• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملتان میٹرو منصوبے کی شفاف تحقیقات نہ کرنے پر ایس ای سی پی کے کمشنرز طلب

اسلام آباد ( نمائندہ جنگ)سینٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ نےملتان میٹرو پراجیکٹ کے معاملات پر شفاف تحقیقات نہ کرنےپر ایس ای سی پی کے پانچوں کمشنرز کو طلب کرتےہوئے کہاہےکہ اب تک ملتان میٹرو پراجیکٹ کی تحقیقات کیوں نہیں ہوئیں،جبکہ سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے حکام نے ملتان میٹرو بس منصوبے میں کرپشن سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ چین کا سیکورٹیز ایکسچینج ریگولیٹری کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے ،چین کے سیکورٹیز ریگولیٹری کمیشن نے دسمبر2016میں پہلی مرتبہ ایس ای سی پی سے معلومات حاصل کرنے کی درخواست کی ،جو یابیت ٹیکنالوجی کمپنی لمیٹڈ کیخلاف تحقیقات کر رہی تھی ۔یابیت کمپنی نے 29 جنوری 2015 کو انکشاف کیا تھا کہ ملتان میٹرو بس منصوبے میں تین کروڑ25لاکھ ڈالر کا منافع ہوا ہے اور ملتان میٹرو بس منصوبے سے ایک کروڑ95لاکھ ڈالر کی ادائیگی بھی ہو چکی ہے۔،ایس ای سی پی نے کہا کہ ملتان میٹرو بس منصوبے میں کر پشن کا کیس ایف آئی اے کو بھجوا دیا ہے،اسٹیٹ بنک سے حبیب رفیق کمپنی کا ٹرانزیکشن منگوایا ہے،یہ ریکارڈ چینی ریگولیٹر کو بھجواد یا ہے،چینی ریگولیٹر یابیت کمپنی کیخلاف تحقیقات کر رہی ہے،تحقیقات مکمل ہونے پر پاکستان میں میٹرو بس منصوبے کی تحقیقات کا دائر ہ بڑھایا جائے گا،چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ چین اس فراڈ کی تفتیش کر رہاہے جو فراڈ پاکستان میں ہوا ہمارے ادارے اس حوالے سے بروقت اقدامات کیوں نہیں کرتے، ایس ای سی پی کا کام تھا کہ ملک کو بدنامی سے بچاتے اور متعلقہ اداروں کے ساتھ ملکر اس کی تفتیش کرتے ۔ ایس ای سی پی کی بدولت ملک کی پہلے ہی بہت بدنامی ہو چکی ہے۔

ایس ای سی پی کی کارکردگی سے میں مطمئن نہیں، ملتان میٹرو بس منصوبے کا فرانزک آڈٹ کیا جائیگا۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ حال ہی میں سرکاری اداروں کی آڈٹ رپورٹ تیار کی گئی ہے، 293 کیسزمیں سے 387 ارب روپے کی غیر قانونی ادائیگیاں ، کرپشن ، فراڈ کے معاملات سامنے آئے ہیں ۔جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مختلف اداروں کو بلا کر کیسز کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گااور ہدایت کی کہ ادارے آڈیٹر جنرل آفس کے ساتھ میٹنگ کر کے اپنی چیزوں کو واضح کر کے کمیٹی میں شرکت کریں۔تحقیقات کے مطابق کیپٹل انجینئرنگ نے بیرون ملک سے یابیت کو ادائیگیاں کیں ۔

یہ منصوبہ حبیب رفیق پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کو دیا گیا تھا جس نے کیپٹل انجینئرنگ کنسٹرکشن کمپنی کو لیز پر دیا تھا اور اس کمپنی نے یابیت کمپنی کو ٹھیکہ دے دیا ۔ کیپٹل انجینئرنگ کنسٹرکشن کمپنی پاکستان میں رجسٹرڈ بھی نہیں اور جو پتہ اس کمپنی نے لکھوایا تھا وہ اس پتے پر موجود نہیں، یابیت کو ملتان میٹرو بس کا 86فیصد منافع دیا گیا،کمیٹی کو بتایا گیا کہ یابیت نامی کمپنی چین میں رجسٹرڈ ہے جس کے سی ای او کے پاکستان میں قائم یابیت کمپنی میں 70 فیصدشیئرز ہیں ،وزیرا علیٰ پنجاب ، سینیٹر کلثوم پروین اور سینیٹر مشاہد حسین کی طرف سے اس کمپنی کو تعریفی خطوط بھی لکھے گئے ہیں جن کی دفتر خارجہ سے تصدیق بھی ہوئی ہے،کمیٹی کو بتایا گیا کہ معزز سینیٹر ز نے ان خطوط کے حوالے سے تردید کی ہے۔

علاوہ ازیں کمیٹی میں سولر پاور جنرنیٹر سسٹم کی درآمداور برآمد کے حوالے سے درپیش مسائل کا بھی جائزہ لیا گیا ۔ کسٹم حکام نے بتایا کہ بارڈرپر ایسی کوئی چیز نہیں جس سے ان کو مسائل کا سامنا ہو ، کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں انجینئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈکے حکام کو طلب کر لیا تاکہ معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جا سکے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایل ای ڈی کی بیٹریاں یہاں نہیں بنتیں وہ سولر سسٹم کیساتھ درآمد کی جاتی ہیں ۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ حال ہی میں سرکاری اداروں کی آڈٹ رپورٹ تیار کی گئی ہے، 293 کیسزمیں سے 387ارب روپے کی غیر قانونی ادائیگیاں ، کرپشن ، فراڈ کے معاملات سامنے آئے ہیں ۔جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مختلف اداروں کو بلا کر کیسز کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گااور ہدایت کی کہ ادارے آڈیٹر جنرل آفس کے ساتھ میٹنگ کر کے اپنی چیزوں کو واضح کر کے کمیٹی میں شرکت کریں۔

تازہ ترین