتی رہی۔ اسی طرح عوام کو دیہی علاقوں تک سڑکوں کی سہولتیں تو حاصل نہ ہوسکیں، حتیٰ کہ شہروں میں بھی سڑکوں کی حالت بہت خراب رہی اور اب تک ہے۔

سو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ کیسے ہوا کہ عوام کے خواب تو دھرے کے دھرے رہ گئے اور باقی سارے طبقات اپنے مفادات بھرپور طریقے سے حاصل کرتے رہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ قیام پاکستان کے بعد جو کام سب سے پہلے کرنے تھے، ان سے رو گردانی کی جاتی رہی۔ مثلاً آئین سازی سب سے پہلا مرحلہ تھا، کیوں کہ آئین ہی ملک کو ایک مضبوط سیاسی بنیاد فراہم کرسکتا تھا، مگر تقریباً تمام سیاسی رہنما اس کوشش میں لگے رہے کہ آئین نہ بن پائے۔جمہوری روایات کی بیخ کنی آزادی کے پہلے سال میں ہی شروع کردی گئی۔ صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت کو شروع میں ہی برخاست کردیا گیا اور کوشش کی جاتی رہی کہ مسلم لیگ کے علاوہ اور کوئی سیاسی جماعت قائم نہ رہ پائے۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کے تنازعات دیگر مقامی رہنمائوں سے ابھر کرسامنے آتے رہے۔

لیاقت علی خان کا حلقہ انتخاب پاکستان میں نہیں تھا اور بہت سے مقامی رہنما انہیں مہاجر سمجھ کر ان کے راستے میں روڑے اٹکا رہے تھے اور خود لیاقت علی خان ایسے قدم اٹھاتے رہے کہ جس سے ان کی مخالفت میں اضافہ ہوا، اس کے علاوہ قرارداد مقاصد کی صورت ایک ایسی دستاویز قوم پر مسلط کردی گئی، جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔اس قرارداد کی پاکستان کے غیرمسلم باشندوں، خاص طور پر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے شدید مخالفت کی۔ پاکستان کے پہلے وزیر قانون، جو گندر ناتھ منڈل ایک ہندو تھے،جن کا انتخاب خود قائد اعظم نے کیا تھا۔ اُنہوں نے قرارداد مقاصد کو ایک ایسی دستاویز قرار دیا، جس کی وجہ سے پاکستان مذہبی بنیاد پرست اور فرقہ وارایت کی راہ پر چل نکلے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد وزیر قانون منڈل بھی مایوس ہو کر پاکستان سے چلے گئے اور پاکستان میں مذہبی رواداری کے امکانات کم سے کم ہوتے چلے گئے۔

لیاقت علی خان کا چار سالہ دورِ حکومت سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا دور ثابت ہوا۔ کسی بھی صوبائی حکومت کو آزادی سے کام کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ مرکز ہر صوبائی معاملے میں مداخلت کرتا رہا۔ وزرائے اعلٰی کو بار بار برخاست کیا جاتا رہا اور ان پر بدعنوانی کے الزامات لگائے جاتے رہے۔ دستور سازی کے بنیادی عمل سے کوتاہی برتی جاتی رہی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کو اپنے پڑوسی ملکوں افغانستان، بھارت اور سوویت یونین سے دُور کرکے امریکا کی گود میں بٹھا دیا گیا۔

پاکستان میں امریکی مداخلت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ لیاقت علی خان کے دور میں ہی ترقی پسند اورسیکولر لوگوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا۔ راول پنڈی سازش کیس بناکر اعلیٰ پائے کے دانش وروں اور مزدور رہنمائوں کو قید کردیا گیا، جن میں فیض احمد فیض، سید سجاد ظہیر، حسن عابدی، ظفر اللہ پوشنی، میجر اسحاق محمد حسین عطاء اور دیگر کئی ترقی پسند دانش ور اور کارکن شامل تھے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک میں دائیں بازو کے فرقہ پرست رہنما اور بنیاد پرست تو کھل کرکھیلتے رہے اور اس کے مقابلے میں ایک ترقی پسند اور لبرل بیانیہ دے سکنے والے لوگوں کو کچل کر رکھ دیا گیا۔ یہ عمل آج تک جاری ہے جس کے نتیجے میں ملک کا معاشرتی تار و پود بکھر کر رہ گیاہے۔(جاری ہے )

تازہ ترین