ہمارے ملک کے سیاستدان بڑے فائدے کیلئے اکثر اوقات چھوٹا موٹا نقصان برداشت کر لیتے ہیں لیکن چھوٹے سے فائدے کیلئے بہت بڑا نقصان کرنے کا معرکہ صرف آصف علی زرداری ہی انجام دے سکتے ہیں۔ راولپنڈی کے حلقہ این اے 55 سے مسلم لیگ (ن) کو شکست دے کر وہ صرف نواز شریف کو نیچا دکھانا چاہتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں نواز شریف کی گردن میں سریا آ چکا تھا اور اس گردن کو جھکانے کیلئے انہوں نے شیخ رشید احمد کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ نجانے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے آصف علی زرداری کو یہ یقین دلا رکھا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ق) اور جمعیت علماء اسلام مولانا فضل الرحمن گروپ شیخ رشید احمد کی پشت پر اکھٹے ہو جائیں تو مسلم لیگ (ن) کو شکست ہو جائیگی۔ شیخ رشید احمد کی انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور کارکن تو نظر آتے رہے لیکن ووٹر نظر نہیں آ رہا تھا۔ ووٹر کو نکالنے کیلئے پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما عامر فدا پراچہ نے دن رات ایک کر دیا لیکن آصف علی زرداری کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ مسلم لیگ (ن) اپنی تمام تر کمزوریوں اور راولپنڈی میں اپنی خوفناک دھڑے بندیوں کے باوجود شکست سے دوچار نہ کی جا سکی اور شیخ رشید احمد کو راولپنڈی میں مسلسل تیسری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
عوام الناس اسے شیخ رشید احمد کی نہیں بلکہ آصف علی زرداری کی شکست سمجھتے ہیں آنے والا وقت بتائے گا کہ این اے 55 کے ضمنی الیکشن نے پیپلز پارٹی کو جتنا نقصان پہنچایا اتنا نقصان آصف علی زرداری اور عدلیہ کے درمیان تصادم سے بھی نہیں ہوا تھا۔ عدلیہ کے ساتھ تصادم میں پیپلز پارٹی کے حامی اپنی قیادت کے ساتھ کھڑے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ عدلیہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی قبر کا ٹرائل کر رہی ہے لیکن این اے 55 کی انتخابی مہم نے پیپلز پارٹی کے پرجوش حامیوں کے دل توڑ دیئے۔ ان کی پارٹی ایک ایسے شخص کی حمایت کر رہی تھی جو ان کی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتا رہا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کہتے ہیں کہ شیخ رشید احمد کو پیپلز پارٹی کے کم از کم 30ہزار ووٹ ملے لیکن یہ خاکسار ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ پیپلز پارٹی والوں کے ووٹ کم ملے۔ شیخ رشید احمد کو مسلم لیگ (ن) سے ناراض لوگوں کے زیادہ ووٹ ملے۔ شیخ رشید احمد کی حمایت ایک ایسی غلطی ہے جس کا خمیازہ پیپلز پارٹی کو آنے والے دنوں میں پارلیمینٹ کے اندر بھی بھگتنا پڑے گا۔ میں پیپلز پارٹی کے ایسے کئی ارکان پارلیمینٹ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی میں آصف علی زرداری کے ساتھ کھڑے تھے لیکن شیخ رشید احمد کی وجہ سے اب سخت بدظن دکھائی دیتے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے اندر شیخ رشید احمد کیلئے نفرت کی وجوہات سمجھنا کوئی مشکل نہیں لیکن اگر آپ مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق)، جے یو آئی، اے این پی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے سیاسی کارکنوں سے بات کریں تو وہ بھی شیخ صاحب کے بارے میں مثبت باتیں نہیں کریں گے کیونکہ 2002ء کے بعد شیخ رشید صاحب نے اپنی سیاسی وفاداریاں بار بار تبدیل کیں۔ شیخ رشید احمد دراصل ایک فرد نہیں بلکہ طرز فکر کا نام ہے۔ شیخ صاحب کا تعلق غریب طبقے سے تھا لیکن انہوں نے محنت اور ذہانت کے ذریعہ بڑا آدمی بننے کی بجائے امیر آدمی بننے کی کوشش کی اور سیاست کو پیسے کمانے کا طریقہ بنا لیا۔ شیخ رشید احمد کی شخصیت کا مطالعہ اس طرز فکر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے جو نظام کی تبدیلی کا نعرہ لگا کر سیاست میں آتے ہیں لیکن اپنا طبقہ تبدیل کر کے انقلاب کو بھول جاتے ہیں۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک دفعہ شیخ رشید صاحب نے قومی اسمبلی میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بارے میں انتہائی قابل اعتراض زبان استعمال کی تو نواز شریف سخت ناراض ہوئے۔ اس واقعے سے اگلے دن پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں چوہدری نثار علی خان نے شیخ صاحب پر سخت تنقید کی۔ شیخ صاحب بڑے دل برداشتہ ہوئے اور مجھے کہنے لگے کہ امیروں کے بیٹے میرے خلاف متحد ہوگئے ہیں میری مدد کرو۔ کچھ ہی دنوں میں شیخ صاحب پر ناجائز اسلحہ رکھنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا اور وہ گرفتار ہوگئے۔ ایک شام پنجاب کے گورنر چوہدری الطاف حسین کے ساتھ گپ شپ کے دوران ایک جج لطف علی ملک سے ملاقات ہوگئی جو دو دن بعد شیخ صاحب کو سزا سنانے والا تھا۔ یہ جج صاحب اپنا فیصلہ گورنر صاحب کو دکھانے لائے تھے۔ گورنر صاحب نے فیصلہ پڑھا اور جج صاحب واپس چلے گئے۔ میں نے گورنر صاحب سے کہا کہ یہ تو بڑی زیادتی ہے کہ آپ شیخ رشید احمد کو سات سال قید کی سزا دے رہے ہیں۔ گورنر صاحب نے گالی دے کر کہا کہ اس نے ہماری لیڈر کے بارے میں جو باتیں کیں اس پر تو قتل ہو جاتے ہیں ہم تو صرف اسے جیل بھیج رہے ہیں۔ اگلے دن میں اور عامر متین اڈیالہ جیل پہنچ گئے اور شیخ صاحب کو سارا قصہ بتا دیا۔ عدالت کا فیصلہ آنے میں ایک دن باقی تھا۔ شیخ صاحب نے اسی شام تمام اخبارات کو بیان جاری کر دیا کہ انہیں سات سال قید ہونے والی ہے۔ جیل میں انہوں نے ایک کتاب لکھی اور خود کو فرزند راولپنڈی سے ”فرزند پاکستان“ بنا لیا۔ اس کتاب میں انہوں نے میرا ذکر خیر بھی کیا۔ بہاولپور جیل میں ملاقات کے دوران انہوں نے مجھے کتاب دی تو اپنے آٹو گراف کے ساتھ تحریر فرمایا۔ ”محترم حامد میر صاحب کے نام! جن کے قلم کی کاٹ سے ہر ایوان میں زلزلہ طاری رہا اور جنہوں نے قلم کی عصمت کو کبھی داغدار نہیں ہونے دیا۔“
یہ کتاب آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ یہ الفاظ تحریر کرنے کے بعد موصوف دو مختلف حکومتوں میں وزیر بنے اور دونوں مرتبہ انہوں نے مجھ پر زلزلہ طاری کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن کی مدد سے کونسلر کا الیکشن جیتا۔ اپنی کتاب میں خود اعتراف کرتے ہیں کہ 1985ء میں غیرجماعتی الیکشن جیتنے کیلئے انہوں نے راولپنڈی میں جنرل ضیاء کے خلاف نعرہ لگایا لیکن آئی ایس آئی کے ذریعہ جنرل ضیاء سے رابطہ بھی رکھا۔ 1988ء کا الیکشن انہوں نے جنرل فضل حق کی مدد سے جیتا۔ اس کے بعد چار الیکشن نواز شریف کے نام پر جیتے۔ اپنی کتاب کے صفحہ 126 پر لکھا کہ شاید کبھی شہباز شریف تو نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دے لیکن شیخ رشید احمد کسی امتحان میں نواز شریف کا ساتھ نہیں چھوڑے گا۔ 1999ء میں نواز شریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد آئی ایس آئی کے ایک کرنل نے شیخ صاحب کو خاموش کر دیا اور 2002ء کے بعد شیخ صاحب مسلسل پانچ سال تک چہکتے رہے۔ ان پانچ سالوں میں انہوں نے نظام تبدیل کرنے کی بجائے اپنا طبقہ تبدیل کر لیا۔ این اے 55 کے ضمنی الیکشن میں انہوں نے اپنے طرز سیاست کو زندہ رکھنے کی آخری کوشش کی لیکن شاید وہ بھول گئے تھے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔ ووٹروں نے چند دن قبل مانسہرہ میں نواز شریف کے رشتہ داروں کو مسترد کر دیا اور این اے55 میں آصف علی زرداری کے نئے نئے رشتہ دار کو بھی مسترد کر دیا جس نے آج تک محترمہ بینظیر بھٹو کے بارے میں استعمال کی گئی زبان پر پیپلز پارٹی سے معافی نہیں مانگی۔ شیخ صاحب کی شکست دراصل آصف علی زرداری کے طرز سیاست کی شکست ہے اور شکست کے اصل نتائج جلد ہی سامنے آنے والے ہیں۔