• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے سالوں میں ہر گھر میں UPS لگوائے جارہے تھے، جو نالاں تھے کہ ہم کیوں لگوائیں، گھر میں سائرنگ خراب ہوجائیں گی، وہ سب بھی آخر کو تنگ آکر UPS لگوانے پر مجبور ہوگئے۔ لگتا یوں ہے کہ سرکار نے ہر کام، تمام شہریوں کے سپرد کردیا ہے۔ جو دکاندار ہیں، وہ اپنے سیکورٹی گارڈ رکھیں، جن کے پاس گاڑیاں ہیں وہ سیکورٹی الارم لگواکر اپنی گاڑی خود محفوظ کریں۔ جو لوگ گھروں میں خود کو چوروں سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں وہ سیکورٹی کمپنیوں سے رابطہ کریں اور ہاؤس الارم لگوائیں۔ مختصر یہ کہ سرکاری ذمہ دوش پوش، آپ جانیں آپ کا کام جانے کیونکہ پولیس کو وزیروں کی سیکورٹی کرنی ہوتی ہے، وزیروں کی وزیراعظم کی، وزیراعظم کو صدر کی، چاہے اس کیلئے چیف جسٹس کو فون کرنا پڑے کہ چیف جسٹس کے گھر کھانے پر جانا پڑے، راج کر گیا خالصہ!
اب جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے، لوڈشیڈنگ بھی طویل سے طویل تر ہوتی جارہی ہے، یو پی ایس بے چارہ کئی گھنٹے نہیں چل سکتا ہے، کسی کی بیٹری فیل ہوتی ہے تو کسی کا ٹرانسفارمر، لوگوں نے تنگ آکر وہ ٹیبل فین خریدنے شروع کردیئے ہیں جو بیٹری سے چلتے ہیں۔ پھر بیٹری بھی گھنٹہ بھر ساتھ دیتی ہے۔ بجلی ہے کہ بیک وقت دو گھنٹے کیلئے کم از کم جاتی ہے۔ لوگ ہاتھ کے پنکھے تلاش کررہے ہیں، بان کے پلنگ تلاش کررہے ہیں۔ گرم لو کو غنیمت سمجھ رہے ہیں۔قیامت یہ ہے کہ پانی نلکوں سے تو غائب ہوا تھا، اب زمین کے نیچے سے بھی غائب ہوتا جارہا ہے، وجہ یہ ہے کہ ہر گھر، ہر ہوٹل اور ہر بلڈنگ والوں نے بورنگ کراکر اپنی اپنی موٹر لگوالی ہے، پہلے 30 فٹ پانی نیچے تھا، پھر 50 فٹ ہوا، پھر 90 فٹ اور اب 110 فٹ پر پہنچ چکا ہے جو کوئی سکت رکھتا ہے کہ سرکاری ٹینکر سفارش سے ڈلواگے اس کی سفارش کے باوجود باری 24 گھنٹے بعد آتی ہے، وہ بھی اس لئے کہ آپ صرف 50 روپے دیکر ٹینکر پڑوارہے ہیں۔ البتہ 500 روپے دیکر پرائیوٹ ٹینکر منگوائیں تو آدھے گھنٹے میں آجائے گا۔ کراچی میں یہی ٹینکر 1000 روپے میں آتا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ پانی کا بل الگ دو، ٹینکر کا بل الگ، بجلی کا بل الگ دو اور بیٹری کا پانی الگ منوگواؤ، گھر کی حفاظت ہو کہ دکان کی حفاظت،اس کیلئے گارڈ الگ رکھو اور الارم الگ لگواؤ، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جب ہر گھر ہر ہوٹل، ہر بلڈنگ بورنگ کرائے گا تو زمین کے نیچے پانی کی سطح خطرناک حد تک ختم ہوجائے گی، نہ سی ڈی اے کو ہوش ہے نہ حکومت کو کہ ان کے سامنے اور طرح کے مراحل درپیش ہیں۔ اب رہا گیس کا مسئلہ، تو پیٹرول 25 پر ہفتہ وار چھٹی الگ اور پریشر کم دینے کی روایت الگ، اس لئے ہفتے میں دو چھٹیاں دفتروں کی اور دو چھٹیاں گیس کی تو کہیں نہیں گئیں۔ البتہ کسی بھی چیز کے بل میں کمی تو نہیں ہوگی، زیادتی یقینا ہوگی۔ساری دنیا میں ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن، چند مخصوص علاقوں میں گاڑی لے جانے کی ممانعت ہوتی ہے، کچھ علاقے پیدل چلنے والوں کیلئے مخصوص ہوتے ہیں، ٹوکیو سے پیرس تک یہ اصول عام ہے، ہم سے ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
اب تو پارلیمنٹ اور پریذیڈنٹ ہاؤس کو بچانے کیلئے ٹیکسیوں اور بسوں کا جانا وہاں ممنوع ہے تو بس والوں نے اپنی مرضی سے جگہ جگہ اپنے اڈے بنالئے ہیں، بالکل اس طرح جیسے آب پارہ میں جتنے فٹ پاتھ ہیں وہ تھڑا دکانیں ہیں، آپ چل نہیں سکتے، مہینے میں ایک دفعہ سی ڈی اے کو ابال اٹھتا ہے، ٹرک لاکر بے چارے رھڑیوں والوں کی شامت لاتے ہیں، پیسے لیکر پھر چھوڑ دیتے ہیں، ایک دن سر پر ہاتھ مارکر شہناز وزیرعلی بھی کہنے لگیں کہ جدھر سے سنو یہی سدا آرہی ہے کہ ہر جانب رشوت کا بازار گرم ہے، میں نے ہنس کر کہا ”حکومت تو آپ کی ہے، بے بس ہوکر بولیں کہاں کہاں دھیان کریں اور کسے کسے روکیں“۔ اب جب سرکار، علم ہونے کے باوجود بے بس نظر آتی ہو تو بھلا ایرا غیرا کس شمار میں ہے۔
اب کیبل والوں ہی کو لو، ایک تو ہر پروگرام کے ساتھ چوڑی پٹی اشتہاروں کی چلتی ہے، اس سے پیسے کماتے ہیں، پھر رنگ گورا کرنے سے لیکر وزن کم کرنے کی عطائی دوائیوں کے اشتہار دس دس فٹ تک آتے ہیں، کوئی روکنے والا نہیں ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے، اس پر مستزاد یہ کہ چار پانچ چینلوں پر ہر وقت فلمیں چلائی جاتی ہیں، چھوٹے شہروں میں تو ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کی بیوی کی فرمائش پر فلمیں چلتی ہیں، لطف کی بات یہ ہے کہ جب بی بی کو بچے کا نیپی بدلنا ہوتا ہے تو وہ فون کرکے فلم رکوادیتی ہیں اور بعد میں فون کرکے پھر فلم وہیں سے شروع کراتی ہیں جہاں سے رکوائی گئی تھی۔
یہ بھی ہوتا ہے کہ فلاں چینل والے اپنے پروگرام اور اپنے چینل کو آگے رکھنا چاہتے ہیں تو کیبل والوں کی مٹھی گرم کرکے اپنا کام چلالیتے ہیں۔ یہ بھی قواعد و ضوابط ہیں کہ ایک مقررہ حد تک اشتہار چلائے جائیں مگر یہ بھی کون چیک کرتا ہے۔ پانچ منٹ کی جگہ 12 منٹ اشتہار چلتے ہیں۔ پروگرام یا ڈرامہ 15 منٹ کا اور اشتہار 17 منٹ کے ہوتے ہیں۔ پوچھنے والے پوچھتے رہتے ہیں، چلانے والے چلاتے رہتے ہیں۔علاوہ ازیں ہر چینل پر لازم ہے کہ وہ پبلک ایجوکیشن کیلئے ہر روز کم از کم دس پندرہ اشتہار چلائے مگر وہ تو اپنے اشتہار چلاتے ہیں کو جس میں لڑکی کا فون نمبر پتہ کرنے کیلئے لڑکے اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ کون لوگ ہیں جو ایسے اشتہاروں کو سنسر کرتے ہیں اور چلانے کی اجازت دیتے ہیں۔لو دیکھو میں لکھنے شروع ہوئی تھی گھر گھر پانی کیلئے بورنگ پر، اب جو خان پور ڈیم کو بھی خشک ہوتے دیکھا ہے تو میرے ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئی ہیں، بالکل ویسے جیسے بورنگ کے باوجود ہماری بلڈنگ میں پانی نہیں چڑھ رہا ہے، یہ سارے شہر کا فسانہ ہے، پانی سے کیبل تک، کس کس کا دکھڑا بیاں کریں!
تازہ ترین