حیدر آباد دکن سے شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کے شادی کے بندھن میں بندھ جانے کی خبر آئی ہے اور متحدہ عرب امارات سے کچھ اس نوعیت کی خبریں آ رہی ہیں کہ عالمی شہرت رکھنے والی ہالی ووڈ کی سب سے زیادہ خوبصورت قرار پانے والی اداکار الزبتھ ٹیلر سے بھی زیادہ مرتبہ ازدواجی رشتوں سے گزرتے ہوئے شوہران نامدار تبدیل کرنے والی ہماری سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ جو کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ”مدر پلانٹ“ Mother plant ہونے کااعزاز رکھتی ہے ایک اور سیاسی بچے کی ماں بننے والی ہے جس کا نا م اس کی پیدائش سے پہلے ہی آل پاکستان مسلم لیگ میم گروپ رکھ دیا گیا ہے اور ”میم“ سے ”متحدہ“ بھی بنتا ہے تو ”مشرف“ بھی بن سکتا ہے۔
بہت سے لوگ یقین نہیں کریں گے مگر اتنی بہت ساری افواہوں کو بھی بے بنیاد نہیں سمجھاجاسکتا کہ پاکستان کے سابق چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف اپنی سرکردگی، لیڈرشپ اور رہنمائی میں پاکستان کی تمام مسلم لیگوں کو جمع کرکے ایک متحدہ مسلم لیگ کی صورت میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی طاقت بنانا چاہتے ہیں جیسے انہوں نے خود اپنے آپ کو پاکستان سمجھتے ہوئے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگایا تھا ویسے ہی اپنے آپ کو متحدہ مسلم لیگ قرار دیتے ہوئے پاکستان کی سیاسی”سپرپاور“ بننا چاہتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا اور صحیح کہا تھا کہ:
سر خسرو سے تاجِ کجکلاہی چھن بھی جاتا ہے
سر خسرو سے لیکن بوئے سلطانی نہیں ف جاتی
کچھ لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ملک کی سیاسی سپرپاور بننے کی جو خواہش افواج پاکستان کی سربراہی ،فوجی وردی اور اقتدار کے اندر رہتے ہوئے پوری نہیں کرسکے تھے اسے وردی اتر جانے اور اقتدار کے ایوان سے باہر نکل جانے کے بعد کیسے سرانجام دیں گے جبکہ ان کے خلاف آئین کو پامال کرنے کی غداری کے جرم کے تحت مقدمہ قائم کرنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں جس کی سزا آئین کے تحت موت ہے۔اقتدار سے نکل جانے والی بہت سی صورتیں دیکھ کر مجھے بھی اکثر یہی مصرعہ یاد آتا ہے:
کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی
اس سلسلے میں ایک واقعہ کچھ یوں ہے۔ یورپ کے کسی شہر میں چار پاکستانی رہتے تھے انہو ں نے اپنے سیاسی شعور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی اپنے علاقے میں پانچ سیاسی جماعتیں ہیں۔ چار جماعتیں ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی ہیں اور ایک ان کا متحدہ محاذ بھی ہے۔
”دی نیوز“ کے عامر متین پوچھتے ہیں کہ کیا سابق فوجی جرنیل پرویز مشرف 80منٹ کا فاصلہ طے کرکے پاکستان واپس آنے کا حوصلہ دکھاسکتے ہیں؟ جبکہ ان کی وفاداری کی قسمیں کھانے والے ان کی ٹیلیفون کالیں بھی سننے کے روادار نہیں ہیں بلکہ اپنے سابق محسن کے خلاف سخت سست باتیں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے محض یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ ان کا سابق جرنیل اور صدر مملکت سے کوئی رابطہ یا واسطہ نہیں ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سیاسی وفاداریوں کی ”ری سیل“ کی منڈی میں اپنی موجودگی برائے خریداری ظاہر کر رہے ہیں جیسے جاوید شاہین مرحوم نے کہا تھا کہ:
دھڑکا لئے پسند کا اور ناپسند کا
تکتی ہیں چیزیں چشم خریدار کی طرف
کچھ ”چیزیں“ میاں محمد نواز شریف کے دل کے پسیجنے کا انتظار بھی کر رہی ہوں گی اور کچھ پاکستان پیپلزپارٹی میں داخل ہونے کے لئے آصف علی زرداری کے دوستوں کی تلاش میں ہوں گی۔ یہاں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد منعقد ہونے والا پاکستان پیپلزپارٹی کا وہ جلسہ بھی یاد آتا ہے جس میں کسی جیالے نے اپنی تقریر کے دورا ن کہا تھا کہ ’قائد عوام کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہانے کا وعدہ کرنے والو، قوم تمہارے خون کے پہلے قطرے کا انتظار کر رہی ہے۔“
سابق جرنیل پرویز مشرف کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے پاس میاں حامد ناصر چٹھہ، کبیر واسطی اور سردار فاروق لغاری کی گھریلو ٹانگے پارٹیاں ہی رہ جاتی ہیں مگر وہ سب مل ملا کربھی مسلم لیگ قائداعظم گروپ سے آگے نہیں بڑھ سکتیں اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے ایسے ”اقتدار پسندوں“ کا تعاون بھی مشکل ہو جائے گا۔ مسلم لیگ قائداعظم گروپ چودھری شجاعت حسین کے سیاسی قبضے میں ہے چنانچہ سابق جرنیل پرویز مشرف کوحامد ناصر چٹھہ، شیر افگن، سرور خان، محمد علی درانی آف ”سرائیکی صوبہ تحریک“ اور ماروی میمن پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا مگر ان چھ سات لوگوں پر مشتمل سیاسی پارٹی کو آل پاکستان مسلم لیگ متحدہ گروپ قرار دینا مضحکہ خیز لگے گا او رپاکستان میں چار فوجی حکومتوں کے بعد ایک ”سابق فوجی حکومت“ کا خواب دیکھنا تو ممکن ہوگا مگر اس کو شرمندہ ٴ تعبیر کرنا مشکل ہوجائے گا۔
کچھ لوگوں کے خیال میں اصل خبر یہ ہے کہ پاکستان کے آئین میں 17ویں ترمیم کے غائب ہونے اور اٹھارویں ترمیم کے نفاذ کے ذریعے آئین سے جنرل ضیاء الحق کا نام غائب کردیا گیا ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ تاریخ سے جنرل پرویز مشرف کا نام بھی معدوم ہوسکتا ہے مگر ان دونوں آمروں کے نام ”مسلم لیگ ضیاء گروپ“ اور ”آل پاکستان مسلم لیگ مشرف گروپ“ کی صورت میں کوئی دن اور زندہ رہ سکتے ہیں شاید!