گوجرانوالہ صنعتی و تجارتی شہر ضرور ہے سیالکوٹ اور وزیرآباد کی طرح ایکسپورٹ کوالٹی کی اشیاء تیار اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرتا ہے لیکن اس کی شہرت میں چار چاند پہلوانوں اور چڑوں نے لگا رکھے ہیں شائد گوجرانوالہ کی مصنوعات کی مقبولیت میں ان چڑوں کا کردار بھی ہو جو اندرون و بیرون ملک سے آئے خریداروں کی ضیافت طبع کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
کھانے پینے کے معاملے میں لہوریوں کا جواب نہیں اچھے سے اچھا پکوان یہاں تیار ہوتا ہے۔ دہلی کی نہاری، امرتسر کا ہریسہ، کشمیر کی شب دیگ اور کراچی کے بہاری کباب اب لاہور میں کھانوں کا حصہ ہیں، لہوریوں کی خوش خوراکی دیکھ کر ہی شائد کسی نے کہا تھا کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا مگر پیدائشی لاہور یئے بھی چڑوں کے تعاقب میں گوجرانوالہ جا نکلتے ہیں جو معمولی بات نہیں۔
گزشتہ روز لاہور اور راولپنڈی سے جو دانشور اور کالم نگار گوجرانوالہ پہنچے انہوں نے چڑوں کی تکا بوٹی کرنے کے بجائے میڈیا کی قومی ذمہ داریوں پر تبادلہ خیال کیا اور گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس کے علاوہ تھنکرز فورم کی تقریب میں صنعتکاروں، تاجروں، دانشوروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کا ثبوت تھی کہ انہیں چڑوں اور تکوں کے علاوہ دانشوروں اور کالم نگاروں سے بھی رغبت ہے، مولوی غلام رسول، مفتی جعفر حسین مجتہد، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، مولانا اسماعیل سلفی، حافظ محمد گوندلوی اور علامہ عزیز انصاری کے شہر میں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔
تھنکرز فورم کے اور چھور کا تو کسی کو علم نہیں لیکن اس کے روح رواں ڈی آئی جی گوجرانوالہ ذوالفقار چیمہ ہیں۔ وہی ذوالفقار چیمہ جس نے ڈی آئی جی کوہاٹ کے طور پر یہ مراسلہ جاری کیا تھا کہ کوئی پولیس افسر و اہلکار 2008ء کے انتخابات میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی اور مداخلت میں ملوث پایا گیا تو وہ کڑی سے کڑی سزا کا مستحق ہو گا۔ ننھو گورایہ اور دیگر بڑے اشتہاری مجرموں کی سرکوبی اور کرپٹ پولیس اہلکاروں و افسروں کو محکمہ سے رخصت کرنے کے بعد چیمہ صاحب نے تھنکرز فورم کی بنیاد ڈالی یا فورم پہلے سے موجود تھا مگر گوجرانوالہ پولیس کی شاندار کارکردگی سے متاثر ہو کر شہر کے تھنکرز نے اسے حوالہ پولیس کیا تاکہ سماج دشمن عناصر اس کی طرف میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکیں اس بارے میں راوی خاموش ہے البتہ فورم کی سرگرمیوں سے گوجرانوالہ کی شہرت پر خوشگوار اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
دوران تقریب ممتاز و منفرد کالم نگاروں عطاء الحق قاسمی، ہارون الرشید کے علاوہ چوہدری قدرت اللہ، عامر ہاشم خاکوانی، آصف بھلی اور اسلم اعوان نے میڈیا کی قومی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی اور اس بات پر اتفاق رائے نظر آیا کہ دیگر قومی اداروں کے مقابلے میں میڈیا کا کردار مثالی اور قابل تقلید رہا مگر تقریب کے بعد موضوع سخن راولپنڈی کے حلقہ این اے 55 کا ضمنی انتخاب تھا جس میں شیخ رشید کو زندگی کی دوسری اور کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
مانسہرہ کے ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کی شکست سے راولپنڈی کے حلقہ این اے 55 کا نتیجہ اخذ کرنے والوں کو شکیل اعوان کی فتح سے یقینا مایوسی ہوئی لیکن غیر جانبدار حلقوں کے لئے یہ نتیجہ خلاف توقع بالکل نہیں۔ پاکستان کے قابل نفرت کردار پرویز مشرف کی پانچ سال تک ہم نشینی و ہم نوائی، لال مسجد میں معصوم اور یتیم بچیوں پر فاسفورس بموں کی بارش کے دوران بلبل ہزار داستاں کی خاموشی اور اپنی جماعت و قیادت سے بے وفائی کے جو داغ دھبے شیخ صاحب کے سیاسی چہرے پر لگ چکے ہیں وہ ایسے نہیں کہ ضمنی الیکشن میں ووٹروں کے سامنے عرق آلود پیشانی اور آنسوؤں کی ایک آدھ برسات کے ساتھ دھل جائیں۔
عام تاثر یہی ہے اور ہمارے اکثر و بیشتر سیاست دان اسی تاثر کی بناء پر عہد شکنی اور بے وفائی کو معیوب نہیں سمجھتے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے لیکن اس الیکشن میں عوام نے کمزور یادداشت کا مظاہرہ نہیں کیا اور آئندہ بھی اس کی توقع یوں نہیں کہ کیمرے اور مائیک کے ٹانک نے عوام کی یادداشت کو حیرت انگیز حد تک تیز کر دیا ہے اور وہ اگلے الیکشن تک پرویز مشرف اور اس کی باقیات کا قرض چکاتے رہیں گے۔ قلم، کیمرے اور مائیک سے شیخ صاحب کی ناراضگی کی وجہ بھی یہی ہے
بعض دوستوں کا خیال تھا کہ ایسٹیبلشمنٹ کا ایک حصہ میاں صاحب سے ناراض ہے اور ان کو کٹ ٹو سائز کرنے کے لئے نہ صرف مانسہرہ میں مسلم لیگی امیدوار کو ہرایا گیا بلکہ اس کا ری ایکشن ری پلے راولپنڈی میں ہو سکتا ہے لیکن ضمنی انتخاب کا نتیجہ سامنے آیا تو واضح ہوا کہ ایسٹیبلشمنٹ جس چڑیا کا نام ہے وہ فی الحال کسی کی ہار اور جیت میں دلچسپی نہیں رکھتی ورنہ فرزند پاکستان کو ایک مسلم لیگی کارکن کے ہاتھوں ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا شیخ صاحب ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ”پنڈی والوں“ کے مزاج کو سمجھتے ہیں لیکن اس بار مزاج شناسی کا یہ ہنر بھی ان کے کام نہیں آیا۔
رینجرز کے سخت انتظامات اور میاں شہباز شریف کے بقول صدر آصف علی زرداری کے ٹکٹ کے باوجود شیخ صاحب کی طرف سے دھاندلی کا الزام اگرچہ ایک ہارے ہوئے سیاستدان کی طرف سے خفت مٹانے کی کوشش قرار پائے گی لیکن ہر ضمنی انتخاب میں الزام تراشی کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کے کردار، اختیار اور دائرہ کار کو مزید وسعت دے کر انتخابی عمل کو قابل اعتماد حد تک شفاف اور مضبوط بنایا جائے اتفاق سے آئینی اصلاحات کی کمیٹی ان دنوں اپنا کام نمٹا رہی ہے وہ جہاں پارلیمنٹ کے اختیارات، عدلیہ میں تقرر، تبادلوں اور صوبائی خود مختاری ایسے اہم معاملات پر قابل عمل تجاویز پیش کرے وہاں انتخابی عمل کو ہر طرح کے شکوک و شبہات سے پاک کرنے کے لئے بھی جامع طریقہ کار وضع کرے تاکہ آئندہ کوئی شخص ملک میں انتخابی عمل کی شفافیت اور الیکشن کمیشن کے علاوہ حکومت وقت کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے۔
شیخ صاحب نے مقابلہ تو خوب کیا مگر صرف شکیل اعوان یا میاں نواز شریف ہی ان کے مد مقابل نہیں تھے جامعہ حفصہ اور لال مسجد کی خاک میں پوشیدہ بجلیاں بھی ان کے سیاسی خرمن پر گرتی رہیں خدا جانے شیخ صاحب کو اس کا احساس ہے یا نہیں؟