صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنی انتظامیہ کی افغان پالیسی کا قدرے تاخیر سے کیا جانے والا اعلان خطرناک ہے ۔ بھول جائیں کہ اُنھوںنے انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلائیں گے کیونکہ یہ امریکہ کی جنگ نہیں ہے ۔مت سوچیں کہ اعلان کردہ موجودہ پالیسی اُن کے پہلے موقف سے شرمناک واپسی ہے ۔ اب چونکہ اُنھوںنے کہہ دیا ہے ، اس لئے یہ امریکہ کی ہی جنگ ہے اور اُن کے پاس اسے جیتنے کے سواکوئی آپشن نہیں ۔ افغانستان میں اضافی چار سے پانچ ہزار فوجی بھجوائے جائیں گے۔ اس طرح وہاںغیر ملکی فوجیوں کی تعداد بارہ ہزار کے لگ بھگ ہوجائے گی ۔
دوسری طرف افغانستان کے زمینی حالات یہ ہیں کہ اس کا ساٹھ فیصد علاقہ طالبان کے قبضے میں بتایا جاتا ہے ۔ حکومت پینتیس فیصدعلاقے پر ان کا قبضہ تسلیم کرتی ہے ۔ ان معروضات کو دیکھتے ہوئے دستوں کا یہ اضافہ مونگ پھلی کے دانے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ اضافی دستے کابل اور دیگر شہروں کو محفوظ بنانے کے لئے ناکافی ہیں۔ نئی پالیسی کے مطابق بھارت سے بھی انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کا کہا جارہا ہے۔ یہ منصوبے ایک ایسے دشمن کے خلاف جنگ جیتنے میں کس طرح معاون ثابت ہوںگے جو قدرتی طور پر حربی صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور جس کے لئے لڑائی زندگی کا ایک لازمی جزو ہے؟
پاکستان کا بازومروڑ کر کہا جائے گاکہ وہ اپنی طے شدہ نیشنل سیکورٹی پالیسی کو ترک کرے کیونکہ وہ بھارت اور بھارت نواز افغان حکومت کے لئے ناقابل ِ قبول ہے ۔ اس مقصد کے لئے پاکستا ن کو ملنے والی مالی اور فوجی امداد کے ذریعے دبائو ڈالا جائے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندر کارروائی بھی کی جاسکتی ہے ۔ لیکن ابھی یہ بات برسبیل ِ تذکرہ ہی ہے ، تاوقتیکہ ٹرمپ اس پر سنجیدگی سے عمل کرتے ہوئے غیر ملکی مالیاتی اداروں اور عطیات فراہم کرنے والی ایجنسیوں کو روک دیں ، امریکہ اور دیگر ممالک میں پاکستانی مصنوعات کی فروخت ناممکن بنا دیں۔ لیکن ایسا کرنے میں خطرہ یہ ہے کہ بیروزگار اور مشتعل نوجوان بڑی تعداد میں داعش یا طالبان کی صفوںمیں شامل ہو کر ’’بڑے شیطان ‘‘ کے خلاف ہتھیار اُٹھا لیں گے ۔ اس طرح امریکہ مخالف ایک اور ریاست مشرق ِوسطیٰ کے سے حالات سے دوچار ہوجائے گی ۔ چنانچہ افغانستان میں جنگ جیتنے کی بجائے امریکہ ایٹمی طاقت کے حامل پاکستان کو بھی کھو دے گا۔
اس دوران امریکہ نے افغان حکومت کی بنیادی ناکامی کو نہیں دیکھا کہ وہ اتنی بھاری بھرکم سرمایہ کاری کے بعد نہ تو اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکاہے اور نہ ہی اپنا دفاع کرنے کے قابل ہے ۔ٹرمپ کی موجودہ پالیسی افغانستان میں علاقائی طاقتوں، جیسا کہ ایران، روس اور چین کے مفاد کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے ۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ٹرمپ ان کے ساتھ مل کر کوئی قابل ِعمل پالیسی بناتے تاکہ افغانستان میں اور استحکام ممکن ہوسکتا، لیکن وہ سب کچھ بھول کر پاکستان پربرس پڑے ہیں۔
درحقیقت امریکہ کی نئی افغان پالیسی کا سب سے پریشان کن پہلو یہ ہے کہ پاکستان کو مسئلے کے حل کا حصہ سمجھنے کی بجائے اسے اصل مسئلہ سمجھا جارہا ہے ۔ اگر پاکستان کو مسئلے کے حل کا حصہ سمجھا جاتا تو امریکہ اس کے بھارت کی بابت سیکورٹی مسائل پر توجہ دیتا ۔ بدقسمتی سے نریندر مودی کے جارحانہ عزائم نے پاکستان کے مشرقی بارڈر کو گرم کردیا ہے ۔ اگر مودی کو اس سے باز رکھا جاسکے تو ہی ہم مغربی بارڈر پر استحکام کے لئے اپنی قوتیں یکجا کرسکتے ہیں۔ کوئی ملک کس طرح خود کو محفوظ سمجھ سکتا ہے جب ایک امریکہ کا حلیف ملک اس کے انٹر نیشنل بارڈر پر تنازع کھڑا کرنے پر تلا ہوا ہو ، اور جس نے آزادی کے وقت سے ہی اس کو تسلیم نہ کیا ہو؟پاکستان کو مسئلے کا حصہ اس لئے سمجھا جارہا ہے کیونکہ بھارت چین کے خلاف امریکی عزائم کا حصہ ہے ۔ دوسری طرف پاکستان کا جھکائو چین کی طرف ہے۔ مختصر یہ کہ مسئلہ یہ نہیں کہ ٹرمپ بھی صدر بش کی طرح جنگ کا دائرہ بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔
بات یہ ہے کہ فوجی دستوں کی تعداد میں اضافہ طالبان کو دبانے کے لئے کافی نہیں ، اور نہ ہی اس طرح اُنہیں مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے مجبور کیا جاسکتاہے ۔اس وقت اوباما کی پالیسی بھی دکھائی نہیں دیتی جو دستوں کی تعداد بڑھانے کے بعد انخلا کی ڈیڈلائن دے دیں۔ اس وقت وائٹ ہائوس میں ٹرمپ ہیں جو افغان مسئلہ حل کرنے کی بجائے پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
پاکستان ایک حد تک ہی امریکی معاشی پابندیوں کا دبائو سہار سکتا ہے ، چنانچہ سرخ لکیر عبور کرنا کسی کے مفاد میں بھی نہیں۔ پاکستانی شہری علاقوں میں ڈرون حملے بھی بے کار جائیں گے ۔ ان سے صرف شہری نقصان ہوگا۔ طالبان لیڈر ایران سمیت دنیا کے بہت سے علاقوں میں بکھر چکے ہیں۔ 2001 ء میں جب امریکہ نے تورا بورا پر وحشیانہ بمباری کی تو بھی طالبان لیڈر منتشر ہونے کی وجہ سے اپنی قوت بچانے میں کامیاب رہے تھے ۔ اور پھر پاکستان نہ تو افغانستان ہے اور نہ عراق۔ پاک فوج کسی بھی سرحدی خلاف ورزی کا سختی سے جواب دے گی۔ اگر سلالہ جیسا مزید کوئی واقعہ پیش آیا تو اس مرتبہ اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان کے ساتھ مسلسل تنائو کا امریکہ کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، ہاں ناراض پاکستانی نوجوان امریکہ مخالف گروہوں میں ضرور شامل ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کی کس طرح امید کرسکتا ہے ؟
اس وقت خطے میں عدم اعتماداور تنائو زدہ تعلقات کا اسٹیج تیار ہورہا ہے ،جبکہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنے اپنے تزویراتی مورچے پکے کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسی سے پاکستان اور واشنگٹن کے تعلقات تو بگڑیں گے، اس کے بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں مزید تنائو آجائے گا۔ اس وقت بھارت اور چین کے درمیان ڈوکلام سرحدی تنازع پر تنائو موجو دہے ۔ ایران اور روس کی خواہش ہوگی کہ امریکہ کو اس دلدل میں مزید دھنسایا جائے ۔
اس پیچیدہ صورت ِحال کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پاکستان کا رد ِعمل جچا تلا اور ذمہ دارانہ ہو۔ ہم ایک مشکل صورت ِحال کا شکار ہیں۔ جنگی نعرے معاملات خراب کرنے کے لئے ایجاد کیے گئے ہیں،اس وقت ہمیں ان سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے ۔اس گیم میں حریف کو انگیج کیا جاتا ہے ،تاکہ کوئی راہ نکل سکے ۔ اپنے گریبان میں جھانکے میں کوئی حرج نہیں۔ ہمیں اپنی نیشنل سیکورٹی پالیسی پر بہت پہلے نظر ثانی کرلینی چاہیے تھی، چلیں اب سہی، دیر آید ، درست آید۔ سب سے اہم بات یہ کہ سویلین اور ملٹری قیادت اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے اپنے اپنے مورچوں میں دھنسے رہنے کی بجائے ایک مشترکہ محاذ بنائیں تو بہتر ہوگا۔