• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحر یک انصا ف حکو مت کی صنعتی پا لیسی بر ی طر ح ناکام ہوگئی، کوئی ہدف حاصل نہ ہوسکا

Todays Print

پشاور(ارشد عزیز ملک) تحریک انصاف کے دعوئوں کے برعکس خیبرپختونخوا حکومت کی صنعتی پالیسی بری طرح ناکام ہو گئی۔حکومتی نااہلی اورعدم دلچسپی کے باعث صوبے میں ایک بھی صنعتی بستی قائم ہوسکی اور نہ ہی کوئی کارخانہ چالو ہوسکا ۔ 2016ء کی صنعتی پالیسی کے تحت صوبے میں سینکڑوں ڈیمز کی طرح 18بڑی صنعتی بستیاں اور 9 اسمال انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کرکے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہوا ۔

خیبرپختونخوا اکنامک زونز ڈیویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی ایک ڈالر کی بھی بیرونی سرمایہ کاری لانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ صنعتی پالیسی 2016ء کی دستاویزات کے مطابق خیبرپختونخوا اکنامک زونز ڈیویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی) کے پی ایزمک( نے دعویٰ کیا تھا کہ رواں سال حطار‘جلوزئی ‘رشکئی ‘نوشہرہ ‘رسالپور ‘ڈیرہ اور غازی کی صنعتی بستیوں میں کارخانے چالوہو جائینگے تاہم دعوئوں کےبرعکس کسی بھی صنعتی بستی میں معاشی سرگرمیاں شروع نہ ہوسکیںبلکہ حطار اورڈیرہ کے سوا کسی بھی مقام پر ایک اینٹ بھی نہ رکھی جا سکی۔دلچسپ امر یہ ہے کہ ابھی تک ایک درجن سے زائدصنعتی بستیوں کیلئے اراضی کا حصول بھی ممکن نہ ہوسکا۔نئے صنعتی زونز کے قیام کیلئے 30ارب 48کروڑ روپےسے زائد لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا ۔ خیبرپختونخوا اکنامک زونز ڈیویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی نے صوبہ بھر میں 18 صنعتی بستیاں قائم کرنا تھیں جن کیلئے بھاری مشاہروں پر ماہرین کوبھرتی کیا گیا۔

کمپنی کے قائمقام چیف ایگزیکٹو آفیسرو چیف آپریٹنگ آفیسر عادل صلاح الدین نے اعتراف کیا کہ بعض وجوہات کی بناءپر منصوبے تاخیر کا شکار ہیںتاہم ڈیرہ اورحطار میں کارخانوں کی تعمیر شروع ہوچکی ہےجس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہونگے ۔ سرکاری دستایزات کے مطابق کے پی ایزمک نے حطار میں صنعتی بستی قائم کرنا تھی جس کیلئے کمپنی کے پاس 424ایکڑ زمین پہلے سے موجود تھی جس پرترقیاتی کام دسمبر 2016ء تک مکمل کرنے کا ہدف تھا جس میں تاخیر ہوئی ‘اس حوالے سے کمپنی نےاب تک 300 ایکڑ اراضی فروخت کی ہے جن میں سے صرف 10سے 12پلاٹوں میں کارخانوں کی تعمیر جاری ہے‘ دستاویزات کے مطابق صنعتی بستی کو دسمبر 2016ءتک مکمل کیا جانا تھا ‘جون 2017ء تک صنعتی سرگرمیاں شروع کرنے کا ہدف مقرر کیاگیا تھا لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں‘ ابھی تک کارخانے چالو ہی نہ ہو سکے‘اس زون کے قیام پر2ارب 13کروڑ 80لاکھ روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔

کمپنی کے قائمقام چیف ایگزیکٹو آفیسرو چیف آپریٹنگ آفیسر عادل صلاح الدین کے مطابق12 کارخانوں کی تعمیر جاری ہے جبکہ 26 مالکان نے تعمیراتی نقشے جمع کرارکھے ہیں ۔89ایکڑ رقبے پر غازی انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کیلئے دسمبر 2015ء تک زمین کے حصول کا ٹارگٹ تھا۔دستاویزات کے مطابقترقیاتی منصوبے جون 2016ء سے تک مکمل کرنا تھے لیکن اب تک صنعتی بستی میں تعمیراتی کام شروع نہ ہوسکا ‘پلاٹوں کی فروخت اور الاٹمنٹ ستمبر 2016ء تک مکمل کرنا تھی ‘ تعمیرات و صنعتی یونٹوں کے قیام کا عمل جون 2017ء تک مکمل کرنا تھا ‘ کمپنی نے دسمبر 2017ء تک صنعتی سرگرمیوں کے آغاز کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن اس میں مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا‘ زون پر92کروڑ 10لاکھ روپے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔عادل صلاح الدین نے اعتراف کیا کہ تعمیراتی کام شروع نہ ہوسکا تاہم انہوں نے بتایا کہ ایک ملائشین کمپنی کے ساتھ مفاہمتی یاداشت پر دستخط ہوگئے ہیں اور بہت جلد معاہدے پر بھی دستخط ہوجائینگے جس کےبعد کمپنی پاکستان میں سرمایہ کاری کریگی ۔257ایکڑرقبے پر جلوزئی انڈسٹریل اسٹیٹ کے قیام کیلئےمارچ 2016ء تک زمین کے حصول کا ٹارگٹ مقرر کیا گیا جبکہ ترقیاتی منصوبےجون 2017ء تک مکمل کرنا تھے‘ پلاٹوں کی فروخت و الاٹمنٹ کا عمل دسمبر 2016ء تک مکمل کرنا تھا‘ تعمیرات و صنعتی یونٹوں کا قیام دسمبر 2017ء تک مکمل کرنے کا ہدف ہے جبکہ مارچ 2017ء سے صنعتی سرگرمیوں کے آغاز کا ٹارگٹ تھا‘ اس زون پر لاگت کا تخمینہ 2ارب 21کروڑ روپے تھاتاہم حکومت کی جانب سے اراضی کی خریداری کیلئے رقم کی فراہمی میں تاخیر کے باعث منصوبہ تعطل کا شکار ہےاب تک اراضی کاحصول بھی ممکن نہ ہوسکا ۔سی ای اوعادل صلاح الدین نے تسلیم کیا کہ حکومتی عدم دلچسپی کے باعث مطلوبہ رقم کی فراہمی میں تاخیر کے باعث اب تک منصوبہ تعطل کا شکار ہے تاہم محکمہ خزانہ نے اراضی مالکان کیلئے 50 کروڑ روپے جاری کردئیے ہیں جو مالکان کو جلد ادا کردیئے جائینگے ۔

دستاویزات کے مطابق رشکئی ایم ون انڈسٹریل اسٹیٹ کیلئے جون 2016ء تک ایک ہزار ایکڑ زمین کا حصول یقینی بناکرجولائی 2016ء سے ترقیاتی منصوبوں کاآغاز کیا جانا تھا ‘پلاٹوں کی فروخت و الاٹمنٹ مارچ 2017ء تک مکمل کرنا تھی‘جون 2017ء سے تعمیرات و صنعتی یونٹوں کے قیام کا آغاز کرنا تھا ‘کمپنی نے ستمبر 2017ء سےصنعتی سرگرمیوں کے آغاز کا ہدف مقرر کیا ہے ‘اس زون پر لاگت کا تخمینہ7ارب 2کروڑ روپے لگایا گیالیکن ابھی تک اراضی حاصل نہ کی جاسکی ۔عادل صلاح الدین کے مطابق اب اس بستی کو سی پیک میں ڈال دیا گیا ہے لہٰذا سی پیک کے تحت اس کو مکمل کیا جائیگا‘ کمپنی اس حوالے سے کوئی کام نہیں کررہی ۔

تحریک انصاف کی صنعتی پالیسی کے مطابق کوہاٹ و کرک میں ایک ہزار ایکڑ اراضی پر سپیشل اکنامک زون کے قیام کیلئے دسمبر 2016ء تک زمین حاصل کرنا تھی جبکہ مارچ 2017ء سے ترقیاتی کاموں کا آغاز کرنا تھا‘ دسمبر 2018ء سے پلاٹوں کی فروخت و الاٹمنٹ کا آغاز کرنے ‘مارچ 2019ء سے تعمیرات اور صنعتی یونٹوں کے قیام کا ٹارگٹ ہے ‘ ستمبر 2019ء سے صنعتی سرگرمیوں کے آغاز کا ہدف مقرر کیاگیا ہے‘ اس زون کے قیام کیلئے لاگت کا تخمینہ 7ارب روپے لگایاگیا ہے تاہم ابھی تک اس منصوبے پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی‘ منصوبہ کاغذات کی حد تک ہی محدود ہے ۔

تازہ ترین