اٹھارویں ترمیم اور اسلام آباد دونوں میں حیرت انگیز مطابقت اور مماثلت پائی جاتی ہے دونوں میں بہت سارے توجہ طلب اور لطاقت آمیز سپاٹ اور ٹاپو موجود ہیں، اسلام آباد میں اگر گرین وڈ اور راول ڈیم کا کنارہ ہے تو کسی دوسرے سیکٹر میں پرشکوہ اور ایمان افروز فیصل مسجد فلک بوس مینار لئے کھڑی ہے حضرت بری شاہ عبداللطیف المشہدی کا مزار اگر توجہ خلائق ہے تو کسی دوسرے سیکٹر میں پیر صاحب گولڑہ شریف پیر مہر علی شاہ کی پنجابی نعت سنائی دے رہی ہے کہ
اج سک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اداس گھنیری اے
دامن کوہ سے بھی بلند گوکینہ اور پیر سوہاوہ جیسے تفریح مقامات بھی اسلام آباد میں موجود ہیں جہاں سے دور بین لگا کے بھی دیکھیں تو ایوان صدر بہت چھوٹا دکھائی دیتا ہے، سملی ڈیم اگر کسی کنج تنہائی میں ہے تو دوسرے سرے پر حج کمپلیکس حجاج کرام کی قدم بوسی کیلئے بیتاب رہتا ہے۔
سبزی اور فروٹ منڈیوں میں ہر دم میلے کا سماں رہتا ہے جمعہ، اتوار اور منگل بازاروں کی رونقیں بڑی دیدنی ہوتی ہیں، بلیو ایریا کی دلکشی کسی طور سپر اور جناح سپر مارکیٹوں سے کم نہیں ہے، شکر پڑیاں کا مونومنٹ، لوک ورثہ، یاسمین گارڈن، یونیورسٹیاں، لائبریریاں، سپریم کورٹ، پارلیمنٹ ہاؤس اوپر نیچے ہوتی ہوئی سڑکیں فلائی اوور، انڈر پاس، اس چھوٹے سے شہر میں کس قدر کشش اور دلچسپیاں موجود ہیں، جنٹری کیلئے اگر کلب، فائیو اسٹار ہوٹل اور مساج ہاؤس موجود ہیں تو عام آدمی کے لئے مالشئے اور چھپر ہوٹل بنائے گئے ہیں جنہیں پٹھان چھپر ہوٹل کہا جاتا ہے ہمارے جیسے خوش طبع سفید پوش دل پشوری کرنے کے لئے ان پٹھان چھپروں کو PC ہوٹل کہہ کے خوش ہو لیتے ہیں الغرض اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں کوئی نہ کوئی دلچسپی اور دلآویزی ضرور موجود ہے۔
اسی طرح 1973ء کے آئین کی اٹھارویں ترمیم میں بھی کہیں تیسری بار وزیراعظم بننے کی کشش رکھ دی گئی ہے تو کسی دوسری جگہ خیبر پختونخوا، خواہ مخواہ موجود ہے۔ ایک جگہ سے اگر اٹھاون 2بی کا بھاری پتھر سرکایا گیا ہے تو وہیں پر پارٹی سربراہ کی طرف سے وزیراعظم کو برطرف کرنے کا بینر آویزاں کر دیا گیا ہے۔ ایوان صدر سے اگر جنرل ضیاء الحق کی تصویر اتار دی گئی ہے اور جمہوریت کو پھلنے پھولنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے تو اسے نظر بد سے بچانے کے لئے پارٹیوں کے اندر انتخابات نہ کرانے کی شق شامل کر کے جمہوریت میں آمریت کی داغ بیل ڈال کر اس پنجابی محاورے کو پورے کا پورا ٹھارویں ترمیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ ”جتھے دی کھوتی اُتھے آن کھلوتی“
اٹھارویں ترمیم میں مختار و محتاج کے دونوں انسانی اوصاف موجود ہیں ایک طرف اگر وزیراعظم پاور فل کر دیا گیا ہے تو الیکشن کے نزدیک پارٹی سربراہ کے وارے نیارے کر دیئے گئے ہیں کہ انتخابی امیدواروں کو ٹکٹ وہی جاری کر سکے گا یہ بالکل اسی طرح کی بات ہے جیسے امتحانوں کے نزدیک سکول ماسٹروں کی چاندی ہو جایا کرتی ہے کہ ان کی ٹیوشنیں لگ جاتی ہیں۔ بہر طور اٹھارویں ترمیم پر جس کسی کو جو نقطہ پسند آ گیا یا جس میں فائدہ دکھائی دیا اس نے وہیں پر دستخط کر دیئے اس طرح یہ متفقہ نہیں مفاداتی ترمیم ہے البتہ کچھ لوگوں کو اس ترمیم کی بعض شقوں پر شدید تحفظات ہیں بالکل اسی طرح جیسے ہمیں اسلام آباد میں بلیک واٹر کی موجودگی پر تحفظات ہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے وزیراعظم نے اختیارات کا منبع بنتے ہی سب سے پہلے وزیر داخلہ رحمان ملک کو بطور ایڈیشنل ڈی جی ایف آئی اے باعزت ریٹائر کر دیا۔
شادی ہال مالکان کے چالان، تاجروں کی پکڑ دھکڑ اور آٹھ بجے رات دکانیں بند کرنے کے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ہفتے میں دو چھٹیوں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔اگر چھٹی کرنے سے ملک روشن ہو سکتا ہے تو پورا ہفتہ چھٹی کر لیں تاکہ قوم کے چودہ طبق روشن ہو جائیں، البتہ وزیر داخلہ رحمان ملک کو باعزت ریٹائر ہونے پر ملنے والی رقم انکے لئے جائز نہیں ہے وہ اسے غرباء میں بانٹ دیں اور کچھ روپے ضلع چارسدہ کی تحصیل شب قدر کے محلہ ڈپو کورونہ، کے مکان نمبر 14 گلی نمبر1 میں مقیم حافظ مشتاق احمد ولد دھاڑی دار مزدور محمد ایاز کو بھجوا دیں، جو نویں جماعت کا طالب علم ہے اور گزشتہ پانچ برسوں سے گردوں کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے ہفتے میں دو بار اس کا ڈائلیسزہوتا ہے جیو کے نمائندے محمد شریف مہمند کی کوششوں سے گزشتہ دور کے وزیراعظم شوکت عزیز اور سرحد کے سابقہ وزیراعلیٰ اکرم درانی نے اس کا مفت علاج شروع کرا دیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی علاج بند کر دیا ہے محلے کے لوگ ہر ہفتے چندہ کر کے اس نوجوان طالب علم کا ڈائلیسزکراتے ہیں آخر کہاں تک وہ ساتھ دیں گے حافظ مشتاق نے قوم سے اپیل کی ہے کہ اگر اٹھارہ کروڑ آبادی کا پانچ فیصد لوگ، پانچ پانچ پیسے بھی بھجوا دیں تو وہ مکمل صحت یاب ہو کر پھر سے سکول جانے کے قابل ہو سکتا ہے۔
یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں