• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کمی کمین اور قاتل اشرافیہ (قسط ا) ...چوراہا …حسن نثار

اگر اس ملک کے لوگوں کو اس ملک کا مستقبل اور اس کی عزت اور آسودگی عزیز ہے تو اس ملک اور اس کے عوام کو قاتل اشرافیہ کی قتل گاہوں سے نکالنا اور نکلنا ہو گا اور اس بانجھ، بنجر اور بیدرد اشرافیہ کو عضو معطل بنانا ہو گا، انہیں کھل کھیلنے سے روکنا ہو گا۔
ہمارے آقا محمد عربی کو مزدور کے پسینے کی خوشبو پسند تھی، آپ ہاتھ سے کام کرنے والوں کو محترم گردانتے تھے جبکہ اس ملک کی کام چور، حرام خور پیرا سائٹس نما اشرافیہ نے محنت کرنے والوں کو کمی کمین اور غیرملکی حکمرانوں کے چاکروں یعنی اپنے آپ کو خاندانی قرار دینے کے کامیاب پروپیگنڈے کے بعد اس ملک کے ان تخلیق کاروں کی کمر توڑ دی۔ سچ یہ ہے کہ اشرافیہ کو تاریخ کی روشنی میں دیکھیں تو یہ بے غیرتی اور بانجھ پن کا غلیظ ترین امتزاج ہے جبکہ اس ملک کا کمی کمین نامساعد ترین حالات کے باوجود کسی پر بوجھ نہیں بلکہ بہت کچھ کونٹری بیوٹ کرتا ہے۔ اس کو اس کا جائز مقام دے دیا جائے تو یہ طبقہ تن تنہا اس ملک کو دلدل سے نکال سکتا ہے۔ جیسے برطانوی صنعتی انقلاب کے بانیوں نے کیا تھا جو نہ بنیادی طور پر سائنسدان تھے نہ ٹیکنالوجی کے ماہرین..... ان میں سے بیشتر ”کمی کمین“ ہی تھے جنہوں نے سماجی حالات کی سازگاری کے ساتھ ہی ایسے ایسے معجزے کر دکھائے کہ باشعور دنیا آج بھی ان کے نام احترام سے لیتی اور ان سب کو اپنا اور بنی نوع انسان کا محسن سمجھتی ہے۔ یہ چند ”کمی کمین“ نہ ہوتے تو یہ دنیا ہرگز ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہمیں دکھائی دیتی ہے۔
بات سمجھنے کے لئے اتنی مثال ہی کافی ہے کہ ابھی کل انیسویں صدی کی ابتداء میں نپولین بونا پارٹ جیسا جینئس بھی اس سپیڈ سے زیادہ تیزی کے ساتھ سفر کرنے کے قابل نہ تھا جس رفتار سے دو ہزار سال پہلے عظیم فاتح سیزر کیا کرتا تھا لیکن نپولین کے صرف 50 سال بعد ”کمی کمینوں“ نے تیزی سے دنیا کا چہرہ، تیور، رفتار، اسلوب، انداز تبدیل کرنا شروع کر دیئے اور آج خچر سواروں کو پر لگے ہوئے ہیں، جنہیں ساتھ والے گاؤں کی خبر نہ ہوتی تھی وہ پوری دنیا کے حالات ”لائیو“ دیکھتے ہیں، جن کے ”مغل اعظم “ کی پیچش لاعلاج تھی آج جنیٹک انجینئرنگ کے معجزوں میں مصروف ہیں۔
یہ ”کمی کمین“ ہی تھے جو پہیے، بادبان اور گھوڑے کی زین میں پھنسی زمین کو خلاؤں تک پہنچانے کا باعث بنے مثلاً لنکا شائر کا ٹیکسٹائل مشین مین جان کے (-1722 1778) جس نے 1764 میں سپننگ جیسی ایجاد کی وہ جولاہا تھا رچرڈ آرک رائٹ (1732۔ 1792) ایک حجام کا بیٹا تھا جسے لفتی حقارت سے نائی کہتے ہیں، نے 1769 میں واٹر فریم ایجاد کیا (پاکستان کے پیرا سائٹ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ کتنا بڑا انقلاب تھا)۔ اسی طرح سیموئیل کرامپٹن (1827-1753) جس نے 1779 میں سپننگ مشین کے لئے وہ چیز ایجاد کی جو آج بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے، ذات کا کمہار تھا۔ تھامس نیوکوین (1729-1663) ایک مکینک تھا اور اس کا ساتھی جیمز واٹ (1819-1736) گلاسکو یونیورسٹی میں بطور آہن گر کام کرتے تھے یعنی دونوں میں سے کوئی بھی سائنسدان نہیں تھا۔
یہاں جہالت اور جمود کے ”پاکیزہ پیغام بروں“ کے لئے لگے ہاتھوں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لفظ سائنس کا مصدر لاطینی زبان کا لفظ ”سائنشیا“ ہے جس کا مطلب ہے علم اور ”ٹیکنالوجی“ کا لفظ یونانی لفظ ”ٹیکنے“ سے نکلا ہے جس کے معنی فن یا مہارت کے ہیں۔ نجانے وہ کون سے اسلام اور مسلمان دشمن ہیں جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو دین سے متصادم قرار دیتے ہیں۔
مردود اشرافیہ کے لئے تاریخ کے ہر دور اور معاشرہ میں ہاتھوں سے کام کرنا باعث توہین رہا ہے جبکہ انسانی معاشرہ کہلانے کا حق دار صرف ایک ایسا معاشرہ ہوتا ہے جہاں سر اور ہاتھوں کے ملاپ پر مبنی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوں۔ چین کا وہ ماندرین طبقہ جو اپنے اشراف ہونے کے ثبوت کے طور پر اپنے ناخن بڑھا لیتا تھا، ان کے سامنے حقیر و ذلیل ہونا ہی تھا جو اپنے ہاتھ آلودہ کرنے پر تیار تھے۔
کون تھے یہ تھامس ایڈیسن (1931-1847) اور ہنری فورڈ (1947-1863) ۔ یہ اسی قسم اور قبیل کے لوگوں کا کمال تھا کہ دخانی جہازوں اور دخانی ریلوے نے براعظموں کو آپس میں جوڑ کر دنیا کا نقشہ، خد و خال اور معنی یکسر تبدیل کر دیئے اور دنیا کے بڑے ممالک کا ایک مکمل معاشی یونٹ معرض وجود میں آیا۔
سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ہمارے عہد اور اس کے بعد کی وہ فیصلہ کن قوتیں ہیں جو فیصلہ کریں گی کہ کس ملک اور معاشرے نے پست ہونا ہے یا بلندنشیب میں جانا ہے یا فراز اس کا مقدر ہو گا یہ امیر ہو گا یا غریب؟ گداگر ہو گا یا بخت آور؟ باعزت ہو گا یا بے عزت؟
ہمارے سطحی سقراط اور احمق افلاطون گھوڑے تیار رکھنے والے حکم قرآنی کو محض ایٹم بم بنانے کے ساتھ کنفیوژ کرتے رہتے ہیں حالانکہ اس حکم کا اصل مطلب یہ ہے کہ ”سائنس اینڈ ٹیکنالوجی“ کے گھوڑوں پر مشتمل پورا اصطبل تیار رکھو لیکن یہاں کے بانجھ طبقات نے یہاں کے تخلیقی طبقوں اور حقیقی وارثوں کو ”کمی کمین“ قرار دے کر بھوک اور بے عزتی کے بیگار کیمپوں میں قید کر رکھا ہے۔
(جاری ہے)
تازہ ترین