کراچی میں ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان میں بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ بجلی کو کب آنا ہے کب چلے جانا ہے اس کا پتہ کسی کو نہیں‘ بس اچانک آجاتی ہے تو اچانک ہی چلی بھی جاتی ہے۔ وزیر بجلی و پانی راجہ پرویز اشرف نے فرمایا کہ کراچی میں لوڈ شیڈنگ ختم کردی گئی، سبحان اللہ۔ کیا بات کی ہے ایسی لاجواب بات جس کا انہیں خود بھی پتہ نہیں ہے‘ ایسا شاید انہوں نے اس وقفے کے دوران کہا ہوگا جب انہیں بجلی کی روشنی ٹپائی دی ہوگی ویسے تو اردو کا محاورہ مختلف ہے۔ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی۔ کراچی میں تو چھٹی والے دن جب اکثر بازار‘ دفاتر اور صنعتیں بند ہوتی ہیں پھر بھی طویل لوڈشیڈنگ معمول ہے۔ گرمی کی شدت اور بجلی کی عدم فراہمی نے لوگوں میں بجلی بھر دی ہے۔ وہ کام جو سیاسی لیڈر قوم سے نہ کرا سکے وہ راجہ پرویز اشرف نے کر دکھایا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے دور اقتدار میں لوگوں میں اتنی بے حسی پید اکردی تھی کہ سرکار کچھ بھی کرتی رہے لوگ بے حس بے پروا رہتے تھے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تھی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں اور اس کے بعد کی حکومتوں میں چاہے جیسی لوٹ مار ہوتی رہی ہو‘ تاجروں نے‘ صنعت کاروں نے جس طرح جب جب چاہا اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرنا چاہا کردیا۔ صارفین نے ہر ناقابل برداشت بوجھ اور اضافے کو بڑے صبر و شکر سے برداشت کرلیا پھر یوں ہوا کہ انگلی پکڑنے والوں نے نا صرف پونچہ پکڑا بلکہ اب تو گردنوں پر بھی ہاتھ ڈال بیٹھے ہیں۔
جنرل ایوب خان کے دور میں چینی کی قیمت میں صرف چار آنے یعنی آج کے پچیس پیسوں کا اضافہ ہوا تھا تو ملک کے طول و عرض میں قیامت برپا ہوگئی تھی۔ جنرل ایوب کی حکومت کو اپنا بوریا بستر تمام تر قوت و اقتدار کے باوجود لپیٹنا پڑ گیا تھا۔ ایک روپے سیر کی چینی سوا روپے سیر عوام نے خریدنے سے انکار کردیا تھا۔ اب جب کہ چینی ستر پچھتر روپے کلو تک پہنچ چکی ہے تب بھی لوگوں میں زرا سی سرسراہٹ ہی ہوئی تھی وہ بھی اس قیمت پر نہیں بلکہ ان قیمتوں پر بھی بآسانی دستیاب نہیں ہو رہی تھی۔ یہی حال آٹے کا ہے کہ ایک روپے کلو کا آٹا آج تیس بتیس روپے کلو مل رہا ہے تب بھی غریب غربا جو فاقے کرنا تو پسند کر رہے ہیں لیکن اس پر احتجاج کرنے کی ان میں بھی ہمت و حوصلہ نہیں بے روزگاری کے مارے نوجوان بھی تلاش معاش کے چکر میں ایسے پڑے ہیں کہ انہیں اس کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ مہنگائی بیروزگاری کے خلاف کوئی احتجاج کریں‘ سڑکوں پر نکلیں لیکن تقریباً تیس بتیس سال بعد راجہ پرویز اشرف کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے اس سوئی ہوئی قوم کو نہ صرف جگا دیا ہے بلکہ اس میں بجلی بھر دی ہے۔ شاید اسی سبب بجلی جلانے کے لئے کم پڑ رہی ہے۔ کراچی شہر کے تمام مضافاتی علاقوں بلدیہ‘ کورنگی‘ اورنگی ٹاؤن ‘ لیاری‘ لانڈھی اور اس کے ملحقہ علاقوں کے لوگ گرمی کی شدت سے اور بجلی کی عدم دستیابی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ہر طرح سے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاجی معاملہ کراچی کا ہی نہیں ہے۔لاہور‘ فیصل آباد‘ راولپنڈی‘ جھنگ‘ جہلم اور دیگر تمام بڑے چھوٹے شہروں کا ہے وہاں پر روز صبح شام احتجاج ہو رہے ہیں۔ سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک کو بلاک کرکے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن نا تو راجہ پرویز اشرف اور نہ ہی ان کی سرپرست حکومت وقت کچھ کر پا رہی ہے۔ ہاں اس سے یہ ضرور ہو رہاہے کہ لوگوں میں احتجاج کی قوت بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کی بے حسی کا بند ٹوٹنے لگا ہے حکمرانوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ایک طویل بے حسی کی نیند سے وہ جس قوم کو جگا چکے ہیں اور جگا رہے ہیں اسے آسانی سے پھر بے حسی کی نیند سلانا ممکن نہیں رہے گا‘ اگر یہ قوم ایک بار جاگ گئی تو سیلابی ریلے کی مانند سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے جائے گی اس قوم کا ماضی گواہ ہے۔
بے حسی کی نیند سے بیدار ہونے والی قوم اب بتدریج اپنے حواس میں لوٹ رہی ہے اسے عدلیہ اور حکومت کے ٹکراؤ کا خطرہ بھی محسوس ہو رہا ہے حکمرانوں کی بے حسی بے پروائی بھی نظر آنے لگی ہے کہ جس طرح وہ عدلیہ کے احکامات کو سبوتاژ کر رہے ہیں ان سے صرف نظر کر رہے ہیں وہ ان کی خود اعتمادی کا نہیں بلکہ ان کی بے حسی کا مظہر ہے۔ اقتدار کی بلند و بلا ایوانوں میں مقیم لوگوں کو عوام نے اپنے کندھوں پر سوار کر کے اس اعلیٰ ترین منصب کی بلند ترین مسند پر بٹھایا ہے اب انہیں وہی عوام بونے پستہ قد نظر آنے لگے ہیں لیکن انہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو ہاتھ انہیں اٹھا کر بلندی پر پہنچا سکتے ہیں وہی ہاتھ انہیں اس بلندی سے نیچے اتار بھی سکتے ہیں اب جب کہ اس قوم کی بے حسی آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہے اور ان میں احتجاجی قوت سما رہی ہے تو آنے والے وقت میں اہل سیاست اور اہل حکومت کے لئے خطرات بھی جنم لے رہے ہیں ابھی وقت ہے کہ اس سے پہلے کہ بجلی کی نایابی عوام میں بجلی بھر دے حکمرانوں کو چاہئے کہ ان کے گھروں کو بجلی مہیا کرے تاکہ وہ پھر سے آرام کی نیند سوجائیں اور اپنی اس بے حسی بے یقینی اور صبر شکر کی نیند کے مزے لوٹنے میں مگن ہوجائیں اور حکمران پھر اپنی من مانی کرنے میں آزادی محسوس کرنے لگیں اور جس طرح چاہیں کند چھری سے عوام کو ذبح کرتے رہیں۔
عالمی سطح پر پاکستان اور پاکستانیوں کا وقار جس طرح پامال کیا جا رہا ہے۔ اس کی مثال جنرل پرویز مشرف نے جس طرح قائم کی تھی اب اس میں امریکی نقطہ نگاہ سے مزید بہتری آتی جا رہی ہے امریکیوں کے نا صرف مطالبات میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی پاکستانی حکمرانوں سے توقعات میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اب وہ بھی پاکستانی قوم کو اپنی ایک کالونی کی ہی طرح برتتے ہیں جس میں ہر آنے والے لمحے کے ساتھ اضافہ ہی ہو رہا ہے امریکہ بھی پاکستان کو روشن پاکستان نہیں دیکھنا چاہتا اس کی خواہش ہے کہ پاکستان تاریکیوں میں ڈوبا رہے ہر طرح سے اس کا محتاج رہے اسی کے آگے دست سوال دراز رکھے۔ امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد کرنے اور کرانے میں راجہ پرویز اشرف اور جنرل پرویز مشرف میں صرف ایک لفظی فرق ہے۔ راجہ صاحب الف لگنے سے اشرف ہوگئے اور جنرل صاحب م لگنے سے مشرف ہوگئے لیکن دونوں کا انداز حکمرانی تقریباً یکساں ہی ہے کہ سنو سب کی کرو اپنے من کی۔ ان کی پالیسی ہے کہ دریا بہنے کے لئے ہے تو دنیا کہنے کے لئے اور جس طرح دریا کہ بہنے سے ان کا کچھ نقصان نہیں ہوتا ویسے ہی دنیا کے بقول ان کے بک بک کرنے سے کیا فرق پڑا ہے۔ ”ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں“۔
بہر حال میرے خیال سے تو قوم کو راجہ پرویز اشرف کو کوئی بڑا اعزاز، کوئی بڑا تمغہ پاکستان دینا چاہئے کہ انہوں نے چٹکی بجاتے میں قوم کی بے حسی کو دور کردیا اور ان میں وہ قوت و اعتماد بھر دیا جس کی کسی قوم کو احتجاج کرنے اپنے مطالبات منوانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ قوم کو احتجاج پر آمادہ کرنے کے لئے ان کی بجلی بند کر کے ان میں بجلی بھرنے کے لئے پوری پاکستانی قوم اور خصوصاً حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کو بھی راجہ پرویز اشرف کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ وہ کام انہوں نے کر لیا جو بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بڑے بڑے سیاسی لیڈر ادا نہیں کرسکے انہوں نے اکیلے ہی یہ معرکہ سر کرلیا ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے پاکستان کو سر بلند کرے، آمین۔