شیخ رشید آف لال حویلی ہماری فلم کے ایسے ہیرو ہیں جن پر کچھ لکھا گیا ہے لیکن بہت کچھ لکھا جائے گا۔ میرے نزدیک یہی ان کی زندگی کا حاصل ہے ورنہ ہار جیت تو زندگی کا حصہ ہے لیکن اکثر لوگ مسلسل دو تین الیکشن ہار کر سیاست سے یوں غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بہرحال مجھے یقین ہے کہ شیخ صاحب سیاست سے کبھی تائب نہیں ہوں گے، وہ چپو سے محروم کشتی کی مانند سیاست کے سمندر کی لہروں پر اِدھر اُدھر تیرتے رہیں گے اور میڈیا کی دنیا میں اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے کی عملی مثال بنے رہیں گے کیونکہ سیاست ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور اسی سیاست کے خمیر سے وہ پروان چڑھے ہیں اور میڈیا ان کی زندگی ہے۔ اگر شیخ رشید کو سیاست اور میڈیا سے نکال دیا جائے تو وہ خدانخواستہ محاورے کی زبان میں زندہ ہی مر جائیں گے۔ مشہور قول ہے کہ جس شخص کی اس کے منہ پر تعریف کی جائے وہ زندہ ہی مر جاتا ہے جبکہ میرا مشاہدہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے سیاستدان، لیڈران اور عوامی جلسوں میں بلند بانگ دعوے کرنے والے ٹنوں کے حساب سے تعریف اور خوشامد کھا کر دن بدن موٹے اور تروتازہ ہو رہے ہیں کیونکہ تعریف اور خوشامد ان کی زندگی ہے جس دن انہیں اس خوراک سے محروم کر دیا گیا وہ سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گے۔ اسی طرح میرے مہربان شیخ رشید کی زندگی بھی سیاست اور میڈیا ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ جو تجزیہ نگار ان کی سیاست اور انتخابات سے توبہ کی باتیں کر رہے ہیں یا رانا ثناء اللہ کی مانند قسط وار پسپائی کی بجائے انہیں سیاست سے نکالنے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ شاید شیخ صاحب کو جانتے نہیں اور ان کی اٹھان اور خوابیدہ صلاحیتوں سے واقف نہیں۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ شیخ صاحب پر کچھ لکھا گیا ہے اور بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن میرا ان پر لکھنے کا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔ میں تو تجزیوں کے دریا کے کنارے بیٹھا الفاظ کی ابھرتی ڈوبتی لہروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور شیخ صاحب کی مجروح انا اور چاک قباء سے ہمدردی کر رہا تھا لیکن ان پر تمام اخبارات میں چھپنے والے تبصرے پڑھ کر میرا جی چاہا کہ میں بھی اس موضوع پر اپنے مشاہدے کی روشنی میں کچھ لکھوں کیونکہ اللہ کا شکر ہے کہ میرا قلم اور زبان آزاد ہیں وہ نہ کسی سیاست جماعت یا لیڈر کی چوکھٹ سے بندھی ہیں اور نہ ہی مفادات یا مصلحت کی اسیر ہیں اس لئے نہ شیخ صاحب مجھ پر ناراض ہوں گے اور نہ ہی ان کے مخالف الزام لگائیں گے۔
میں شیخ رشید احمد کو اس دور سے جانتا ہوں جب ضیائی مارشل لاء کے بعد انہوں نے تازہ تازہ عملی سیاست میں قدم رکھا تھا اور وہ تقریباً ہر شام اپنی خبر لگوانے اور تصویر چھپوانے جنگ راولپنڈی کے مقامی ایڈیٹر شورش ملک کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ شورش ملک محروم میرا عزیز دوست اور غمگسار تھا اور میں اکثر شام کو چائے پینے اس کے دفتر جایا کرتا تھا۔ شورش ملک کا تعلق معاشی حوالے سے محروم طبقوں سے تھا، وہ اپنی محنت اور صلاحیتوں سے اس مقام تک پہنچا تھا، وہ نہایت زیرک اور عملی انسان تھا اور دل میں محروم طبقوں کا غم چھپائے پھرتا تھا۔ شیخ صاحب شورش ملک کو اپنا استاد سمجھتے تھے اور شورش ملک بھی ان پر اسی طرح مہربان تھا۔ چند ایک بار شیخ صاحب اپنی خبر دے کر اٹھے تو ہمارے درمیان جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہماری اسمبلیوں اور سیاست پر وڈیروں، صنعتکاروں اور امراء کا قبضہ ہے اور جب تک ان میں محروم طبقوں کی نمائندگی نہیں ہوتی، ہمارے جمہوری منتخب ادارے صحیح معنوں میں نمائندہ ادارے نہیں بن سکتے۔ اسی حوالے سے ہم دونوں شیخ صاحب کے خیر خواہ، حمائتی اور دعا گو تھے اور شورش ملک تواتر سے شیخ صاحب کی تصاویر اور تقاریر چھاپا کرتے تھے۔ ایک روز ایک شخص نے شورش ملک سے کہا کہ ملک صاحب شیدے سے محتاط رہیں وہ خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ ہے اور اسے وہاں سے لفافے ملتے ہیں۔ شورش ملک یہ بات سن کر ہنسا اور میری طرف رخ موڑ کر کہا ”لگتا ہے شیخ رشید اپنا مقام بنا رہا ہے۔“ بات ہلکے سے قہقہے میں اڑ گئی۔ انہی دنوں میں نے محسوس کیا کہ شیخ رشید بے پناہ صلاحیتوں کا مالک ہے، محنتی کارکن ہے، تقریر کرنے کا فن سیکھ گیا ہے لیکن کبھی کبھی زبان کی ننگی تلوار سے لوگوں کو مجروح کر دیتا ہے اور کچھ لوگ محض اس کی زبان کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اس کی موجودگی میں سہمے رہتے ہیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب شیخ رشید محض گلی محلے کا لیڈر تھا لیکن بعد ازاں جب وہ قومی اسمبلی کا رکن بن کر مسلم لیگ کی صفوں میں گھسا، میاں برادران کی قربت حاصل کی اور اہم محفلوں میں شریک ہونے لگا اور پھر کابینہ کا رکن بن گیا تب بھی یہی حال تھا کہ کئی لوگ جو بظاہر اس کے دوست بنتے تھے، غیر حاضری میں اس کی جڑیں کاٹتے تھے اور اس کی زبان کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے اس کی موجودگی میں سہمے رہتے تھے۔
شیخ رشید پہلی بار 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں قومی اسمبلی کا رکن بنا تو میں نے انہیں صبح صبح فون کر کے مبارک دی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں شیخ صاحب کے انتخاب پر بے حد خوش تھا۔ شیخ صاحب یقینا بھول چکے ہوں گے کیونکہ یہ ہماری سیاست کا خاصا ہے اور میں نے میاں برادران سمیت سیاستدانوں کا حافظہ ماسواء انتقام کے خاصا کمزور پایا ہے، انہیں مخلص غیر مخلص کی پہچان نہیں ہوتی بہرحال مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے بزرگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیخ صاحب کی خدمت میں درد مندانہ گزارش کی تھی کہ شیخ صاحب ہماری دعا ہے آپ اس حلقے سے ہمیشہ کامیاب ہوں۔ خدا کے لئے اسمبلی میں جا کر امراء میں شامل نہ ہونا اور اپنی موجودہ حالت میں رہنا، اپنے ووٹروں سے ہمیشہ رابطہ رکھنا، لوگوں کو فقروں سے مجروح کرنے کی بجائے ان کی عزت کرنا اور محروم طبقوں میں رہ کر ان کی خدمت کرنا۔ ان دنوں میرا ان سے فقط دو تین بار اس وقت رابطہ ہوا جب انہیں اسمبلی میں تقریر کرنے کے لئے مواد درکار ہوتا تھا۔ پھر ہم اپنی اپنی غلام گردشوں میں کھو گئے۔ شیخ صاحب سمجھتے تھے کہ سیاست کی دکان چمکانے کے لئے دولت ضروری ہے چنانچہ وہ ”امارت“ کی سیڑھیاں چڑھنے لگے، ان کے اندازو اطوار بدل گئے، ملائمت اور مروت کی جگہ غرور نے سرنگ لگا لی۔ میاں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بنے تو ایک بزرگ ایڈیٹر کی سفارش پر شیخ رشید کو مشیر اطلاعات بنایا گیا اور پھر شیخ صاحب نے مشیر کی حیثیت سے اسی میڈیا کو ناراض کر لیا جس میڈیا نے شیدے ٹلی کو شیخ رشید احمد ایم این اے اور پنڈی کا سرسید بنایا تھا۔
شیخ صاحب نے قید وبند بھی دیکھی، پس دیوار زنداں بیٹھ کر کتاب بھی لکھی اور جب میاں صاحب دو تہائی اکثریت لے کر دوسری بار وزیراعظم بنے تو شیخ صاحب ان کی کابینہ کے نمایاں رکن تھے۔ میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ شیخ صاحب عوامی نبض پر انگلی رکھتے ہیں، عوامی مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔
لیکن انہیں قومی خزانے کے تقدس کا خیال نہیں تھا۔ دھیرے دھیرے سیاست کے گلستان میں چہکتے چہکتے وہ بلند ہواؤں میں سفر کرنے لگے، دھیرے دھیرے وہ اپنے ووٹروں اور محروم طبقوں کی کلاس سے نکل کر امراء کے طبقے میں شامل ہو گئے چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ نہ اپنی دولت کا راز بیان کر سکے اور نہ ہی اپنے کنوارپن کا بھرم قائم رکھ سکے چنانچہ وہ جن طبقات کے نمائندہ، لیڈر اور مسیحا بن کر ابھرے تھے ان کی ہمدردیوں اور دعاؤں سے محروم ہوتے چلے گئے۔ شیخ صاحب اور محروم طبقوں کے درمیان خلیج بڑھتی چلی گئی جس کا شیخ صاحب کو پوری طرح علم نہیں تھا کیونکہ پے در پے کامیابیوں نے شیخ صاحب کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایسے شخص کے لئے حکومت کا دباؤ برداشت کرنا اور الزامات کا دفاع کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بہتری اور بچاؤ اسی میں سمجھا کہ وہ مشرف کی باہوں میں پناہ لے لیں۔ اس بے وفائی نے ان کا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا اور ان کی اس سیاسی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا جس پر انہوں نے اپنی سیاست استوار کی تھی۔ مشرفی انتخابات کو چھوڑیئے کہ وہ تو طارق عزیز اور جنرل احتشام ضمیر کا ڈرامہ تھا لیکن اصلی انتخابات کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ میں نے ایک بار پنجاب میں سروے کیا تھا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وفا داریاں بدلنے والے تقریباً اسی فیصد اراکین اسمبلیاں نئے انتخابات میں ہار گئے تھے کیونکہ ہمارے رائے دہندگان اسے پسند نہیں کرتے۔ کالم کا دامن مختصر ہے۔ مجھے فقط یہ کہنا ہے کہ شیخ صاحب بدستور سیاست اور میڈیا میں موجود رہیں گے یہ ان کی زندگی ہے لیکن انتخابی فتح کے لئے انہیں لوٹ کر 1980ء کی سیاست کے اصولوں پر عمل کرنا ہو گا اور کوئی سیاسی جماعت بھی جائن کرنی ہو گی کیونکہ نئی پارٹی بنانا اور چلانا ان کے بس کا روگ نہیں بہرحال وہ جہاں بھی جائیں گے اپنی جگہ بنا لیں گے۔