سوا گھنٹے کی تقریرکے اختتام پر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہایت متکبرانہ لہجے میں دعویٰ کیا کہ کوئی خواب ہماری دسترس سے دور نہیں رہ سکتاہم کچھ بھی خواب دیکھ سکتے ہیں اورکچھ بھی بنا سکتے ہیںہم توانائی برآمد کنندہ بن چکے ہیں۔ ہم امریکی ہیںمستقبل ہمارا ہےہم امریکہ کو دوبارہ طاقتور بنائیں گے لیکن آخر وہی ہوا کہ انکی زبان لڑ کھڑا گئی اور وہ اعتراف کر بیٹھےکہ ہم نے کیمونزم کو شکست دی۔ یہ ہے امریکہ کی اصل شکل جسے وہ چھپانے کی مقدور بھر کوشش کرتا ہے لیکن خدا کی خدائی سے بڑا نہیں ہوسکتا ہے۔ یہی وہ امریکہ ہے جو ایک طرف دنیا میںمبلغ کا روپ دھارے ہوئے جمہوریت کی خوبصورت ترین تصویر کا نقشہ کھینچ کر اسکی حمایت میں تبلیغ کرتا دکھائی دیتا ہے تو دوسری طرف اسی سپر پاور امریکہ کے شعبہ اسپیشل آپریشنز کمانڈ کے اعداد وشمار بتاتے ہیںکہ جن ممالک میں امریکی خصوصی آپریشنز کرنے کیلئے فورسز تعینات کی جاچکی ہیںانکی تعداد 135تک جاپہنچی ہے۔ جارج بش اول کے دور میں ان ممالک کی تعداد35تھی۔ خدا کی پناہ یعنی ستر فیصدی دنیا کے ممالک میں ہر روز امریکی ایلیٹ ٹروپس بیشترخفیہ اور بعض اوقات اعلانیہ آپریشنز سرانجام دے رہے ہیں۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق عراق اور افغانستان میں کئے جانے والے امریکی فورسز کے آپریشنز کی تعداد باقی ممالک کی نسبت انتہائی تیزی سے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ یعنی ان تمام ممالک کی حکومتوں کو قابو میں رکھنے اور اپنا سکہ جمانے کی کوششوں میںامریکی فورسز تسلسل سے مصروف ہیں۔ اس مشن میں امریکہ کو پہلے صرف روس ٹکر دیا کرتا تھا۔
ا ب جنوبی ایشیامیں امریکی منصوبہ کھٹائی میں پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ جنوبی ایشیائی خطہ کے گرم پانیوں اور اہداری پر تسلط جما ئے رکھنے اور مفادات کے حصول کیلئے تغیر و تبدیلی برپا کرنے والی سپر پاورز کا خون آشام کھیل ایک بار پھر زور پکڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستان کے خلاف تذویراتی سوچ اور منصوبہ بندی کے اعلان نےایک نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے۔ اپنی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کر ہی لیاکہ اوول ہائوس میں جانے کے بعد میری سوچ اورفیصلوں میں تبدیلی آچکی ہے۔ ماضی میںافغانستان سے فوجیں نکالنے کے زوردار بیان پر یوٹرن لینے والےٹرمپ نےکتنی مضحکہ بات کی کہ اب افغانستان کیلئے کوئی بلینک چیک نہیں جاری کیا جائیگا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج تک امریکہ نے اس کیلئے کوئی بلینک چیک جاری ہی نہ کیا۔ جتنے بھی فنڈز جاری کئے اس کی پائی پائی کا حساب لیا گیا۔ افغان جنگ کے تناظر میںڈونلڈ ٹرمپ کو بولنے کیلئے یہ جملہ لکھ کر دیا گیا تھا کہ آخر میں ہم ہی جیتیں گے۔شاید وہ بھول گئے ہیں کہ ویت نام جنگ میں بھی جیتنے کانعرہ لگایا گیا تھا جب فوجیوں کی لاشیں آئیں توامریکہ میں کہرام مچ گیا۔ واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز کی اسٹڈی کاسٹ آف وار پروجیکٹ کے مطابق گزشتہ سولہ سالوں میں افغان جنگ کے نتیجے میں 1لاکھ 73 ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جبکہ 2لاکھ کے قریب شدید زخمی ہوئے جن میں سے اکثریت معذور ہو کر زندگی کی رعنائیوںسے محروم ہوچکی ہے۔ امریکی جنوبی ایشیائی پالیسی کے اعلان کے بعد مجموعی طور پر خطے اور عمومی طور پر پاکستان کی سیاسی صورتحال میں بھونچال برپا ہوگیا ہے۔ ٹرمپ بیانیے پربھارت تو شادیانے بجا رہا ہے لیکن اس بیانیے نےچین اور روس کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے پر مجبور کردیا ہے کیونکہ انھیں یقین ہوچکا ہے کہ امریکہ اور بھارت مل کر نہ صرف چین اور پاکستان کو دیوار سے لگانے کی کھلے بندوں تیاریاں کررہے ہیں بلکہ علاقہ میںچین اور روس کے مفادات کو ناقابل تلافی زک پہنچائیں گے اس تناظر میں انھیں اسرائیل کی مکمل حمایت حاصل ہے۔افغانستان میں نہ ختم ہونے والی جنگ کے تناظر میں روس اور چین کا پاکستان کی حمایت میںاکٹھے ہونا ایک معمولی واقعہ نہیں ہے۔پاکستانی حکومت، فوج اورسیاستدانوں نے ٹرمپ پالیسی کو یکسر مسترد کردیا اور کہا ہے کہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے کھربوں روپے کے نقصان کی نہ ہی کوئی تلافی کی گئی اور نہ ہی جانی قربانیوں کا اعتراف کیا گیا بلکہ بلیک میلنگ کرتے ہوئے ڈو مور کا مطالبہ کرکے نئی دھمکیاں دی گئیں۔ افغان جنگ کے بدلے میں مونگ پھلی جیسی امداد دے کر امریکہ حاتم طائی کی قبر کو لات مار رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نہ صرف شام اور عراق سے سرخرو ہوکر نکلنا چاہتا ہے بلکہ وہ یہاں اپنی جڑیں بھی بدستور قائم رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کے مفادات موقوف نہ جائیں۔ و ہ اس خطہ میں ایران کو بھی نکیل ڈالنا چاہتا ہے اور افغانستان میں فتح کی ٹرافی بھی اٹھانا چاہتا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں عراق، شام اور افغانستان کی جنگوں کے نتائج اور نئی صورتحال پر جمی ہوئی ہیں۔ اس نازک وقت پر پیپلز پارٹی وزارت خارجہ کو ناکام قرار دے رہی ہےاور محض خبر بنوانے کی چاہ میں ہر روز نت نئے بیانات داغ رہی ہے جبکہ پی ٹی آئی سمیت دیگر حزب اختلاف خارجہ پالیسی کے تمام رموز کو نظر انداز کرکے صرف ایک ہی راگ الاپے جارہی ہے کہ نہ صرف یک جنبش قلم امریکہ سے تعلقات منقطع کئے جائیں بلکہ افغانستان کی راہداری بھی بند کردی جائے۔ خورشید شاہ،شاہ محمود قریشی، شیخ رشید اور حزب اختلاف کے سیاستدانوں کواس تناظر میںملکی مفاد کو مد نظر رکھنا چاہئے ا نکی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو مزید متنازع نہ بنائیں۔ سیاسی قیاد ت،حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر رہتے ہوئے اس مسئلے کی نازکیوں اور احتیاطوں کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ اس کو پاکستان کے عین مفاد میں سلجھایا جا سکے۔