موسم بہار مارچ میں عروج پر ہوتا ہے ۔ مارچ کے آخر میں پھولوں کے خوبصورت رنگ اور خوشبو موسم کو مزید خوشگوار کردیتے ہیں۔ مارچ 2010 ء پاکستان کی سیاسی تاریخ کے لئے بہت اہم ہے۔ صدر آصف علی زرداری ‘ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور دیگر سیاسی قائدین بھی مارچ کے آخر تک قوم کو نئی خوشخبری کی نوید دے رہے ہیں۔ صدر زرداری کا کہنا ہے کہ اس ماہ کے آخر تک آئین خرافات سے پاک ہوجائے گا اور 18 ویں آئینی ترمیم منظور ہوجائے گی۔ صدر صاحب نے یہ بات ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ پر دستخط کے بعد کہی۔ دستخط کی اس تقریب میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی موجود تھے۔ شہباز شریف کی ایک طویل عرصے کے بعد ایوان صدر میں موجودگی محب وطن جمہوریت پسندوں کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث تھی کیوں کہ شہباز شریف نے پچھلے دنوں بڑے واضح انداز میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ صدر زرداری اپنے آئینی اختیارات نہیں چھوڑیں گے۔ دستخط کی اس تقریب سے صرف ایک دن قبل پنجاب میں صدر زرداری کے نمائندے گورنرسلمان تاثیر نے بھی شہباز شریف پر ایک بے بنیاد الزام لگایا اور کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ یہ الزام جامعہ نعیمیہ لاہور میں شہباز شریف کی تقریر کے حوالے سے لگایا گیا۔ اتفاق سے اس موقع پر میں بھی جامعہ نعیمیہ میں موجود تھا۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے مدرسے میں منعقد ہونے والے اس سیمینار میں خاکسار نے شہباز شریف کو پچھلے سال اسی مدرسے میں اپنی تقریر یاد دلائی جس میں یہ عرض کیا گیا تھا کہ بم دھماکے صرف پشاورتک محدود نہ رہیں گے بلکہ مشرف دور کی پالیسیاں تبدیل نہ ہوئیں تو یہ بم دھماکے لاہور تک پہنچیں گے اور پنجاب کے دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے سندھ تک بھی پہنچیں گے۔
میں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ایک طرف طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ کے مخالف ہیں اور دوسری طرف یہی طالبان اُن سیاسی قائدین اور عوام کو بھی اپنی کارروائیوں کا نشانہ بناتے ہیں جو امریکی احکامات کو من وعن تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور امریکہ کے فرنٹ مین پرویز مشرف کو پاکستان سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ میری اس تقریر کا جواب دیتے ہوئے شہباز شریف نے کچھ ایسے الفاظ استعمال کئے جن میں سے کچھ اخبارنویسوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنی مرضی کا مفہوم نکالا جو حقیقت میں وزیراعلیٰ پنجاب کی زبان سے ادا نہیں ہوا۔ شہباز شریف نے کہیں پر بھی طالبان کو پنجاب میں حملے بند کرنے کی اپیل نہیں کی لیکن سلمان تاثیر صاحب نے دعویٰ کردیا کہ شہباز شریف نے طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔ بہرحال 16 مارچ کو ایوان صدر میں شہباز شریف کے ساتھ ساتھ سلمان تاثیر بھی موجود تھے اور صدر زرداری نے شہباز شریف سے ہاتھ بھی ملایا۔ مجھے امید ہے کہ 18 ویں ترمیم کی منظو ری کے بعد صدر زرداری اور شہباز شریف صرف ہاتھ نہیں ملائیں گے بلکہ ایک دوسرے کے گلے بھی لگیں گے اور پاکستان کی سیاست میں واقع ایک نئی بہار آئے گی۔ ایک طرف سیاست میں نئی بہار‘ نئے پھولوں اور نئی خوشبو کی تمنا ہے تو دوسری طرف میرے کچھ محترم بزرگ کالم نگاروں کے خدشات ہیں جن کا خیال ہے کہ 18 ویں ترمیم کا منظور ہونا بہت مشکل ہے اور کچھ مقتدر قوتیں پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی راستے سے ہٹانے کا انتظام کررہی ہیں۔
میں ان خدشات کو بے بنیاد نہیں سمجھتا۔صدر آصف علی زرداری‘ وزیراعظم گیلانی اور اُن کے بعض وزراء نے پچھلے ڈیڑھ سال میں اپنی کئی غلطیوں سے یقینا کچھ جمہوریت دشمنوں کو یہ کہنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ اس کرپٹ جمہوریت سے تو مشرف کی آمریت بہتر تھی۔ جمہوریت کے خلاف فتووں کا جواز تلاش کرنے کے لئے آٹے ‘ دال اور چینی کی قیمتوں کا فرق بیان کیا جارہا ہے اور قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مشرف کی آمریت آج کی جمہوریت سے بہت بہتر تھی۔ پچھلے دنوں سابق امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمیٹج پاکستان کے خاموش دورے پر آئے اور پرویز مشرف کی پاکستان واپسی کے امکانات تلاش کرتے رہے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے ارکان پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کیں اور پوچھا کہ اگر اکتوبر 2010ء میں پرویز مشرف لندن سے کراچی پہنچیں تو ایئر پورٹ پر کتنے لاکھ افراد اُن کے استقبال کے لئے آئیں گے؟ مسلم لیگ (ق) کے رہنما یہ سوال سن کر مسکرائے اور خاموش رہے۔ رچرڈ آرمیٹج نے اپنا سوال دہرایا تو ایک خاتون ایم این اے نے کہا کہ ہوسکتا ہے مشرف صاحب کراچی ایئرپورٹ تک پہنچ جائیں لیکن وہاں سے وہ لاہور یا اسلام آباد تک نہیں بلکہ کسی جیل میں جائیں گے کیوں کہ سپریم کورٹ 31 جولائی 2009ء کے فیصلے میں اُنہیں غاصب قرار دے چکی ہے‘ اُن پر اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ درج ہوچکا ہے‘ سابق کورکمانڈر شاہد عزیز ٹی وی چینلز پر کہہ چکے ہیں کہ مشرف نے فوجی قیادت سے پوچھے بغیر امریکہ کو پاکستان میں اڈے دیئے اور ڈرون حملے شروع کروادیئے۔ مشرف دور میں لاپتہ ہونے والے سیکڑوں پاکستانیوں کا مسئلہ بدستور عدالتوں میں زیر التواء ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جس شخص نے این آر او پر دستخط کئے وہ کس منہ سے آکر پاکستان میں سیاست کرے گا۔ آرمیٹج نے خاتون ایم این اے سے کہا کہ آپ مشرف کی وجہ سے پارلیمنٹ میں پہنچیں آپ کس منہ سے اُس کی مخالفت کررہی ہیں تو خاتون نے جواب میں کہا کہ میرا لیڈر مشرف نہیں بلکہ چوہدری شجاعت حسین ہے اور مشرف نے چوہدری شجاعت حسین کو بھی دھوکہ دیا۔ مسلم لیگ (ق) کو لال مسجد میں فوجی آپریشن ‘ ججوں کی نظر بندی‘ اکبر بگٹی کے قتل اور لوڈ شیڈنگ نے الیکشن میں شکست سے دو چار کیالہٰذا ہمارے سامنے مشرف کا نام نہ لو کیوں کہ مشرف دور کے بہت سے اسکینڈلز ابھی فائلوں میں دبے ہوئے ہیں اور ہم مزید بدنامی مول لینے کے لئے تیار نہیں۔ خاتوں ایم این اے کی بات سُن کر آرمیٹج نے موضوع تبدیل کردیا۔
پرویز مشرف اپنے بیرونی دوستوں کی مدد سے پاکستان واپسی کا راستہ تلاش کررہے ہیں اور اُنکے کچھ بیرونی دوست پاکستان میں کسی نئے مشرف کو تلاش کررہے ہیں۔ کوئی نیا مشرف فوج کی مدد کے بغیر اقتدار میں نہیں آسکتا لیکن فوجی قیادت کو یقین رکھنا چاہئے کہ اُس کی عزت اور بقاء سیاست سے دور رہنے میں ہے۔ پاکستان کی بقاء بھی جمہوریت میں ہے ملوکیت میں نہیں۔ حضرت علامہ اقبال نے کہا تھا
چیست تقدیر ملوکیت؟ شقاق
محکمی جستن زتدبیر نفاق!
ترجمہ:۔ ملوکیت کا انداز حکمرانی کیا ہے؟ پھوٹ ڈالنا اور نفاق سے استحکام حاصل کرنا۔
پاکستانی قوم کا تجربہ یہ ہے کہ ملٹری ڈکٹیٹروں کی ملوکیت میں ڈالر توبہت آتے ہیں لیکن یہ ڈالر امیروں کو مزید امیر اور غریبوں کو مزید غریب بناتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ مشرف کے دور ملوکیت میں ہمارے کچھ صحافی بھائیوں نے اتنی دولت کمائی کہ اُنہیں بھی آصف علی زرداری کی طرح سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں اکاؤنٹس کھولنے پڑے۔ ایک پاکستانی بینکر آج کل ان صحافیوں کے اکاؤنٹس کی تفصیلات سنا سنا کر حکمرانوں کو حیران کررہا ہے۔ الله تعالیٰ سیاست و صحافت کو ایسی بدنامیوں سے بچائے۔ دعا کیجئے کہ اس مارچ میں قوم کو 18 ویں ترمیم کی منظوری کی خوشخبری مل جائے اور افراد کی بجائے ادارے مضبوط ہونے کا عمل شروع ہو۔ پاکستان میں کسی نئے مشرف کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ مشرف سیاہ وسفید کا مالک ہونے کے باوجود مالیاتی کمیشن ایوارڈ پر اتفاق رائے نہیں کراسکا لیکن کمزور سے کمزور جمہوریت یہ اتفاق کروالیتی ہے۔ جمہوریت چلتی رہی تو پاکستان میں بہار ضرور آئے گی لہٰذا اس جمہوریت کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔