• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہاں پاکستان کی تاریخ سیاست، آمریت اور جمہوری واقعات سے بھری پڑی ہے وہیں کئی اہم اور نازک انتخابی معرکے بھی تاریخ کے صفحات کی زینت ہیں، قیام پاکستان کے بعد سیاست اور جمہوریت کی بساط جلد لپیٹ دینے والے آمر نے بزور طاقت عوام پر حق حکمرانی مسلط کرنے کے لئےعوام پر ووٹ کی آزمائش ڈالی تو آزاد وطن کی جدوجہد وکامیابی کے عظیم سفر کی اہم کردار محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ انتخابی مہم چلانے سے انتخاب ہرانے تک جو سلوک روا رکھا گیا قوم آج بھی اس پر شرمندہ ہے لیکن اگر کوئی شرمسار نہیں تو وہ جنہوں نے اس ملک کےعوام کو حقیقی جمہوریت سے ہمیشہ محروم رکھا ہے۔ مزید کسی واقعہ کو بیان کرنے کی بجائے ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائد کی بہن کے ساتھ اس ناروا سلوک کی وجہ اور اس کے کردار کون تھے؟ کن سیاسی بازی گروں اور جمہوریت پسندوں نے آمر کا ساتھ دیا تھا؟ وہ کون تھے جو ایک ناپاک جانور کے گلے میں لالٹین ڈال کر گلیوں میں توہین کے مرتکب ہوئے؟ وہ کون ہیں جو آمر کی گود میں بیٹھ کرعوام کے ووٹ کا تقدس پامال کرتے رہے؟ اس ملک میں گندی سیاست کی رسم کا آغاز کس نے کیا؟ ہم اپنی تاریخ کو بھول سکتے ہیں نہ ماضی کو تاریخ کی کتابوں سے کھرچ سکتے ہیں ہاں ہم اس سے سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں اور اس کو اصلاح و بہتری کے لئے نمونہ ضرور بنا سکتے ہیں۔ لیکن سوال ہے کہ آج عوام کے مفاد کی بات کرنے والوں، ان کی نمائندگی کا حق جتالانے والوں، ووٹ کے تقدس کی آواز بلند کرنے والوں اور حق حکمرانی کی صدا دینے والوں نے عوام کے ساتھ کیا کچھ کیا ہے؟ ان کے بنیادی مسائل کے حل سمیت اس ملک کی دنیا میں شان بڑھانے کے لئے کیا کیا ہے؟ ہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر کسی نے اپنے ماضی کو بھلا کر اور تائب ہو کر بدلنے کی کوشش کی تو پھر اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ کہتے ہیں کہ جو بوئو گے وہی کاٹو گے نظر دوڑائیں تو آج بھی وہی کردار سرگرم ہیں اور قوم کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو رہا ہےجو ماضی کی تلخ اور تکلیف دہ حقیقت ہے۔
لاہور کا حلقہ این اے 120گویا 20 کروڑ عوام کیلئے اہم ترین ٹیسٹ کیس بنا ہوا تھا،17ستمبر کا دن، صبح سے شام تک ملکی اور عالمی میڈیا کے لئے بھی توجہ کا باعث رہا، انتخابی عمل سے پہلے کئی نجی سروے کئے گئے جن کے مطابق محترمہ کلثوم نواز کو محترمہ یاسمین راشد پر دو تہائی برتری کے ساتھ پروجیکٹ کیا گیا۔ بعض تجزیہ کار تو قرار دے رہے تھے کہ میاں صاحب نے ایوان اقتدار سے رخصتی کے بعد محض اقامے پر نکالنے کی تکرار کر کے عوام کو مطمئن کر لیا ہے جبکہ جی ٹی روڈ کے چار روزہ سفر کے دوران اپنے بے قصور ہونے کے دفاع میں طاقتوروں اور عدلیہ پر گٹھ جوڑ کا الزام لگا کر مخالفین کو بری طرح پچھاڑ دیا ہے، پھر چچا اور کزنز کے چھوڑ جانے کے بعد صاحبزادی محترمہ کی ترقی کے بیانیے کی بجائے سازشی تھیوریز پر مشتمل بھرپور مہم سے مقابلے کو ون سائیڈڈ بھی قرار دے دیا گیا، تاہم اتوار کی شام کے بعد آنے والے نتائج نے ان اندازوں اور تخمینوں کو تقریباً غلط ثابت کردیا، گو اعدادوشمار کے اعتبار سے تو سابق وزیراعظم کی اہلیہ کلثوم نواز 13ہزار ووٹوں سے انتخاب جیت گئیں لیکن وہ آبائی حلقہ جہاں سے تین دہائیوں سے کوئی امیدوار محض نام کا ہی مقابل ہوتا تھا وہاں سے جیت کا مارجن محض ایک چوتھائی رہ گیا، یعنی گزشتہ انتخابات میں 40/42ہزار ووٹوں کی شاندار فتح اس مرتبہ محض 10/12ہزار ووٹوں کی جیت میں سمٹ کر رہ گئی، جیتنے اور ہارنے والوں کی توجیہات اپنی جگہ لیکن اس ایک حلقے کے انتخاب نے بہت سے راز افشا اور کئی حقائق کھول کر رکھ دئیے ہیں، نتائج کے بعد سابق وزیراعظم اب اپنی ہی حکومت پر اپنے لوگوں کے اغوا کا الزام لگا رہے، بعض آزاد ذرائع کی اطلاع ہے کہ ن لیگ کے ایک یوسی ناظم کو انتخاب کے روز ’’گھر‘‘ پر رہنے اور ایک دوسرے مقامی سیاسی کارکن کو ’’محفوظ‘‘ جگہ بھجوا دیا گیا تھا تاہم سرکاری سطح پر اس بارے میں کوئی تصدیق نہیں ہوسکی، تاہم یہ امر بھی باعث تشویش اور قابل افسوس ہے کہ صوبائی حکومت یا اعلیٰ قیادت کو علم ہو جانے کے باوجود یہ الزام انتخابی عمل کے بعد ہی کیوں دھرا گیا؟ کیا یہ حلقے میں ن لیگ کی اندرونی سیاسی چپقلش کا نتیجہ تھا یا کچھ اور؟ نتائج کے بعد محترمہ مریم نواز کا کہنا ہے کہ ایک طرف سازش کرنے والے اکٹھے تھے اور دوسری طرف ن لیگ اکیلی تھی، حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ نتائج کے بعد بھرپور انداز میں جیت کا جشن منایا جارہا ہے تو کئی اہم وفاقی و صوبائی وزراء باری باری میڈیا پر آکر عوام کو ووٹ ڈالنے سے زبردستی روکنے، اضافی سیکورٹی کے نفاذ اور وقت نہ بڑھانے کا گویا ’’آرگنائزڈ‘‘ دھاندلی کا الزام لگا کر تحقیقات کا مطالبہ بھی کررہے ہیں، سوچنے کی بات یہ ہے ایک حلقے کے 220پولنگ اسٹینشنز پر پورا دن ملکی و غیرملکی میڈیا کی عملی موجودگی کے باوجود ہزاروں ووٹرز نے محروم رہ جانے یا ووٹ ڈالنے سے روکنے کی باضابطہ شکایت کیوں نہیں کی؟ کیوں کیمروں پر نظر نہیں آیا کہ 5بجے تک ہزاروں ووٹرز پولنگ اسٹیشنز میں موجود ہیں اور انہیں ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ وفاق اور پنجاب میں حکومت کس کی ہے اور ادارے کس کے ماتحت ہیں؟ ووٹنگ کے عمل اور الزامات پر مبنی ان سوالوں کو ’’جمہوریت کا حسن‘‘ سمجھ کر نظرانداز بھی کر دیں تو انتخابی نتائج تو خود چیخ چیخ کر جواب دے رہے ہیں، ان میں ایک بڑا جواب دو بڑی جماعتوں سمیت درجنوں جماعتوں کے امیدواروں کے مقابلے میں ایک نئی ’’سیاسی‘‘ جماعت کے امیدوار کی تیسری پوزیشن بھی ہے۔ پھر ایک بنیادی سوال جو سب کے ذہنوں میں ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کا آبائی حلقہ انتخاب اس مرتبہ فتح کس نے کیا؟ نتائج کس کے لئے پیغام، کس کے لئے دھمکی اور کس کے لئے ’’ویکنگ کال‘‘ ہیں؟ کچھ تو کسی حد تک واضح ہے کہ پاناما ہو یا اقامہ، یہ بہانہ بہت کارگر ثابت ہوا ہے دوسری طرف ووٹ سے عوامی ردعمل نے میاں صاحب کے ’’کیوں نکالا‘‘ کے سوال کا بھی کسی حد تک ازالہ کردیا ہے۔
نقادوں کی نظر میں اپنے گھر میں محض دس بارہ ہزار ووٹوں سے کامیابی دراصل ناکامی کا پہلا باب نہیں تو یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ عوام کے اعتماد کو کسی حد تک زک پہنچی ہے، گویا یہ جیت ہار سی لگتی ہے۔ اب میاں صاحب کیلئے خود کو اقتدار میں واپس لانے کی کوششوں سے کہیں زیادہ اہم خاندان اور پارٹی کے اندرونی اور بیرونی اختلافات کا خاتمہ اور اس کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے، اب انہیں مزید ثابت قدم قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوگی، انہیں اپنے خلاف کیسز کا بہرطور سامنے آکر مقابلہ بھی کرنا پڑے گا جس سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے ساتھ عوام میں پذیرائی اور ان کا اعتماد بھی بحال کرنے میں بھی مدد ملے گی، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی نئے این آر او کی افواہوں کا خاتمہ بھی لازمی امر بن چکا ہے۔ آئندہ ایک سال میں ملکی اور عالمی چیلنجز سے تنہا نمٹنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے اس کے لئے جناب رضا ربانی کی عدلیہ اور آرمی کو آن بورڈ لے کر ’’گرینڈ پولیٹکل ڈائیلاگ‘‘ کی تجویز پر فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہوکہ پھر دیر ہوجائے۔ حلقہ این اے 120میں پیپلزپارٹی کے لئے ڈھائی ہزار ووٹ گویا ’’اسی فیر جواب ہی سمجھئے‘‘ کا پیغام بن چکا ہے، دوسری طرف اتنے شور شرابے اور اتنی ساری ’’مدد‘‘ کے باوجود مسٹر خان کے لئے ’’کامیابی‘‘، دلی ہنوز دور است کے مصداق، ابھی کوسوں نہیں سینکڑوں کلومیٹر دور نظر آرہی ہے جس کے لئے انہیں حلقہ 120کے انتخابی نتائج کو ٹیسٹ کیس بنانا ہوگا، معمر لیکن جوان جذبے کے ساتھ ڈاکٹر یاسمین راشد نے گلی گلی پیدل چل کر خان صاحب کے ’’جوانوں‘‘ کے لئے سیاسی و انتخابی مہم جوئی کی ایک بڑی مثال قائم کردی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ضمنی انتخاب کی تاریخ میں بطور رنر اپ اپنا ریکارڈ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہیں اور یہی ان کی شاندار فتح ہے اگر ان کی جماعت محض دعوئوں اور الزامات کی سیاست کی گندی روایت ترک کر کے اس محنت کو اپنا شعار نہیں بناتی تو 2018کے انتخابات پی ٹی آئی اور اس کے چیئرمین کا آخری انتخاب ثابت ہوں گے۔

تازہ ترین