• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدرممنون حسین نے یوم آزادی کے موقع پر اسلام آباد میں پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایسے وقت میں سیاسی قائدین پر زور دیا ہے کہ وہ باہمی اختلافات ختم کر کے قومی مفاد میں پاکستان کے آئین پر متحد و متفق ہو جائیں جب سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد ملک میں1973کے آئین خصوصاً اس کے آرٹیکلز62اور63میں ترمیم و تنسیخ پر بحث کا دروازہ کھل گیا ہے۔ مسلم لیگ ن ان شقوں کو آئین سے نکالنے یا ان میں ردوبدل کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی سمیت بیشتر اپوزیشن پارٹیاں حتیٰ کہ حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) نے بھی کھل کر اس کی مخالفت کی ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ آئین میں 18ویں ترمیم کے وقت ہم ان شقوں کو ختم کرنا چاہتے تھے مگر نواز شریف نے اس کی مخالفت کی کیونکہ وہ ان آرٹیکلز کو آصف زرداری کے خلاف استعمال کرنا چاہتے تھے۔ اب جبکہ خود پھنس گئے ہیں تو انہیں نکالنے کی بات کر رہے ہیں۔1973کا آئین پارلیمنٹ کا متفقہ دستور تھا اسے اس وقت کی حکومت اور اپوزیشن نے بڑی بحث و تمحیص کے بعد اتفاق رائے سے منظور کیا تھا۔ اس سے پہلے ملک کا پہلا آئین 1956 میں اس وقت کی پارلیمنٹ نے منظور کیا اور 23مارچ کو نافذ کیا تھا۔ اسی کی مناسبت سے ملک میں 23مارچ کو یوم جمہوریہ منایا جاتا ہے حالانکہ رائج الوقت آئین پارلیمنٹ نے10اپریل 1973کو منظور اور اسی سال 14اگست کو نافذ کیا ۔ بدقسمتی سے ہر آنے والا ڈکٹیٹر تمام اختیارات اپنی ذات میں مرتکز کرنے کے لیے آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہا۔ 1956کے آئین کو صرف دو سال بعد ایوب خان نے منسوخ کردیا اور اس کی جگہ 1962کا صدارتی آئین نافذ کیا گیا جمہوریت بحال ہونے پر 1973کا آئین نافذ کیا گیا جو ذوالفقار علی بھٹو کا کارنامہ تھا مگر چار سال بعد ضیاء الحق نے اسے معطل کردیا اور جب 1985 میں اسے بحال کیا تو مرضی کی دوسری شقوں کے علاوہ آرٹیکل 62اور63کا بھی اس میں اضافہ کر دیا۔ یہ آرٹیکل شروع ہی سے متنازع تھے۔ سب سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں آئین سے نکال دیا جائے یا ان کا مفہوم وسیع تناظر میں واضح کیا جائے کیونکہ پاکستان کا شاید ہی کوئی سیاستدان ان کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ دینی جماعتیں ان کی زیادہ حامی ہیں جبکہ پی ٹی آئی جو پہلے ان کی مخالفت کر رہی تھی اب یوٹرن لے کر ان کی حمایت کر رہی ہے اورانہیں کرپشن کے خاتمے کا ذریعہ سمجھ رہی ہے جبکہ مخالفین کا کہنا ہے کہ دفعات62اور 63موجودہ شکل میں کرپشن ختم نہیں کر سکتیں نہ انہیں آئین میں شامل کرنے کا یہ مقصد تھا۔ 1973کا معطل شدہ آئین 1985میں8ویں ترمیم کے ساتھ بحال کیا گیا تو پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے تمام اختیارات صدر (جنرل ضیاء الحق) کو منتقل کر دیئے گئےاور اس میں آرٹیکل 62اور 63کا اضافہ کیا گیا جن کے تحت ایسا کوئی شخص پارلیمنٹ کی رکنیت یا سرکاری عہدے کے اہل نہیں ہو سکتا جو صادق اور امین نہ ہو۔ یہ شرط سیاستدانوں کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ اپنے مخالفین کیلئے تو وہ آئین میں اس شرط کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں مگر جب معاملہ اپنا ہو تو اس کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ 18ویںآئینی ترمیم کے تحت 2010میںجب پارلیمنٹ کے اختیارات بحال کئے گئے تو اس شرط کو نہیں چھیڑا گیا جو اب نئی صورت حال میںمسئلہ بن گئی ہے۔مجموعی تناظر میں دیکھا جائے تو آئین میں یہ صراحت موجود ہے کہ ملک کا کوئی قانون قرآن و سنت کےمنافی نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لیے آرٹیکل 62اور63کو اسی کی روشنی میں دیکھنا چاہئے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو ذاتی و گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر ان پر غور کرنا چاہئے اگر ان میں ترمیم ضروری ہو تو بھی پارلیمنٹ کی رکنیت اور پبلک عہدوں کی اہلیت کے حوالے سے آئین کی بنیاد یعنی قرآن و سنت کے احکامات کو ہر حال میں مدنظر رکھنا چاہئے توقع ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں اس معاملے میں قوم کی خواہشات اور قومی مفاد پر پوری اتریں گی۔

تازہ ترین