میں نے اپنے ایک کالم ’’عظیم فلسفی چانکیہ جی کے نام ـ‘‘میں زور دیا تھا کہ دانااور فلسفی لوگ قدرت کا انمول تحفہ ہوتے ہیں اورتاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں نے ان علم دوست فلسفیوں کے علم و تجربے سے استفادہ کیا، ترقی و خوشحالی انکا مقدر ٹھہری، زمانہ قدیم میں موجودہ پاکستان کے تاریخی شہر ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے ایک عظیم فلسفی چانکیہ جی نے ایک کنیز زادے چندرگپت موریا کواپنی دانائی و حکمت کے ناقابلِ شکست ہتھیاروں سے لیس کرکے ہندوستان کی عظیم الشان موریا سلطنت کا بانی بنا دیاتھا۔ میں نے اپنے کالم (چانکیہ جی ، پارٹ ون) میں آگاہ کیا تھا کہ مورخین کے مطابق چانکیہ جی، جو کوٹلیا اور وشنو گپت کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، کی پیدائش 371قبل مسیح کے عرصہ میں ٹیکسلا میں ہوئی اور انہوں نے ٹیکسلا ہی میں ساری زندگی گزاردی، ٹیکسلا ہی میں اپنی فلسفیانہ کتاب ارتھ شاستر تحریرکی جس میں انہوں نے علوم و فنون، معیشت، ازدواجیات، سیاسیات، قوانین، رسم و رواج ،ادویات، فوجی مہمات اور ریاست کے استحکام سمیت ہر موضوع پر اپنی دانائی کے موتی اس اندازمیں بکھیرے ہیں کہ آج بھی چانکیہ جی کی تعلیمات کا بول بالا ہے۔آج میرا موضوع چانکیہ جی کی ایک اور شاہکارکتاب ’چانکیہ نیتی ‘ہے جس میں انہوں نے سماج سے متعلق اپنی زندگی بھر کے مشاہدات کا نچوڑ پیش کرکے کامیابی کے گُر عام کردئیے ہیں۔موجودہ ڈیجیٹل دور میں کمیونی کیشن کی اہمیت زوروں پر ہے لیکن سینکڑوں برس پہلے چانکیہ نیتی میں بتادیاگیا تھاکہ انسان اپنے معاشرے میں تبادلہ خیال کیے بغیر نہیں رہ سکتا، ہماری کامیابی کا دارومدار اس امر پر ہے کہ ہم کیسے ابلاغ کرتے ہیں، بہتر انداز میں اپنا موقف سمجھانے کیلئے ضروری ہے کہ تین امور کا خاص خیال رکھا جائے،اول کس سے بات کی جارہی ہے، کس انداز میں بات کی جارہی ہے اور کیا بات کی جارہی ہے۔ بات کرنے کا انداز ہمیشہ صورتحال کو مدنظر رکھ کر اپنایا جائے اور الفاظ کا چناؤسوچ سمجھ کر کیا جائے،جو بات کی جائے وہ حقائق پر مبنی سچ ہو، اسی طرح کمیونی کیشن میں خاموشی کی اپنی اہمیت ہے،چانکیہ جی کا کہنا ہے کہ تبادلہ خیال کرتے وقت شور شرابہ کرکے وقتی توجہ حاصل کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی بات میں وزن پیدا کیا جائے اور فریقِ مخالف کی بات اچھی طرح سن کرجواب دیا جائے۔چانکیہ جی کے مطابق زندگی کے اہداف کا حصول مستعدی سے کیا جانا ضروری ہے،انسان کو کامیابی یا کاہلی میں سے کسی ایک کو اپنی ترجیح بناناہوتا ہے، کاہلی انسان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہے جسکے دو بنیادی اسباب عدمِ دلچسپی اورغیر ذمہ داری ہیں جبکہ کامیابی ناکامی کا دارومدارانسان کے اپنے اوپر ہوتا ہے، ناکام افراد اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہیں جبکہ انہیں اپنی ناکامی کی وجوہات اپنے اندر تلاش کرکے سبق سیکھنا چاہئے،یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کسی بھی دوسرے انسان کو آپ کے بیان کردہ عذر شکایات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ، ناکامی کی جذباتی وجوہات بیان کرکے لوگوں کی وقتی ہمدردیاں تو حاصل کی جاسکتی ہیں لیکن حقائق نہیں بدلے جاسکتے۔پائیدار کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ اہداف کا درست تعین کیا جائے اور مواقع ختم ہونے سے قبل ہی درست فیصلے کرلیے جائیں،اسی طرح چانکیہ جی ٹائم مینجمنٹ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہر انسان کو ایک دن میں چوبیس گھنٹے مساوی طور پر دستیاب ہیں، اگر آپ پورا دن سخت محنت تو کرتے ہیں لیکن منظم انداز میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہیں تو آپ درحقیقت اپناوقت ضائع کررہے ہیں۔ عام طور پر مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ سماج کا کمزور فرد طاقتور کا سامنا نہ کرسکنے کے سبب اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے یا پھر ایک مریض بیمار ہونے کے سبب خدا کو یاد کرتا ہے، چانکیہ نیتی کے مطابق ہر حال میں مثبت رویوں کامظاہرہ کرنے والے انسان پر تقدیر بھی مہربان ہوتی ہے۔ چانکیہ جی کا کہنا ہے کہ ایک انسان کی زندگی متحرک ہوتی ہے جس میں اسے مختلف کرداربیک وقت نبھانے ہوتے ہیں، سماجی رتبہ میں بہتری کیلئے مال و دولت سے کہیں زیادہ اہم حصولِ تعلیم ہے اور زندگی کا ہر دن کچھ اچھا اور مفید سیکھنے میں بسر کیا جانا چاہئے۔ زندگی میں درپیش چیلنجز کا مقابلہ علم کے ذریعے بخوبی کیاجاسکتا ہے جبکہ جہالت کی وجہ سے مسائل اورزیادہ الجھ جاتے ہیں، علم کو کتابوں میں محدود رکھنا ایسے ہی ہے جیسے ایک اندھے شخص کا آئینہ اٹھانا، ہم سب کو زندگی کے حقائق جاننے کی جستجو ہمیشہ جاری رکھنی چاہئے۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ ہر انسان اپنے مقصدِ زندگی میں کامیابی کا خواب دیکھتا ہے، چانکیہ جی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ کامیابی کوئی ایسی جنس نہیں جسکوپیسے کے زور پر بازار سے خرید لیا جائے ، دولتمند افراد بھی زندگی کی دوڑ میں ناکام ہوسکتے ہیں جبکہ ایک غریب شخص اپنی حکمت عملی کی بنا پر کامیاب ترین شخص بن سکتا ہے۔ چانکیہ جی نے اس کلیے کو اپنی زندگی میں سچ کردکھایا کہ کس طرح ایک غریب کنیز زادہ چندر گپت موریا اپنے زمانے کے بڑے بڑے راجا مہاراجاؤں کو شکست دیکر عظیم الشان موریا سلطنت قائم کرلیتا ہے۔چانکیہ جی کا مزید کہنا ہے کہ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے درست موقع پر درست فیصلہ اشد ضروری ہوتا ہے، درست فیصلہ وہی کہلاتا ہے جس سے مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہو جبکہ غلط نتائج کا حامل فیصلہ نیک نیتی کے باوجود غلط ہی کہلائے گا۔ چانکیہ نیتی کے مطابق درست فیصلہ کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ اس پر دل و جان سے جُت جانا اہمیت رکھتا ہے، نیم دِلی سے کیے جانے والے فیصلے منزل نہیں پا سکتے۔ یہ دانائی پر مبنی نصیحت بھی دراصل چانکیہ نیتی ہی میں درج ہے کہ بری صحبت سے تنہائی بہتر ہے جبکہ اچھے دوست اور مشیران انسان کی طاقت ہیں، بوڑھے لوگوں کے تجربے سے استفادہ اور رائے کااحترام حصولِ کامیابی کیلئے ضروری ہے۔
ایک انسان کی سب سے بڑی دشمن اسکی اپنی کامیابی ہوا کرتی ہے، کامیاب شخص کے حاسد دشمنوں کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے، چانکیہ نیتی کے مطابق دشمن ہمیشہ کمزوری کی تاک میں رہتا ہے، ایک لمحے کی معمولی غفلت انسان کو عرش سے فرش پر پھینک سکتی ہے، طاقت کے حصول کیلئے مسلسل جدوجہد جاری رکھنی چاہئے، اس حوالے سے چانکیہ نیتی میں تین اہم اصول بیان کیے گئے ہیں کہ کبھی کمزور نہ پڑو، کبھی اپنی کمزوری ظاہر نہ ہونے دو اور کبھی اپنی کمزوری کو معمولی نہ سمجھو، چانکیہ جی کے مطابق اناپسنداورخودغرض افراد کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے جبکہ ایک سمجھدار آدمی غیرضروری تنازعات میں الجھنے سے گریز کرتا ہے۔چانکیہ جی کا ماننا ہے کہ اطمینان کے بغیر خوشی کا حصول بے معنی ہے، انسان کے اعمال کے درست یا غلط کا فیصلہ انسان کا اپنا ضمیر کردیتا ہے، اچھے کام کرنے والے کا دل ہمیشہ مطمئن رہتا ہے جبکہ غلط کام کرنے والے کو اندر سے ہی کچوکے لگتے رہتے ہیں۔ سترہ ابواب پر مشتمل چانکیہ نیتی کتاب کا جیسے جیسے مطالعہ کیا جائے انسان زندگی کے کٹھن سفر میں رہنمائی پاتا جاتا ہے لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ جب ہم اپنے تعصب یا لاعلمی کی بنا پر کسی کو دشمن یا قابلِ نفرت قرار دے دیتے ہیں، آج ہم دنیا جہاں کے دیگر فلسفیوں ارسطو، افلاطون، کنفیوشس وغیرہ کا نام تو عزت و احترام سے لیتے ہیں لیکن اپنے پیارے وطن پاکستان کی سرزمین ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے عظیم فلسفی چانکیہ جی کو نفرتوں کا نشانہ بلاجواز بناتے ہیں۔بطور تاریخ کے طالب علم میرے آج کے کالم کا مقصد حقائق آپ کے سامنے رکھناہے کہ چانکیہ جی کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کرکے فیصلہ آپ خود کریں کہ آج ہمیں سیاست سمیت ہر شعبہ زندگی میں کامیاب ہونے کیلئے چانکیہ جی کی فلسفیانہ تعلیمات سے استفادہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے یا پھرہم تاریخ سے ناانصافی کرتے ہوئے انہیں بطورمنفی شخصیت پیش کرکے تعصب کی نذر کردیں۔میں اپنا یہ مطالبہ بھی دہرانا چاہوں گا کہ چانکیہ جی کی علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ٹیکسلا میں چانکیہ جی کے نام پرعالمی یونیورسٹی قائم کرکے پاکستان کا نام روشن کیا جائے۔