• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکلاء حملہ کرتے ہیں،وہ کیا کریں جنکے لیڈر کیخلاف فیصلہ آیا؟سینیٹر قیوم

Todays Print

کراچی(جنگ نیوز) ن لیگ کے رہنما سینیٹر عبدالقیوم نے کہا ہے کہ عدالت کا گیٹ توڑ کر پتھراؤ کرنا بالکل مناسب نہیں ہے اگر وکلاء ججوں سے مطمئن نہیں اور حملہ کرتے ہیں تو پھر کسی سیاسی مجمع سے کیا توقع کی جاسکتی ہے جب ان کے لیڈر کیخلاف فیصلہ آتا ہے،پاکستان کے تمام ادارے قومی معاملات پر ایک صفحہ پر ہیں، چیئرمین سینیٹ نے مکالمے کی تجویز میں فوج کو الگ فریق کے طور پر نہیں پیش کیا۔

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ مجمع کی کوئی نفسیات نہیں ہوتی ہے، اگر مجمع کنٹرول سے باہر ہوجائے تو اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا ہے، عدلیہ کو تھوڑے صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ، اگر عدالت ایک موقع اور دیتے ہوئے دس دن کی تاریخ دیدیتی تو معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوجاتا، فل بنچ پہلے دن سے جس طرح اس معاملہ کو ہینڈل کررہی ہے اس سے بات لڑائی کی طرف جارہی ہے۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اکرام چوہدری  نے کہا کہ وکلاء کے کیس کے بہتر طریقے سے ڈیل کرنے کی گنجائش موجود تھی، اس معاملہ کو جس طرح ڈیل کیا گیا وہ قانون کے مطابق نہیں تھا، وزیراطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ وفاقی وزراء سازش کا شور مچاتے ہیں لیکن سازشیوں کا نام نہیں بتاتے ، حکومت تسلیم کرے اس کی اپنی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے سب کچھ ہورہاہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان رابعہ انعم سے گفتگو کررہے تھے ۔

پروگرام میں رکن بار کونسل چوہدری اشتیا ق خان سے بھی گفتگو کی گئی ۔اکرام چوہدری نے کہا کہ آج لاہور ہائیکورٹ کے باہر جو کچھ ہوا بہت افسوسناک ہے، حکومت، فوج اور عدلیہ کے درمیان مکالمے کا پاکستانی آئین میں کوئی تصور نہیں ہے، فوج انتظامیہ کا حصہ ہے جبکہ عدلیہ اور پارلیمنٹ خودمختار ہیں، کچھ لوگ پاکستان میں آئینی انارکی پیدا کرنا چاہتے ہیں، چیئرمین سینیٹ کی اداروں کے درمیان مکالمے کی تجویز وقت کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ حکومتی وزراء سازش کا شور مچاتے ہیں لیکن سازشیوں کا نام نہیں بتاتے ، حکومت تسلیم کرے اس کی اپنی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے سب کچھ ہورہاہے، حکومت، فوج اور عدلیہ کے درمیان مکالمے کی تجویز پیپلز پارٹی نے نہیں چیئرمین سینیٹ دی ہے، پار لیمنٹ قومی معاملات پر بات کرنے کیلئے ہوتی ہے لیکن ن لیگ اس سے بھاگتی رہی ہے، نواز شریف پر جب کوئی مشکل پڑتی ہے تو انہیں پارلیمنٹ یاد آجاتی ہے، اداروں کے درمیان غلط فہمی دور کرنے کیلئے پارلیمنٹ سے بہتر فورم نہیں ہوسکتا۔

سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ ججوں اور عدالتوں کا احترام ہم سب پر لازم ہے، اگر وکلاء ججوں سے مطمئن نہیں اور حملہ کرتے ہیں تو پھر کسی سیاسی مجمع سے کیا توقع کی جاسکتی ہے جب ان کے لیڈر کیخلاف فیصلہ آتا ہے، اگر وکلاء کو کسی جج سے شکایت ہے تو اس کیلئے سپریم جیوڈیشل کونسل کا طریقہ کار موجود ہے، عدالت سپریئر ہے اور اس کا حکم ماننا چاہئے، عدالت کا گیٹ توڑ کر پتھراؤ کرنا بالکل مناسب نہیں ہے، ہمارے لوگ جنہیں نیب نے طلب کیا ان کی قانونی ٹیم جواز دے رہی ہے لیکن وہ جائیں گے۔

سینیٹر عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ جس سازش کا ہم ذکر کرتے ہیں اس کے اندرونی اور بیرونی رخ ہیں، سازش کا اندرونی رخ مکمل طور پر سیاسی ہے، ہمارے سازش کے الزامات کی بنیاد جاوید ہاشمی کے بیانات ہیں کہ کچھ سیاسی جماعتیں کیا کررہی ہیں، بیرونی عناصر پاکستان کو غیرمستحکم کرنے او ر سی پیک کیخلاف سازش کررہے ہیں۔ سینیٹر عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آئین کو منسوخ کرنے کیلئے نظریہ ضرورت کا اطلاق کیا گیا، کاش اقامہ والے کیس کا فیصلہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت تھوڑا تاخیر سے کیا جاتا، حقائق کے اوپر انصاف کیا جانا چاہئے تھا لیکن جلدی کی ضرورت نہیں تھی، نواز شریف کی نااہلی سے پاکستان کے بیرونی دشمنوں کا فائدہ ہوگا، پاکستان کے تمام ادارے قومی معاملات پر ایک صفحہ پر ہیں، ہماری سا لمیت کا دارومدار یگانگت اور قومی یکجہتی پر ہے، چیئرمین سینیٹ نے مکالمے کی تجویز میں فوج کو الگ فریق کے طور پر نہیں پیش کیا ہے۔ رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ مجمع کی کوئی نفسیات نہیں ہوتی ہے، اگر مجمع کنٹرول سے باہر ہوجائے تو اس کا دفاع نہیں کیا جاسکتا ہے، عدلیہ کو تھوڑے صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے ، اگر عدالت ایک موقع اور دیتے ہوئے دس دن کی تاریخ دیدیتی تو معاملہ کچھ ٹھنڈا ہوجاتا، فل بنچ پہلے دن سے جس طرح اس معاملہ کو ہینڈل کررہی ہے اس سے بات لڑائی کی طرف جارہی ہے۔

اکرام چوہدری نے کہا کہ آج لاہور ہائیکورٹ کے باہر جو کچھ ہوا بہت افسوسناک ہے، ہم سب لوگ قانون کی حکمرانی اور اخلاقیات کے داعی ہیں، ملتان میں وکلاء کے ردعمل سے قبل جج صاحب نے شاید اونچی آواز میں کوئی ایسی بات کی جس کے بعد معاملہ بگڑا، یہ بھی کہا گیا کہ آپ لوگ عدالت سے نکل جائیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ کو اس معاملہ پر تحقیقات کیلئے ٹیم مقرر کرنی چاہئے تھی، لیکن انہوں نے ایسا کرنے کے بجائے ملتان بنچ میں کام بند کروادیا ، دوسری طرف لاہور میں پانچ رکنی بنچ نے توہین عدالت کی کارروائی شروع کردی۔

تازہ ترین