امریکہ کی ریاست پنسلوینیاکی مشہور کاؤنٹی لنکاسٹرکے ایک قصبے ”ٹیری ہلز“ میں برس ہا برس سے ”آمش“نامی ایک ایسا قبیلہ آباد ہے جو آج بھی اپنی قدیم روایات پر قائم ہے ۔ وہ بجلی یا اس سے چلنے والی ٹیکنالوجی استعمال نہیں کرتا ’گھوڑا‘ گائے‘ ٹانگہ ‘ تندور ‘ چکی اور لالیٹن وہاں پر گھر کی بنیادی ضروریات کی چیزیں ہیں۔
میرے ایک دیرینہ دوست طارق مسعود جب امریکہ گئے تھے تو انہوں نے اس آمش قبیلے پر ایک کتاب لکھی تھی جسے کبھی کبھی میں اس لئے پڑھتا رہتا ہوں کہ دھیرے دھیرے ہم بھی ’آمش‘ ہوتے جارہے ہیں۔ بجلی کی قلت 7000 میگاواٹ سے بھی تجاوز کر گئی ہے دن میں سولہ سولہ گھنٹے بجلی بند رہنے لگی ہے اسلام آباد میں گزشتہ کئی ماہ سے گھروں میں پانی کی سپلائی بند ہے ٹینکر منگوانے کیلئے صبح چھ بجے فون کرنا پڑتاہے سوا یا ساڑھے چھ بجے فون کرنے والوں کیلئے ٹینکر کی باری نہیں آتی اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے پاس پانی تو تھا نہیں ٹینکر بھی نہیں ہیں۔ وہ دوسرے شہروں سے ساٹھ ہزار روپیہ مہینہ اور ڈیزل اس کے علاوہ پرکرائے پربیسیوں ٹینکر لے کر شہریوں کی روز مرہ ضروریات پوری کر رہا ہے جس پر صرف ماہانہ کرائے کی مد میں ستر اسی لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہاتھا کہ وہ مارچ میں قوم کو خوشخبری دیں گے 31 مارچ کو پٹرول ، مٹی کا تیل اورڈیزل کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں اسلام آبادمیں نان بائیوں نے دو روپے روٹی پر بھی بڑھادےئے ہیں ‘ گیس شاید سستی ہوئی ہو لیکن بل پہلے سے بھی زیادہ آرہے ہیں لوڈشیڈنگ اپنی جگہ لیکن واپڈا نے بجلی کے بلوں کا گراف نہیں گرنے دیا۔ باقی شہروں کے لوگ تو شائد آمش بن جائیں لیکن ہم اسلام آبادئیے اس ٹائٹل سے بھی محروم رہ جائینگے کیونکہ اسلام آباد میں گائے بھینس اوربکری رکھنے کی اجازت نہیں ہے سستی سواری بھی استعمال نہیں کر سکتے کہ رکشے ممنوع ہیں۔
پاکستان کے سابقہ عالی مرتبت جنرل پرویز مشرف نے کہاتھا کہ وہ اگر امریکہ کی ہاں میں ہاں نہ ملاتے تو اس نے ہمیں پتھر کے زمانے میں پہنچادینا تھا لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں کوئی بتلائے تو سہی ہمارا مشترکہ خاندانی نظام تو پہلے ہی اونگ رہا تھا کہ صوبائی تعصب بھی بلوغت کو پہنچ گیا ہے ایک منصوبے کے تحت نوجوان نسل کو معاونت اورمقصدیت کے جذبوں سے دوررکھا جارہا ہے گزشتہ بدھ کو اٹھارویں ترمیم کے مسودے پر دستخطوں کا عمل مکمل ہونے پرنوجوانوں کو بھنگڑے پرلگا دیا گیا ۔
پشاورکے گلی کوچوں میں اس قدر مٹھائی بانٹی گئی کہ مجھے پشاورہی کے ڈاکخانہ کا کشال اور محلہ مسلم آباد نمبر 1 کی گلی نمبر 4 میں میقم ایک بیوہ سلطان زری صا حبہ کا وہ خط یاد آگیا۔
جس میں وہ لکھتی ہیں کہ: بیوہ ہوں‘ بے سہارا ہوں‘ جوان بیٹیوں کی ماں ہوں‘ پریشان ہوں‘ بیٹیوں کو گھر میں بند کر کے محنت مزدوری کرنے جاتی ہوں‘ ایک کی شادی کرنا چاہتی ہوں‘ وسائل نہیں ہیں‘ اپنے ایم پی اے حاجی اورنگزیب خان کے پاس گئی تو اس نے چیئرمین ضلعی زکوٰة کمیٹی کے نام ایک سفارشی خط دیا‘ اور جب ضلعی ناظم سے ملی تو اس نے ڈی سی او کے نام سلائی مشین کی امداد کیلئے رقعہ دے دیا‘ ابھی تک دیا کسی نے بھی کچھ نہیں ‘ بیت المال والے کہتے ہیں ان کے پاس شادی کیلئے فنڈز نہیں ہیں‘ ایک سود خور ستر ہزار روپے دینے کو تیار ہے لیکن تین ماہ بعد اسے ایک لاکھ روپے لوٹانا پڑیں گے اگر ایسا نہ کیا تو وہ مجھ سے کوئی بیٹی مانگ لے گا‘ ماں ہوں ایک کو آباد کرنے کیلئے دوسری کیسے قربان کروں“صوبے کے نام کی تبدیلی کی خوشی میں مٹھائیاں بانٹنے والوں کو اپنے ہی شہر کی وہ بیوہ کیوں دکھائی نہیں دے رہی‘ ادھر میانوالی میں جنرل پرویز مشرف کے تاحیات ترجمان ڈاکٹر شیرافگن نیازی نے کہا کہ ”دریا ختم ہو گئے پنجاب کا نام تبدیل کیا جائے“ دیکھا جائے تو ڈاکٹر شیرافگن نیازی بھی اپنے نام کی معنویت پر پورا نہیں اترتے اور جب اب ناموں کی تبدیلی کا فیشن چل نکلا ہے تو کالا باغ ڈیم کا نام بھی بدل کر پاکستان ڈیم رکھ لیں اور ڈیم بنائیں‘ سب کے کام آئے گا‘ اسی میں پاکستان کی بقاء ہے۔ 23مارچ والی سول ایوارڈ کی تقریب کے حوالے سے دلچسپ تبصرے سامنے آ رہے ہیں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نواب یوسف تالپور نے کہا ہے کہ انکا دل خون کے آنسو رو رہا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور کے سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن کو بعدازمرگ ایوارڈ سے کیوں نوازا گیا حالانکہ 1965ء کی جنگ میں بطور لیفٹیننٹ کرنل مجیب الرحمن نے ریڈیو تراڑکھل سے ڈھول کا پول نامی پروگرام کر کے بھارت کو پریشان کئے رکھا تعلیم بالغاں‘ نئی روشنی سکول وعلم کے حوالے سے ڈھیروں کام مجیب الرحمن کے اعمال نامے میں لکھے ہوئے ہیں نیا پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کی تیاری بھی مجیب الرحمن کی سربراہی میں ہوئی تھی جس پر دستخط غلام اسحاق خان نے کئے تھے‘ مجیب الرحمن تو کسی بڑے ایوارڈ کے مستحق تھے مگر نواب یوسف تالپور سے وہ بھی برداشت نہ ہوا حالانکہ ضیاء الحق نے ایک نیا سول ایوارڈ جاری کیا تھا ”صدارتی ایورڈ برائے حسن کارکردگی“ اس کے ساتھ نقد انعام دیا جاتا ہے‘ اس دفعہ 36حسن کارکردگی ایوارڈ دیئے اور دو تین کو چھوڑ کر باقی سارے پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھنے والوں کو دیئے گئے کیونکہ اس کے ساتھ تین لاکھ روپے بھی تھے‘ ریڈیو پاکستان کے ایک سابقہ افسر کو جس قومی گیت پر ستارہ امتیاز دیا گیا ہے وہ ریئس امروہی کا لکھا ہوا ہے چونکہ ان کا بیٹا وزیر اعظم کا PRO ہے اس لئے سب اچھا ہے۔ لاہور میں کنول فیروز کو تمغہ امتیاز تو ملا مگر چیف سیکرٹری انہیں دعوت نامہ نہ بھیج سکے ٹیلیفونک پیغام پر جب وہ گورنر ہاؤس پہنچے تو چالیس سالہ صحافتی تجربے سمیت پولیس نے انہیں شامل تفتیش کر لیا اور کافی تگ ودو کے بعد جب وہ تمغہ امتیاز لے کر باہر آنے لگے تو انہیں تمغے کا ڈبہ اور ساتھ پانچ سو روپے دیئے کنول فیروز نے کہا پانچ سو روپے نہیں لوں گا توہین ہے‘ جواب ملا کارسرکار میں مداخلت کر رہے ہیں انہوں نے کہا شرم آ رہی ہے‘ کہا گیا رکھ لیں رکشے میں آنے جانے کا خرچ ہے۔
گلگت میں دو کم سن بچوں کو دریا میں ڈوبنے سے بچانے والے ابرار احمد غازی کو تمغہ امتیاز لینے کیلئے ادھر ادھر سے ادھار لے کر آنا پڑا‘ تمغے کے ساتھ ملے اسے بھی پانچ سو روپے اور تمغے کا خالی ڈبہ ابرار احمد غازی کے جذبے کو سلام … جالندھر بھارت میں ہمارے بہت ہی عزیز‘ دوست‘ شاعر پروفیسر ڈاکٹر جگتار سنگھ 75 برس کی عمر میں گذشتہ بدھ کو وفات پا گئے آنجہانی مجھے چھوٹا بھائی کہا کرتے تھے وہ گزشتہ پچیس برسوں سے پاکستان آتے رہے تھے انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں پاکستان پر پی ایچ ڈی کیا اور آخری کتاب پاکستان کا سفرنامہ ان کی وفات کے ایک دن بعد یکم اپریل کو چھپی اب خدا کے پاس ان کا معاملہ ہے اللہ ہم سب پر کرم کرے۔