• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Kurd Homeless Kurdish People In Four Countries

کرد قوم اپنی جداگانہ زبان اور ثقافت کی حامل ہے لیکن اس کے پاس کوئی ملک نہیں ہے۔ ان کی مجموعی تعداد پچیس سے پینتیس ملین کے درمیان بنتی ہے۔ کئی ملکوں میں ان کی وطن کے حصول کی تحریکوں کو جبر کے ساتھ دبا دیا گیا۔

عراق کے خود مختار علاقے کردستان میں آئندہ پیر یعنی پچیس ستمبر کو آزادی کے لئے ریفرنڈم ہو رہا ہے۔ اس ریفرنڈم کے مثبت نتیجے کی صورت میں کرد قوم کو فوری طور پر آزادی حاصل نہیں ہو گی بلکہ اُسے بغداد حکومت کے ساتھ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا مذاکراتی عمل شروع کرنا ہو گا جو کئی برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔

Kurd_L2

اس ریفرنڈم پر ترکی کی تشویش میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اُس نے ریفرنڈم کے تصور کو قطعاً پسند نہیں کیا ہے۔ ترکی کو کردوں کی علیحدگی پسندی کی ایک مضبوط تحریک کا سامنا ہے۔ اسی طرح شام میں بھی کرد مسلح باغیوں کو امریکی حمایت حاصل ہے اور ان کے عسکری گروپ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کو جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جاری بھرپور عسکری کارروائیوں میں امریکی فضائی تعاون بھی حاصل ہے۔ ترکی کو اس صورت حال پر بھی تشویش ہے۔

کرد بنیادی طور پر پہاڑی علاقوں کے مکین تصور کیے جاتے ہیں اور یہ تقریباً نصف ملین مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں۔ کئی مقامات پر ان کی آبادی کا تناسب 100 فیصد کے قریب ہے۔

یہ جنوبی ترکی سے شمالی شام اور عراق کے علاوہ ایران تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ترکی میں مجموعی آبادی کا یہ بیس فیصد (بارہ سے پندرہ ملین) ہیں جبکہ عراق میں ملکی آبادی کا پندرہ فیصد سے زائد (سینتالیس لاکھ) ہیں۔

شام میں کل آبادی کا پندرہ فیصد (بیس لاکھ سے زائد) ہیں اور ایران میں یہ کل آبادی میں دس فیصد سے کم (ساٹھ لاکھ) ہیں۔

کردوں کی ایک بڑی آبادی آرمینیا، آذربائیجان، جرمنی اور لبنان میں بھی آباد ہے۔

جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق آبادی کے اس تناظر میں کرد عوام کے اتحاد کو مختلف ممالک ایک بڑے خطرے کے طور پر لیتے ہیں۔

ترکی میں کردستان ورکرز پارٹی کو خلاف قانون قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے لیڈر عبداللہ اوجلان ترکی کے ایک جزیرے پر قائم انتہائی سخت سکیورٹی کی جیل میں قید ہیں۔ اس پارٹی کو یورپی یونین اور امریکا بھی دہشت گرد گروپوں میں شمار کرتا ہے۔

تازہ ترین