22دسمبر کی سرد صبح تھی۔ لیڈی ولنگٹن اسپتال میں میرا پہلا دن تھا میں ٹھیک آٹھ بجے انستھیزیا آفس میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آتش دان کے پاس دو ڈاکٹر حضرات اور ایک سترہ اٹھارہ سال کا لڑکا بیٹھے ہاتھ سینک رہا ہے، میں نے اپنا تعارف کروایا اور قریب رکھی کرسی پر بیٹھ گیا، اس سے پہلے کہ کوئی بات چیت شروع ہوتی آفس کا دروازہ کھلا اور گائنی کی پروفیسر اندر داخل ہوئیں، ہم سب احتراماً کھڑے ہوگئے وہ بولیں مریضہ کی حالت اب خطرے سے باہر ہے اسے ریکوری (Recovery)روم میں شفٹ کردیا گیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے نوجوان لڑکے کو اشارہ کیا اور وہ دونوں کمرے سے باہر نکل گئے ان کے جانے کے بعد ڈاکٹر حضرات نے سارا واقعہ بیان کیا جو کچھ یوں تھا، فجر کی نماز کے قریب ایک مریضہ کا سیکشن کیا گیا جس کے دوران کچھ پیچیدگی کے باعث مریضہ کا خون بڑی حد تک ضائع ہوگیا۔ پروفیسر صاحبہ کو فوراً اطلاع دی گئی کیونکہ ان کا حکم تھا کہ ہر پیچیدہ کیس کے بارے میں فوراً انہیں اطلاع دی جائے، انہیں بتایا گیا کہ مریضہ کا بلڈ گروپ بی نیگیٹو ہے جو اسپتال میں اس وقت دستیاب نہیں۔ کوشش جاری ہے کہ کسی طرح اس کا جلد بندوبست کیا جائے۔ پروفیسر صاحبہ جلد ہی اسپتال میں موجود تھیں وہ اکیلی نہیں آئی تھیں بلکہ اپنے دونوں بیٹوں کو ساتھ لائی تھیں جن کا بلڈ گروپ بی نیگیٹو تھا۔ پروفسر صاحبہ نے نہ صرف آپریشن سنبھالا اورمریضہ کی جان بچائی بلکہ رات کے اس پہر ایک عام مریض کے لئے سخت سردی کے دنوں بیٹوں کو ساتھ لا کر خون عطیہ دلوا کر انسانیت کی لازوال مثال قائم کی۔ اس دن کے بعد میں اس عظیم خاتون کا معتقد ہوگیا۔ یہ میرا ’’ڈاکٹر یاسمین راشد‘‘ سے پہلا تعارف تھا۔ اب کوئی بھی شخص سیاسی مخالفت میں اس عظیم خاتون کو لاکھ برا بھلا کہتا رہے میرے لئے وہ فرشتہ صفت ہیں، ایک عظیم مسیحا، ان کی کامیابی کے لئے ہر وقت دعاگو ہوں۔ ڈاکٹر بدر شہزاد کی درج بالا تحریر ہمارے بھانجے ڈاکٹر ساجد رفیق نے رحیم یار خان سے بھیجی، خیال گزرا کہ ایسا ہی کوئی عینی شاہد دوسرے فریق کی طرف سےبھی میسر ہو تو کچھ بات بنے، اتفاق سے دو ایک دن پہلے روزنامہ جنگ کے استاد صحافی کی تحریر نظر سے گزری تو یقین ہوا (کہ معلوم تو پہلے سے تھا) کہ بیگم کلثوم نوازصاحبہ بھی ڈاکٹر ہیں لیکن وہ ڈاکٹر یاسمین راشد کی طرح دکھ، درد، بیماری کا علاج کرنے والی ڈاکٹر نہیں ہیں، نہ ہی ڈگری انہوں نے رحمان ملک کی طرح اعزاز میں ہتھیائی نہ ہی مشہور اینکر پرسن کی طرح ایگزٹ سے خریدی، بلکہ جب میاں نوازشریف پہلی دفعہ وزیراعظم بنے ان دنوں بیگم صاحبہ نے خاتون اول کا اسٹیٹس انجوائے کرنے کی بجائے بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد اردوادب پر تحقیقی مقالہ لکھا یوں ’’پی ایچ ڈی‘‘ کر کے ڈاکٹر کہلائیں، اسی ڈگری کا فیضان ہے کہ اب میاں صاحب بھی کچھ ادب کی طرف مائل ہونے لگے ہیں۔ کیا عجب کہ فراغت کے ان دنوں میں خربوزہ بھی رنگ پکڑ جائے، سپریم کورٹ کے کسی مثبت فیصلہ کے بعد اب ہم سب کو ایک ڈاکٹر وزیراعظم میسر ہو۔ انہی کے کہے پر معلوم ہوا کہ بیگم صاحبہ رائٹر بھی ہیں لیکن ان کی تصانیف کی کوئی تفصیل درج نہیں ورنہ بہت سے لوگ ان کے رشحات قلم سے فیض یاب ہوسکتے تھے۔ لاہور کے انتخابی حلقہ 120کی قسمت جاگ اٹھی ہے، آج اس علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا، چھوٹی چھوٹی تنگ گلیوں سے پانی نکالا جاچکا ہے، صفائی کی جارہی ہے، جو گلیاں صاف ہیں وہاں تارکول ڈالا اور بجری بچھائی جارہی ہے، اسٹریٹ لائٹ لگ رہی ہیں، گیس کی ضرورت ہو میٹر دستیاب ہیں، چھ ہزار سرکاری ملازمتوں کا بندوبست کردیا گیا ہے۔ وزیر، مشیر، ممبران اسمبلی رات گئے لیلیٰ ووٹ سے ہم آغوشی کی آرزو میں مجنوں بنے پھرتے ہیں۔ بھلے میاں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے نکلنے کا صدمہ جھیلنا پڑا لیکن اس میں بھی لاہور خصوصاً حلقہ 120کی قسمت جاگ اٹھی ہے، ایک عہدہ جانے سے جانے کتنوں کا بھلا ہوگا، لاچار شہریوں کی اس چارہ سازی پر ضرور میاں صاحب کو بھی بہتر اور بتہرا اجر ملے گا۔
آج لاہور میں میرٹ (Merit) اور اسٹیٹس (Status) کا مقابلہ ہے اور کانٹے کا مقابلہ، ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ ڈاکٹر ہیں اور پروفیسر بھی، ساری عمر لاہور میں خواتین کی مسیحائی میں گزری، کچھ نئے مسیحائوں کی تعلیم، رہنمائی اور ہنر سکھانے میں بسر ہوئی، کئی سال مسلسل پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA)کی صدر رہیں۔ جن دنوں ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ پی ایم اے کی صدر تھیں، ملک بھر میں سیلاب نے تباہ کاریاں مچا رکھی تھیں، تب محترمہ ڈاکٹروں کی ٹیمیں تشکیل دے رہی تھیں، ان کے لئے ادویات بہم پہنچارہی تھیں، کمبل، خیمے، راشن ٹرکوں پر لاد ان ٹیموں کے ہمراہ روانہ کررہی تھیں۔ بڑھتی عمر کے باوجود وہ تھکی ہاری مضمحل کبھی نہ ہوئیں آج تک ان کی یہی حالت ہے، بیگم کلثوم نواز اور ان کی حالیہ حریف ڈاکٹر یاسمین راشد ، صنف اور عمر میں تقریباً برابر ہیں، ایک گھریلو خاتون دوسری ورکنگ لیڈی، ایک کے شوہر نے اسے اسٹیٹس دیا دوسری نے اپنا میرٹ خود بنایا، ڈاکٹر یاسمین راشد فرض شناس، حساس اور محنتی خاتون ہونے کے ساتھ بڑی دبنگ، دلیر اوربلا کی مقرر ہیں مسیحائی کے ہنر کے علاوہ سیاست کے پیچ و خم خوب جانتی ہیں اور نظریاتی سیاست کی ذمہ داریوں سے آگاہ بھی ہیں۔ ان کے مقابلے میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ بھی کسی سے کم تو نہیں وہ تین مرتبہ خاتون اول رہ چکی ہیں، سنتے ہیں کہ وہ گاہے اپنے وزیراعظم شوہر کے لئے تقاریر بھی لکھتی رہیں۔ خاتون اول کے منصب سے سبکدوش ہونے میں ان کا اپنا کچھ دوش نہیں، پورے گھرانے میں وہ واحد فرد ہیں جو بجا طور یہ پوچھ سکتی ہیں کہ ’’کیوں نکالا مجھے‘‘ وہ خواہ مخواہ اور دوسروں کے کئے کا شکار ہوئیں، بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، انہیں علاج کی خاطر بیرون ملک جانا پڑا، ان کی غیر موجودگی میں ان کی بیٹی مریم صفدر صاحبہ انتخابی مہم چلا رہی ہیںاور خوب چلا رہی ہیں، کرکٹ کے کھیل میں یہ اصول ہے کہ بلے باز اگر اس طرح زخمی ہو کہ بلے بازی تو کرسکے مگر دوڑنے کے قابل نہ ہو تو اسے ایک رنر دے دیا جاتا ہے جو اس کی جگہ وکٹوں کے درمیان رن لینے کے لئے دوڑتا رہے، اسی طرح دوران امتحان اگر کوئی طالب علم لکھنے کے قابل نہ ہو تو اسے اپنے سے کم تعلیمی اہلیت کا کوئی لکھاری دے دیاجاتا ہے، جسے معذور طالب علم متعلقہ سوالات کے جوابات لکھواتا رہے، اب خوش قسمتی سے انضمام الحق ایسے سست رو کو میاں داد جیسا رنر مل جائے یا بدخط طالب علم کو ’’خوش خط‘‘ لکھاری تو ایسے کھلاڑی یا طالب علم کو کافی فائدہ ہوسکتا ہے، بیگم کلثوم نوازصاحبہ کو اللہ تعالیٰ جلد صحت و تندرستی عطا کریں، اندریں حالات انہیںپریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ان کی جگہ بھاگ دوڑ کے لئے زیادہ جواں سال رنر اور امتحان میں سہ خروئی کے لئے خوش خط لکھاری دستیاب ہے۔
این اے 120دو صوبائی حلقوں پر مشتمل ہے PP139اور PP140۔ حلقہ 140میں میاں اظہر صاحب کا آبائی گھر ہے جہاں یاسمین راشد صاحبہ کا مرکزی دفتر ہے، آج دن تک حلقہ 140میں ڈاکٹر صاحبہ کا پلڑا بھاری ہے تو 139میں ترازو بیگم صاحبہ کی طرف جھکتا ہے، چوٹ یکساں پڑ رہی ہے اور جوڑ برابر جارہا ہے، مقامی حکومت، بلدیاتی حکومت، صوبائی اور مرکزی حکومتوں کےوسائل اور تنظیم کا مقابلہ جان جوکھم کا کام ہے پھر بھی مقابلہ کیا تو جارہا ہے، جو طریقہ کار حلقہ 122میں اختیار کیا گیا تھا، اس کا اعادہ جاری ہے، 29ہزار ووٹ، بے چہرہ آن ٹپکے ہیں، نادرا اور الیکشن کمیشن جن کا الزام ایک دوسرے پر دھرتے ہیں، تحریک انصاف عرضی لئے ہر دروازہ انصاف کا کھٹکھٹا رہی ہے، دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔